کینیڈا کے رچرڈ اور آئر لینڈ کی میری نے، جو میاں بیوی تھے، اسلام قبول کیا تو مسلمان ملکوں کی سیر کو چل نکلے۔ ان کے ذہنوں کے کسی دور افتادہ گوشے میں یہ پہلو بھی تھا کہ عالم اسلام کا کوئی حصہ بھایا تو وہاں مقیم بھی ہوجائیں گے۔
مشرقِ وسطیٰ کے کچھ ملکوں کی تقدیس مسلّم، مگر جو سلوک وہاں غیر ملکیوں سے ہوتا ہے، بے شک وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو، اس نے خاصی حوصلہ شکنی کی اور وہاں رہنے کا خیال انہوںنے جھٹک دیا۔ بحث و تمحیص اور تجربوں اور مشاہدوں کی چھلنی سے گزر کر فہرست دو ملکوں تک محدود ہو کر رہ گئی۔ مصر اور پاکستان۔ میری مصر میں آباد ہونا چاہتی تھی۔ بحیرہ روم کی آب و ہوا، عرب ثقافت اور یورپ کا قرب مگر رچرڈ کی سوئی پاکستان پر اٹکی ہوئی تھی۔ واحد مسلمان ملک جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا۔ واحد مسلمان ملک جو اسلام کا قلعہ کہلاتا ہے اور واحد مسلمان ملک جو نیوکلیئر طاقت ہے اور دنیائے اسلام کی طاقت ور ترین فوج رکھتا ہے! چند ماہ قاہرہ اور سکندریہ میں گزارنے کے بعد انہوں نے پاکستان کا رُخ کیا۔ کراچی اترنے کے بعد سب سے پہلا مثبت پہلو جو میری نے نوٹ کیا، انگریزی زبان کی مقبولیت تھی۔ دکانوں کے سائن بورڈ زیادہ تر انگریزی میں تھے۔ تقریباً سارے تاجر اور سارے دفتری کارکن انگریزی سمجھ لیتے تھے اور مافی الضمیر بیان کرنے پر قادر تھے۔ دو دن کے بعد وہ اسلام آباد چلے گئے۔
اسلام قبول کرنے کے بعد میری کی کوئی نماز قضا نہیں ہوئی تھی۔ اسلام قبول کرتے وقت جب اسلامک سنٹر اٹاوہ کے ناظم مولانا صاحب نے اسے بتایا کہ نماز سے کسی حال میںمفر نہیں ہے، بیماری ہو یا سفر، قیام ہو یا غریب الوطنی، جنگل ہو یا دریا یا دشت یا کوہستان۔ نماز ہر حال میں ادا کرنی ہے۔ یہاں تک کہ حالتِ جنگ میں بھی اللہ کی کتاب کا حکم ہے کہ ایک گروہ نماز ادا کرے اور دوسرا لڑائی جاری رکھے۔ تو میری نے اسے اپنی زندگی کے دورِ نو کا جزولاینفک بنا لیا۔ وہ جہاز میں بھی نماز ادا کرتی آئی۔ لیکن پاکستانی دارالحکومت میں اسے جو تجربہ ہوا وہ عجیب و غریب تھا۔ جناح سپر مارکیٹ میں کچھ خریداری کرتے وقت مغرب کی اذان ہوگئی۔ دونوں قریب ترین مسجد میں پہنچے۔ میری نے وضو خانے کا پوچھا تو وہ حیران ہوئی ایک بدبودار جگہ تھی جہاں مرد ہی مرد تھے۔ اس نے پوچھا کہ خواتین کا وضو خانہ کہاں ہے۔ ایک صاحب ہنسے اور ہنس کر کہنے لگے۔ خواتین کے لیے الگ وضو خانہ نہیں ہے۔ بس یہی جگہ ہے۔ جوں توں کرکے وضو کیا جس کے دوران مسجد سے ملحقہ مدرسہ میں زیرتعلیم بچے اور لڑکے جمع ہوگئے اور حیرت سے دیکھنے لگے۔ انہوں نے غالباً سفید فام عورت کو کبھی نہیں دیکھا تھا اور اگر دیکھا بھی تھا تو وضو کرتے نہیں دیکھا تھا۔ مسجد کے اندر جماعت ہوچکی تھی اور آخری صف تک کوئی جگہ خالی نہیں تھی جہاں وہ نماز ادا کرتی۔ کافی دیر انتظار کرنے کے بعد ایک گوشہ فارغ ہوا تو اس نے نماز ادا کی۔ سلام پھیرا تو ایک مولوی صاحب نے اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں اسے تنبیہ کی کہ اسے مردوں کی موجودگی میں اس طرح نماز نہیں ادا کرنی چاہیے۔ انہوں نے اسے یہ تلقین بھی کی کہ عورتوں کو نماز گھر میں پڑھنی چاہیے۔ اس نے جواب دیا کہ مغرب کا وقت مختصر ہوتا ہے۔ میں شاپنگ کررہی ہوں۔ ہوٹل جس میں ہم ٹھہرے ہوئے ہیں، یہاں سے دور ہے۔ اگر میں اب نہ پڑھتی تو مغرب قضا ہوجاتی ۔ اس نے پوچھا کہ آپ مسجد میں خواتین کے لیے الگ وضو خانہ اور نماز کے لیے ایک گوشہ کیوں نہیں مخصوص کرتے؟ مولوی صاحب نے اسے جواب تو کوئی نہ دیا لیکن جس ناپسندیدگی سے انہوں نے اسے دیکھا، اس سے اسے اپنے حلق میں ایک تلخ سے ذائقے کا احساس ہونے لگا۔
تکلیف دہ ترین تجربہ رچرڈ اور میری کو جی ٹی روڈ پر ہوا جب انہوں نے رینٹ اے کار کی ایک گاڑی پر راولپنڈی سے لاہور تک کا سفر کیا۔ میری کو کسی نے بتایا تھا کہ موٹروے پر خواتین کی نماز اور وضو کے لیے الگ انتظام ہے لیکن وہ اندرون پاکستان کی اصل زندگی کا مشاہدہ کرنے لیے تاریخی شاہراہ گرینڈ ٹرنک روڈ پرسفر کرنا چاہتی تھی۔ راستے میں دو نمازیں آئیں۔ عصر اور مغرب۔ نماز نہ پڑھنے کا یا قضا پڑھنے کا اس کے ہاں تصور ہی ناپید تھا۔ یہ بات اس کے فہم سے بالاتر تھی کہ جب اذان ہوگئی اور موذن نے خدا کا حکم پہنچا دیا کہ حیَّ عَلَی الصلٰوۃ۔ نماز کی طرف آئو تو پھر نماز کیوں نہ پڑھی جائے۔ شاہراہ کے دونوں کناروں پر کسی مسجد میں خواتین کے لیے وضو کا انتظام تھا نہ نماز ادا کرنے کا بندوبست۔ ایک ریستوران میں اس نے عصر کی نماز ادا کی اور جب سلام پھیرا تو اسے یوں لگا جیسے وہ نمائش گاہ میں ہے اور اس پر ٹکٹ لگا ہوا ہے۔ ہوٹل کے بیرے اور بسوں سے اترے ہوئے قصبوں اور قریوں کے مرد و عورت اسے یوں دیکھ رہے تھے جیسے وہ کوئی عجیب الخلقت جانور ہو۔
لاہور میں بھی کم و بیش یہی صورتحال تھی۔ شاید ہی کوئی ایسی مسجد تھی جس میں خواتین کے لیے خصوصی انتظامات ہوں۔ ایک فیچر جو اس نے خاص طور پر نوٹ کیا یہ تھا کہ نماز کے وقت کسی مسجد میں عورتیں نہیں نظر آتی تھیں۔
ملائیشیا کی پرواز کے دوران اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک پاکستانی نے ان کی داستان سنی۔ اس نے جواب میں ایک ہی فقرہ کہا جو یوں لگتا تھا وہ رچرڈ اور میری کے بجائے اپنے آپ سے کہہ رہا ہو۔ ’’جس ملک میں مذہبی گروہوں کے رہنما اپنے پیروکاروں سے یہ کہیں کہ یہ عورتیں ڈائنیں ہوتی ہیں، تمہارے اعمال ہڑپ کر جائیں گی، اس ملک میں خواتین کے لیے مسجدوں میں جگہ کہاں ہوگی!‘‘