قاضی جاوید سے تعارف 1974 میں لاہور آتے ہی ہوگیا تھا. وہ ان دنوں شعبہ فلسفہ سے وابستہ تھے اور نیو کیمپس کے ہوسٹل میں رہتے تھے، میں بھی ہوسٹل میں رہتا تھا، سو روزانہ کہیں نہ کہیں سامنا ہو ہی جاتا تھا، کبھی مین کوریڈور میں، کبھی کیفے ٹیریا تو کبھی شاپنگ سنٹر میں. بہت سارے دوست مشترک تھے، پرلطف نشستیں ہوتیں. اس زمانے کی آپس کی گفتگو کی کچھ مخصوص ٹرمنالوجی ہوتی تھی، قاضی صاحب اب بھی جب ملتے تو اس کا استعمال بھی ہوتا. اب اس ٹرمنالوجی کو سمجھنے والے بہت کم ہوں گے ، رابطے میں تو کوئی نہیں.
قاضی صاحب ان دنوں پورا نام قاضی جاوید حسین استعمال کرتے تھے. منظور اعجاز صاحب بھی ان دنوں شعبہ فلسفہ میں تھے اور سید اکمل حسین اور عزت مجید شعبہ انتظامیات میں. ان سب نے کلام شاہ حسین پڑھنے کی ہفتہ وار نشست شروع کی. شعبہ فلسفہ کے نیچے لان میں اس مجلس میں ہم سب شریک ہوتے.
اس طرح کی نشستیں، شاہ حسین کا ذکر، یہ سب باتیں پنجاب یونیورسٹی اسٹیبلشمنٹ کیلئے پہلے ہی پسندیدہ نہیں تھیں، پھر اسے ضیاءالحق کی چھتر چھاؤں میسر آگئی، سو قاضی صاحب پھر زیادہ عرصہ ہونیورسٹی میں نہ رہ سکے. کچھ عرصہ تعلیمی بورڈ کے پی آر او رہے، پھر طویل عرصہ اکادمی ادبیات کے لاہور میں ریزیڈنٹ ڈائریکٹر رہے. اس کے بعد ادارہ ثقافت اسلامیہ کے ڈائریکٹر تھے. تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی جاری رہا، اردو اور انگریزی اخبارات میں کالم بھی لکھے.
اکادمی ادبیات اور ادارہ ثقافت اسلامیہ کے زیر اہتمام تقریبات کے علاوہ بعض نجی محافل کا اہتمام بھی کرتے رہے. درحقیقت وہ خود ایک انجمن تھے. دل نشین انداز میں مدلل گفتگو کرتے، اختلاف بھی کرتے تو ایک منکسرانہ مسکراہٹ کے ساتھ.
قاضی جاوید حسین 7فروری 1946 کو شمالی لاہور میں پیدا ہوئے تھے اور ساری زندگی یہیں گزاری. رواداری، تحمل اور بردباری کی یہ تجسیم آج رخصت ہوئی. لاہور کچھ اور غریب ہوگیا.
قاضی جاوید کی کچھ کتابیں
برصغیر میں مسلم فکر کا ارتقا، وجودیت،
جدید مغربی فلسفہ،
پنجاب کے صوفی دانشور،
ہندی مسلم تہذیب،سرسید سے اقبال تک،
فریڈرک نطشے، حیات و افکار کامطالعہ،
لوگوں کو سوچنے دو (برٹرینڈرسل)،
افکار شاہ ولی اللہ
برٹرنڈ رسل.. زندگی اور افکار،
بیسویں صدی کا فلسفہ
فلسفہ ثقافت اور تیسری دنیا، خاموش اکثریت کا احتجاج،
اسلام اور مغرب،
محبت اور انقلاب
منڈلی(خاکے)
“