"سنہری تختی۔مجھے موکاشاہ جادوگر کےبارے میں تفصیل بتائی جائے"۔عمرو نے کہا تو اچانک سنہری تختی پر چمک سی نمودار ہوئی اور پھر اس پر سیاہ حروف پھیلتے چلے گئے۔ عمرو عیار کو بتایا جاتا ہےکہ موکاشا جادوگر بے حد سفاک،بے خطرناک جادوگر ہے۔اس جادوگر کو پاتال کے کالے بادشاہ جادوگر کی سر پرستی حاصل ہے جس نے اس کی حفاظت کیلیے تین طلسمات قائم کر رکھے ہیں۔عمرو عیار کو موکاشا جنگل میں جا کر ان خوفناک طلسمات کو ختم کرنا ہو گا۔اس کے بعد ہی وہ موکاشا جادوگر کے پاس پہنچ کر اسے ہلاک کر سکتا ہے"۔سنہری تختی پر الفاظ ابھرے۔
عمرو کی تلوار کاغذ کی مگر قیامت کی .جدھر چلتی ، ادھر سے چیخنے کی صدا بلند ہوتی .
ذو الفقار، علی بن ابی طالب کی مشہور تلوار، جس کی نوک قینچی نما اور دشموں پر جس کا وار جان لیوا. وہ سیاہی سے تلوار کا کام لیتا ، جنگ کا نقشہ کھینچتا ، کبھی سامو گڑھ ، کبھی کہیں کسی اور دشت کی سیاحی کو نکل جاتا .وہ آگ کے دریاؤں کو پار کرتا ، سمندر سے کھیلتا ، طلسم اس کی مٹھیوں میں قید اور وہ جب شان سے کھڑا ہوتا تو تو یہ اس کی تجلی کہ دیکھنے والے احترام سے جھک جاتے . اس کے پاس سنہری تختی بھی تھی اور جب وہ اقدار و تھذیب کے پرانے قصّے سناتا تو آنکھوں سے اشک جاری ہو جاتے .
پیتل کا گھنٹہ ، رضو باجی ، مالکن ، مجو بھیا جیسی شاہکار کہا نیاں اردو زبان کو عطا کیں . دارا شکوہ ، صلاح الدین ایوبی اور غالب جیسے تاریخی ناول لکھ کر اردو دنیا میں بڑا کارنامہ انجام دیا. وہ حقیقت میں سلطاں تھا . وہ غیب کے افسانوں کو حقیقت کے طلسمی آئینہ میں قید کر لیتا تھا . اس کے الفاظ غیب سے اترتے اور قاری کو سحر زدہ کر جاتے . اس دور میں اور آج بھی جو زبان قاضی صاب کی ملکیت تھی ، وہ زبان ، وہ کرشمہ کہیں اور نہیں ملتا .ایک کہانی آنکھیں سے یہ طویل اقتباس کہ کھل جا سم سم کے دروازے سے ، آپ بھی اسے دریافت کر سکیں …
’’سبحان اللہ جہاں پناہ! سبحان اللہ۔‘‘
’’بیگم!‘‘ (بھاری اور رنجور آواز میں)
’’جہاں پناہ اگر ہندوستان کے شہنشاہ نہ ہوتے تو ایک عظیم مصنف، عظیم شاعر، عظیم مصور اور عظیم موسیقار ہوتے۔‘‘
’’یہ تعریف ہے یا غم گساری؟ بہرحال جو بھی ہے مابدولت کے بے قرار دل کو قرار عطا کرنے کی جسارت کرتی ہے۔‘‘
’’نصیب دشمناں، کیا مزاج عالم پناہی…؟‘‘
’’ہندوستان کے تخت پر جلوس کرنا آسان ہے، لیکن سچ بولنا دشوار ہے، دشوار تر۔‘‘
’’نورجہاں بیگم کے سامنے بھی عالم پناہ؟‘‘
’’بیگم!‘‘
’’ظل الہی کو جو ارشاد فرمانا ہے، ارشاد فرما دیا جائے، پھر جلاد کو حکم دیا جائے کہ ہمارے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈال کر الفاظ پر مہریں لگا دے۔‘‘
’’خوب، جوانی آنکھیں قبول کر چکی۔ بڑھاپا سماعت کو سولی چڑھا دے۔‘‘
’’کنیز کچھ سمجھنے سے قاصر ہے۔‘‘
’’آپ کے نام کا سکہ روئے زمین کی سب سے شان دار سلطنت کے بازار کا چلن ہے۔ ہندوستان کی مہرِ حکومت آپ کی انگشت مبارک کی زینت ہے۔ زمانہ جانتا ہے کہ جہاں گیر ایک جام کے عوض تاج ہندوستان آپ کو عطا کر چکا ہے، لیکن یہ کون جانتا ہے کہ جہاں گیر آج بھی اپنی محبت کی تکمیل کا محتاج ہے۔‘‘
’’پوری کائنات کو اپنے بازوؤں میں سمیٹ لینے والی محبت اس ایک چھوٹے سے لمحے کی محتاج ہوتی ہے جب عاشق اپنے سینے کا آخری راز محبوب کے سینے میں منتقل کر دیتا ہے۔ آج کون سی رات ہے بیگم؟‘‘
’’شوال کی چودھویں عالم پناہ!‘‘
’’بہت خوب، آج کی رات اس لیے اتاری گئی کہ مابدولت آپ کے سر پر تکمیل محبت کا تاج رکھ دیں۔‘‘
’’ظل الہی! کیا روئے زمین پر کوئی عورت ہے جس کے ہاتھ میں خاتم سلیمانی ہو اور سر پر محبت کا تاج؟‘‘
’’نورجہاں بیگم! رام رنگی کا ایک جام بنائیے اور اس طرح ہونٹوں سے لگا دیجیے کہ جام مابدولت کی آنکھوں سے دور رہے، ایک عمر ہونے کو ہوئی کہ جام میں آنکھیں نظر آ رہی ہیں، وہی آنکھیں۔ وہ بے پناہ آنکھیں۔‘‘
’’جہاں پناہ طبیب شاہی کی مقرر کی ہوئی مقدار شراب نوش فرما چکے۔‘‘
’’یہ کیسی شہنشاہی ہے کہ ایک جام کو ترستی ہے؟ بیگم! ہماری محبت کے جشن تاج
— آنکھیں ( کہانی ، قاضی عبد الستار )
شہنشاہوں کی تاریخ . فوج ، کنیزیں ..اصیلیں.. مغلانیاں، قلمقانیاں..باندیاں، لونڈیاں.. نوکر چاکر ، مصاحب .. ان کی داستاں کوئی لکھ سکتا تھا تو وہ قاضی صاحب تھے .بادشاہ وقت . تیور بھی شاہانہ رکھتے تھے .. محاورہ ہے کہ مرا ہوا ہاتھ بھی سوا لاکھ کا . نواب سے ملنے والا آیا تو وقت رخصتی خالی ہاتھ کیسے جانیں دیں .پیتل کا گھنٹہ دے دیا ان پر لکھنے کو دنیا بھر کی کتابیں اور کہانیاں ہیں . مگر آج قاضی صاحب کے صرف ایک ناول دارا شکوہ پر اکتفا کروں گا . . .. دارا شکوہ پڑھتے ہوئے لگتا ہے ، شاہجہان کا پانچواں بیٹا ، جس نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ، وہی یہ روداد رقم کر رہا ہے .یہ ماضی کا قصّہ نہیں ، یہ آج کا قصّہ ہے . لکھنے والے قاضی صاحب ، تاریخ کے محافظ قاضی صاحب ، اور اس دور کے عینی شاہد قاضی صاحب –.وہ حقیقت میں بادشاہ تھے . جلال و جمال کی شاہانہ مثال . مجھے ایک واقعہ یاد آ رہا ہے . حکومت ہند نے اردو چینل کا آغاز کیا تو میں نے اور تبسم نے اردو کے لئے بہت سے پروگرام بنائے . ٢٠٠٥ کی بات ہے . اردو چینل کی گائیڈ لائن کے مطابق زندہ اردو ادیبوں کو بھی شامل کیا گیا تھا ، جن کے افسانے ، ناولوں پر پروگرام بنائے جا سکتے تھے . اس زمانے میں میرے کیی ناول پروڈیو سر دوستوں کے نام ہو گئے .مشہور اداکارہ تبو کی بہن فرح خان نے بھی پہلے ہیروئن کے کردار میں نام کمایا پھر فلم میکر بن گیی .فرح نے لینڈ اسکیپ کے گھوڑے اور صدی کو الوداع کہتے ہوئے پر اچھا سیریل بنایا .یہ دونوں میرے افسانوی مجموعوں کا نام ہے . میں نے قاضی صاحب سے بات کی . میں ان کے ناول دارا شکوہ پر سیریل بنانا چاہتا تھا . منظوری مل گیی . پروگرام پاس س کرنے سے قبل دوردرشن کی پرانی روایت رہی ہے کہ وہ فلم میکر اور اس کے ٹیکنیکل ٹیم سے ملتے ہیں . میں نے قاضی صاحب کو فون کیا . بولے آ جاؤں گا . جس دن انٹرویو تھا ، وہ وقت پر علیگڑھ سے گاڑی لے کر آ گئے . میں نے انکا استقبال کیا .کچھ پریشان نظر آئے ، بولے ، گر گیا تھا . سر پر گومڑ تھا .کافی چوٹ آیی تھی .مگر زبان کے بادشاہ تھے .مجھے ایک منظر یاد ہے . دوردرشن کے افسران بڑے سے بڑے ہیرو کو بھی نظر انداز کرتے ہیں .مگر میں جیسے ہی قاضی صاحب کو لے کر ہال میں داخل ہوا ، قاضی صاحب کے احترام میں پندرہ سے بیس افسران کا قافلہ اٹھ کھڑا ہوا . قاضی صاحب ہی آ گئے تو کسی طرح کے سوال و جواب کی ضرورت باقی نہیں رہی . قاضی صاحب کو دروازے کے باہر تک چھوڑنے کے لئے بھی یہ قافلہ آیا ، یہ ایک تاریخی واقعہ تھا . ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا . یہ ایک بادشاہ کا جلال تھا ، جس نے ہال میں بیٹھے افسران پر جادو کر دیا تھا .
دارا شکوہ بھی کسی جادو سے کم نہیں . جی چاہتا ہے ، شاہجہان کے کردار میں قاضی صاحب کو دیکھوں ، وہ منظر یاد کروں جب بادشاہ شاہجہان دارا کو لے کے میاں میر کے حجرے میں جاتے ہیں جب علم نجوم کے جاننے والوں نے دارا کے بارے میں پیشن گوئیاں کی تھیں کہ اس کے علم کا ستارہ قطب تارہ ہے— جو کبھی غروب نہیں ہوگا مگر، اس کی زندگی کے ستارے غروب ہوتے نظر آرہے ہیں۔ شہنشاہ شاہجہاں، ممتاز محل کی اس نشانی کو ابھی ٹھیک سے اپنے سینے سے لگا بھی نہیں پایا تھا کہ دارا ایسے بیمار پڑے کہ بچنے کی کوئی امید باقی نہیں رہی۔ میں اس منظر کو اپنے انداز سےڈرامہ میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہوں .
کی کوش کرتا ہوں .
نقیب کی آواز
نقیب: ظلِ الٰہی، شہنشاہ ابو المظفر ، شہاب الدین محمد شاہجہاں، صاحبقرانِ ثانی تشریف لا رہے ہیں۔
شاہجہاں شان سے چلتا ہوا آتا ہے. درباری جھک جھک کر عرشی سلام دیتے ہیں. شاہی حکم دست بدستہ ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ شاہجہاں جلال کے ساتھ تخت طاوس پر بیٹھتا ہے۔
شاہجہاں: ما بدولت آپ کی آمد کو شہزادے کے حق میں نیک فال محسوس کرتے ہیں۔ آپ اس سلطنت کے مانے ہوئے حکیم ہیں۔ اللہ نے آپ کے ہاتھوں میں شفا لکھی ہے— جب بھی ہمیں آپ کی ضرورت محسوس ہوئی، آپ نے سلطنت شاہجہانی کے لیے اپنی خدمات دی ہیں۔
شاہجہاں: (رندھی ہوئی آواز) ما بدولت اپنے لختِ جگر ، اپنے مجبوب بیٹے کی بیماری کا ذکر کن لفظوں میں کریں۔ اسے دیکھنے کی تاب نہیں— صرف اس کی صحت مقصود ہے۔ میں نہیں جانتا، یہ کرشمہ آپ کیسے کریں گے۔ مگر قسم ہے مغلیہ شان و جلال کی، آپ کو یہ فریضہ انجام دینا ہوگا۔ ما بدولت کو ہر حال میں اپنے لخت جگر کی صحت چاہئے۔ مایوسی کفر ہے۔ اور مایوسی کی باتیں اپنے محبوب بیٹے کے لیے سننا میری قوتِ برداشت سے باہر ہے— میرے ضبط و صبر کا امتحان نہ لیجئے— بتائیے…. شہزادے کو کیا ہوا ہے؟
شاہی طبیب: ظلِ سبحانی کی عزت افزائی نے غلام کو وہ مقام بخشا ہے جس کے بیان سے یہ زبان قاصر ہے۔
دوسرا حکیم کورنش بجا لاتا ہے۔
حکیم: ظلِ الٰہی، ہمیں خود حیرت ہے کہ دوائیں بے اثر کیوں ہوگئیں؟ بظاہر شہزادے کو کوئی بھی مرض نہیں ہے۔ اور ہم نے بہت غور و خیال کے بعد جو دوائیں تجویز کیں، ان کا بھی خیر خواہ اثر ہوتا نظر نہیں آتا۔
شاہجہاں: (ناراضگی) ما بدولت کو ان باتوں میں مایوسی کی بو آتی ہے۔ قسم ہے اس تخت طاو س کی کہ مجھے اب ان مایوسی بھری باتوں سے کوفت ہو رہی ہے۔ للہ علاج بتائیے
شاہی حکیم: ظلِ الٰہی کے حکم پر ہم کئی بار شہزادے کی زیارت کو جا چکے۔ ہم نے اپنے خیال میں بہترین اور اثر انگیز دوائیں منتخب کیں۔ بالآخر وہ بھی ایک مشت خاک ٹھہریں۔ اور شہزادے کے مرض میں اضافہ ہوتا گیا۔
شہنشاہ: ما بدولت بتانا چاہتے ہیں کہ جب ابا حضور شہنشاہ جہانگیر اس دنیا سے رخصت ہوگئے، یہی سلطنت تھی جو ایک طویل عرصے سے ہدف کا شکار بنی ہوئی۔ اللہ کا کرم، ما بدولت نے اسے مستحکم کیا۔ سلطنت کے بڑے علماءاور آپ لوگوں کو اپنے قریب کیا۔ اور وہ اب وہ وقت آگیا ہے جب میں اپنے بعد، اپنے وارث کو اسی طرح سرخ رو ہوتا دیکھوں۔ تو پروردگار نے میرے نصیب میں آزمائش بھیج دی۔ (چیخ کر)…. کچھ کیجئے، ولی عہد سلطنت اس قدر نحیف اور لاغر ہوچکے ہیں کہ اٹھ بیٹھ نہیں سکتے— ملکہ عالیہ ممتاز محل نے رو رو کر اپنی روشن آنکھوں کو بیمار کر لیا ہے— وہ اپنے محبوب فرزند کو ایک شمع کی مانند پگھلتے نہیں دیکھ سکتیں۔
شاہی طبیب (جھک کر)
شاہی: گستاخی معاف عالم پناہ۔ آثار و قرائن بتاتے ہیں کہ یہ کوئی بیماری نہیں۔ اگر شہزادہ معظم کو کوئی مرض لاحق ہوتا تو ہم شاہی طبیب اب تک بیماری کی تشخیص کر چکے ہوتے۔
شہنشاہ: ما بدولت کا امتحان نہ لیجئے۔ اگر یہ کوئی مرض نہیں تو پھر کیا ہے؟
شاہی طبیب: (طبیب جھک کر) ظلِ الٰہی، ابھی آپ کے آنے سے قبل ہم اسی امور پر گفتگو کر رہے تھے۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ آسمانی بلائیں انسان کو گھیر لیتی ہیں۔ اور ان بلاوں کا ردّ کسی دوا سے ممکن نہیں ایسے موقع پر صدقات اور دعائیں ہی انسانوں کے کام آتی ہیں .
—لاہور کے بزرگ میاں میر کے پاس شہنشاہ اپنی التجا لے کر گئے تو درویش نے حکم دیا۔ دارا کو یہاں لانا پڑے گا— میلوں کا سفر۔ دارا کی ڈوبتی نبض اور اپنے وقت کے بڑے صوفی میاں میر کا کرشمہ— مغل تاجدار، شہنشاہ ابو المظفر شہاب الدین شاہجہاں ، دارا شکوہ کو لے کر ننگے پاوں سفر کرتے ہوئے درویش کے دربار میں پہنچے اور دارا کو نئی زندگی مل گئی۔
یہ حضرت میاں میر کی بزرگی کا اثر تھا، معجزہ تھا یا جو بھی تھا، دارا کی زندگی میں حیرت انگیز انقلابوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔ شہنشاہیت کے غرور سے بے نیاز دارا کی دلچسپیاں فنون لطیفہ میں پیدا ہوئیں۔ رقص ہو، موسیقی ہو، مصوری ہو، یا پھر وید پران، بھگوت گیتا کے شلوک یا قرآن حکیم اور حدیث شریف کو جاننے کا اشتیاق۔ ہندی، سنسکرت پراکرت کے بڑے بڑے گیانی اور دانشوروں کی محفلیں سجتیں اور دوسری جانب عربی اور فارسی کے اساتذہ سے دارا اپنی معلومات میں اضافہ کرتا۔ لیکن اہل علم دارا شکوہ کو ایک شہنشاہ سے زیادہ ایک ایسا عالم تصور کرتے ہیں جو اپنی ناقابل فراموش تصانیف کی وجہ سے بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔۔قاضی صاحب نے ہر سطر میں ایسے رنگ بھرے کہ وہ عھد آنکھوں کے آگے زندہ ہو جاتا ہے .اور یہی کرشمہ غالب ، صلاح الدین ایوبی اور ان کی تمام کہانیوں میں بھی نظر آتا ہے .۔ مجھے یاد ہے .برسوں پہلے کی بات ہو گیی .راجندر یادو کا فون آیا .میں ان کے دفتر پہچا تو میز پر ہندی میں لکھی ہوئی قاضی صاحب کی کہانی رکھی تھی . یہ کہانی قاضی صاحب نے خود ترجمہ کی تھی مگر پڑھنا آسان نہیں تھا .راجندر جی اس کہانی کو سننا چاہتے تھے ، میں نے بہت مشکل سے پڑھ کے سنایا .یادو جی نے سنا پھر کہا ، ایسے کرشمے صرف قاضی صاحب ہی کر سکتے ہیں .
’دارا شکوہ‘ میں اورنگزیب سے زیادہ جھکاؤ دارا کی طرف تھا .قاضی صاحب ترقی پسندوں میں شامل تھے ، جدید ذہن رکھتے تھے ، روایت سے وابستہ رہنا ان کی کمزوری تھی . اس لئے انکی نظر میں اورنگ زیب قصور وار اور دارا معصوم بے گناہ . دارا گنگا کے گھاٹ پر اسنان کرنے والی ہندو رعایا پر حکومت کا عائد کردہ محصول معاف کر دیتا ہے۔ ۔ دارا شکوہ اورنگ زیب کے حصولِ اقتدار کی راہ میں سب سے بڑی دیوار تھا، دارا شکوہ کو ہزیمت اٹھانی پڑی اور مغلیہ سلطنت پر اورنگ زیب کا قبضہ ہوگیا۔ دارا اور اورنگ زیب کے ذہنوں کی خانہ جنگی اس اشتہار سے شروع ہوئی جو اورنگ زیب نے دہلی کی جامع مسجد کی دیواروں پر خفیہ طور پر چسپاں کرایا تھا:
”خطرہ!— جو ہندوستان کی خلافتِ اسلامیہ کے سر پر منڈلا رہا تھا آج چمکتی ہوئی تلوار کے مانند سامنے آگیا ہے۔ ظل اللہ کا چراغ حیات جھلملا رہا ہے اور شاہزادہ بزرگ (دارا شکوہ) جس کو نماز سے نفرت، روزے سے عداوت، حج سے بغض اور زکوٰہ سے کد ہے شہنشاہی کے منصوبے بنا رہا ہے— تخت طاو س پر وہ شخص اپنے ناپاک قدم رکھنے والا ہے جو خدا کا منکر اور رسول اللہ کی رسالت کا انکاری ہے، جو پربھو کے نام کی آرسی اور مکٹ پہنتا ہے، بظاہر جوگیوں اور سنتوں کا مداح ہے۔ لیکن بباطن راجپوتوں کی تلواروں کا سہارا لے کر ہندستان جنت نشان سے اسلام کو خارج کر دینے کا منصوبہ بنا چکا ہے۔ برادرانِ اسلام! ہندستان کے قاضیانِ عظام اور مفتیان کا دعویٰ ہے کہ ایسے شخص کے خلاف تلوار اٹھانا جہاد ہے، جہاد اکبر ہے۔ آج تمہاری عبادت تہجد کی نمازوں اور نفل کے روزوں میں نہیں، گھوڑوں کی رکابوں اور تلواروں کے قبضوں میں محفوظ ہے۔ شیروں کی طرح اٹھوا اور کفر پر اس کا دروغ ثابت کردو۔“
اس اشتہار نے مغلیہ سلطنت کو ہلا ڈالا۔ .قاضی صاحب لکھتے ہیں ..اور قربان جائے کہ ایسے لکھنے والے اب کہاں ہیں .
چنانچہ سا موگڑھ کے سینے پر وہ میزان نصب ہوئی جس کے ایک پلڑے میں روایت تھی اور دوسرے میں تجربہ تھا— ایک طرف سیاست تھی دوسری طرف سادہ لوحی— ایک طرف شریعت و مصلحت تھی تو دوسری طرف شعر و ادب۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک طرف تلوار تھی اور دوسری طرف قلم۔ یہاں بھی قلم کو آخر کار تلوار سے قلم ہونا تھا۔ سا موگڑھ کے میدان جیسی خونریز لڑائی پوری سترہویں صدی کے ہندوستان میں کسی مقام پر نہیں لڑی گئی۔ اس جنگ کے متعلق شعراءنے لکھا ہے کہ سواروں کے گھوڑے کمر کمر تک لہو میں ڈوب گئے تھے۔ دارا کے راجپوت حلیف سرداروں نے حق نمک ادا کردیا لیکن دارا کو شکست نصیب ہوا۔ ساموگڑھ کی لڑائی شاہجہاں کے دو بیٹوں کے مابین تخت و تاج کے حصول ہی کے لیے نہیں لڑی گئی بلکہ یہ دو نظریوں کی جنگ تھی۔ اس جنگ نے یہی نہیں کیا کہ ہندوستان کا تاج دارا سے چھین کر اورنگ زیب کے سر پر رکھ دیا بلکہ مغل تاریخ کے اس زریں باب پر بھی مہر لگا دی، جسے اکبر کا عہد کہا جاتا ہے۔ وہ عہد جس نے سیاست کو قومیت کا اعتبار عطا کیا تھا، جس نے ہندستان کے قدیم ادب کو نئی زندگی اور نئی تفسیر کا خلعت پہنایا تھا— جس نے پرانے فنون لطیفہ کو ثقافت اور استناد کا حق بخش دیا تھا۔ ساموگڑھ کے میدان میں ہار گیا، خاک و خون میں نہلا دیا گیا۔
اورنگ زیب نے دارا شکوہ اور اس کے بیٹے کو گرفتار کر کے دہلی کی شاہراہوں پر گشت کرائی اور اور دونوں کی گردنیں قلم کر کے اپنی اقتدار کی تکمیل کی۔ یہاں بھی قاضی صاحب کے قلم کو عقیدت سے چوم لینے کی خواہش ہوتی ہے .
”دارا کے سوتی کپڑے پسینے میں ڈوبے ہوئے تھے۔ چہرہ سیاہ ہوگیا تھا۔ آنکھوں کے گرد حلقے پڑ گئے تھے۔ وہ سر پر سوتی عمامہ باندھے تھا، اس میں سر پیچ نہ تھا جیفہ نہ کلغی۔ اس کے جسم پر موٹا خاکستری سوتی کرتا تھا اور اس سے گیا گزرا پائجامہ تھا جس کی مہریوں سے بد رنگ چمڑے کی حقیر گر گابیاں جھانک رہی تھیں۔ کاندھے پر ایک بیجنی رنگ کی موٹی چادر پڑی تھی۔ اجاڑ بدہیئت داڑھی تقریباً سفید ہوگئی تھی۔ کھچڑی کا کلیں کاندھوں پر ڈھیر تھیں…. جب شاہجہاں آباد کے گنجان بازاروں سے دارا کی رسوائی کا یہ بدقسمت جلوس گزرا تو سڑکیں اور چھتیں اور چبوترے انسانوں سے بھر گئے۔ عالمگیر (اورنگ زیب) نے دارا کو کوچہ و بازار میں اس لیے پھرایا تھا کہ رعایا اس کا انجام دیکھ لے تاکہ کسی وقت کوئی جعلی دارا شکوہ کھڑا ہو کر تخت و تاج کا دعویٰ نہ کرسکے۔ لیکن ہوا یہ کہ ولی عہد سلطنت کی غداری کا یہ بھیانک منظر دیکھ کر رعایا بے قرار ہوگئی۔ اس قیامت کی آہ و زاری برپا ہوئی کہ تمام شاہجہان آباد میں کہرام مچ گیا۔ اتنے آنسو بہائے گئے کہ اگر جمع کر لیے جاتے تو دارا اپنے ہاتھی سمیت ان میں ڈوب جاتا۔ اتنے نالے بلند ہوئے کہ اگر ان کی نوائیں سمیٹ لی جاتیں تو شاہجہانی توپوں کی آوازوں پر بھاری ہوتیں۔“
ان جملوں پر قربان جائے .یہ تاریخ کے نگینے ہیں . قاضی صاحب نے ان نگینوں سے اردو ادب کا دامن بھر دیا ہے .
قاضی صاحب سے کیی ملاقاتیں رہیں ، ہر ملاقات یادگار . کافی پہلے انہوں نے کہا تھا ، افسانہ چاول پر قُلْ هُوَ اللّـٰهُ لکھنے کا نام ہے . ان کے ناول اور افسانے پڑھنے کے بعد یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ آخر انہوں نے ایسا کیوں کہا ؟ وہ کہانیوں کے بادشاہ تھے . جب تک جئے شان سے جئے . وہ نمائش کے لئے افسانہ نہیں لکھتے تھے . وہ غیب کی صداؤں کو زنبیل سے نکالتے اور لفظوں کا انتخاب کرتے . ان ہوں نے جو بھی لکھا ، کسی شاہکار سے کم نہیں .
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...