آئینہ سکندری، جام_جہاں نما، تاریخ کے بوسیدہ صفحات کرشموں سے بھرے ہیں . سکندر ہو ، پورس ، یا ملک فارس کا بادشاہ جمشید ..کہتے ہیں سکندر اعظم کے پاس ایک ایسا آئینہ تھا جس سے ساری دنیا نظر آتی تھی. وقت نے آئنیۂ سکندری پر دھول ڈال دی . فاتح سکندر کا سورج غروب ہوا . ملک_فارس کے بادشاہ جمشید کے ہاتھوں میں ایسا جام تھا کہ وہ نظر جھکاتااور دنیا کے حالات پڑھ لیتا . کہتے ہیں ایسا ہی آئینہ ارسطو کے بھی پاس تھا اور وہ نا دیدہ طاقتوں کے راز جان لیا کرتا تھا . برسوں بعد یہ آئینہ قاضی صاحب کے ہاتھوں میں آیا تو قاضی صاحب کو آئینہ میں صرف دو تصویریں نظر آییں .ایک لیلیٰ کی .دوسری مجنوں کی . آئینہ نے مسکراتے ہوئے اعلان کیا — جا ، تجھے لیلیٰ اور مجنوں کی قسم ..تیرا اقبال بلند ہوگا . .
قاضی صاحب کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ تھی . میں نہ محبوب ، نہ رقیب ، یہ دونوں پہلے سے ہی ایک دوسرے کے . ابھی یہ سوچ حاوی تھی کہ ڈپٹی صاحب کا کتا آ گیا . رات کو قاضی صاحب نے خواب دیکھا ، وہی کتا لیلیٰ کی آغوش میں ہے اور لیلیٰ مجنوں کا خط پڑھ رہی ہے .
پر اسراریت کی دھند ہے اور سو برسوں سے زاید عرصۂ گزرنے کے بعد بھی ان خطوط کے نشان مٹ نہیں سکے ، ابھی بھی زندہ ہیں . `جب ترقی پسندی غریب ، مزدور ، کسانوں کی زندگی میں آگ کی چنگاریاں تلاش کر رہی تھی ، وہ مغرب کے آفتاب سے غسل کر رہا تھا . اس نے ایڈگر ایلن پو کو بھی پڑھا .جان گالس وردی کو بھی . پریم چند ادبی دنیا میں تہلکہ مچا چکے تھے . مگر ابھی تک گو دان شایع نہیں ہوا تھا . کہانیوں کے چراغ روشن تھے . اس نے ایک طوائف کی زندگی کا مطالعہ کیا . انگریزی انداز کو اپنایا .. طوائف کی زندگی کے ہر پہلو کا جائزہ لیا .. اور پہلا ناول لکھا جو خطوط پر مبنی تھا . یہ رنگ نیا تھا .ناول پر ترقی پسند رنگ غالب تھا . جس نے پڑھا ، حیران رہ گیا .
نہ من بیہودہ گردِ کوچہ و بازار می گردم
مذاقِ عاشقی دارم، پئے دیدار می گردم
میں اپنے محبوب کو کوچہ و بازار میں نہیں، جنونِ عشق کے آئینہ میں تلاش کرتا ہوں .
عشق کا جذبہ روشن اس کے علاوہ اسے کچھ بھی نظر نہیں آتا تھا .عشق کی روشنی میں تجلیاتِ بام و در کا مشاہدہ کیا اور خالق کو وہاں بھی پا لیا . ۔ عشق کی شعاعیں نکلیں تو اس نے ایک معصوم طوائف کے دلوں کی دھڑکن سنی . خلوت میں بصیرت کی راہ پپیدا ہوئی .اور لیلیٰ کے خطوط کو وہ مقبولیت حاصل ہوئی کہ ہر گھر میں چرچا ، ہر اردو گھرانے میں شور ..کوئی چھپ کے پڑھ رہا ہے ..کوئی نام لینے سے گھبرا رہا ہے .کسی کو معاشرے کی پرواہ ہے کہ بہن بیٹیوں پر اس کتاب کا برا اثر نہ پڑے .عشق سورج مکھی کا پھول کہ اس کی نظر ہمیشہ آفتاب کی طرف ہوتی ہے. وہ لکھتا گیا .ترجمے کرتا گیا . ترقی پسند خیمے میں شور کی آوازیں بلند ہوتی رہیں .
محبت کی کشش کہ قید خانہ چمن میں تبدیل اور آگ نور بن میں منتقل ..
قاضی عبدالغفار دسمبر 1889 میں پیدا ہوئے 1956 کو انتقال کر گئے ۔ ان کی تصنیفات "لیلی کے خطوط" ، "مجنوں کی ڈائری" اتنے مشہور کہ آج یہ دونوں کتابیں نہیں ملتیں مگر ان کے نام ذہن نشیں ہیں . افسانوں کے دو مجموعے "عجیب" اور "تین پیسے کی چھوکری" اردو فکشن کا قابل قدر سرمایہ ہیں۔ جان گالزوردی کے ناول کا ترجمہ "سیب کا درخت" اور خلیل جبران کی تصنیف کا اردو ترجمہ کیا . ان کی کتب "آثار جمال الدین افغانی" ، "آثار ابوالکلام آزاد" اور "حیات اجمل" کو سوانح نگاری کا بہترین نمونہ سمجھا جاتا ہے۔ "نقش فرنگ" کے نام سے سفر نامہ لکھا . سفر نامے کو بھی زبردست مقبولیت حاصل ہوئی . وہ حقیقت میں ترقی پسند تھے ،سماج اور معاشرہ سے نا خوش .آزاد خیال تھے . جب بند دروازے عورتوں کی زندگی میں زہر گھول رہے تھے ، وہ ان دروازوں کو کھولنے آیا تھا . وہ مرد اساس معاشرے سے بیزار تھا . اس نے عورتوں کی گھٹن کو صدیوں کی تاریخ میں پڑھا تھا .ادب میں وارد ہونے سے قبل اس نے اپنے راستے کا انتخاب کیا . لیلیٰ کے خطوط، مجنوں کی ڈائری بدلتے ہوئے زمانے کی چیخ تھی .
مجھے احساس ہے ، کہ خاموش حجرے میں قاضی صاحب لیلیٰ سے گفتگو بھی کرتے ہونگے ..مثال کے لئے …
کیا تم ہمیشہ ایسی ہی رہوگی لیلیٰ ؟
نہیں . لیلیٰ کا جواب ہوتا . اب وقت کے قحبہ خانے میں تم مرد ہو .نیلے گلابی رنگ والے مرد قحبہ خانے میں اپنا سودا کرتے نظر آیینگے .
لیلیٰ کے خطوط ، کیا لیلیٰ ایک بدنام عورت تھی ؟ کیا اس کا طوائف ہونا جرم تھا ؟ یہ جرم تو مرد اساس معاشرہ کا تھا جس نے عورت کو کوٹھے کی زینت بنا دیا . لیلیٰ کے خطوط بدنام گلیوں کی کہانی نہیں .لیلیٰ حسرتوں کے چراغ روشن کرتی ہے اور استفسار کرتی ہے . اس کے سوال خود سے بھی ہوتے ہیں اور معاشرہ سے بھی .وہ الله کے حضور میں بھی دستک دیتی ہے اور وہاں بھی نجسم سوال بن جاتی ہے .حیرت ہوتی ہے ، قاضی صاحب نے آزادی کے چراغ اس وقت جلائے جب کہانیاں روایت کی کمزور پٹریوں سے گزر رہی تھیں . لیلیٰ پوچھتی ہے ، اس کا جرم کیا ہے ا علیٰ دماغ والے غلاموں کو کیوں پیدا کرتے ہیں ؟ سیاست نے انسانوں کو غریب امیر میں تقسیم کیوں کر رکھا ہے ؟
ہماری دنیا میں اعلیٰ دماغ وہ کہلاتے ہیں جو غلام بنانے اور دوسروں کے حقوق جابرانہ قبضہ کرنے کا فن جانتے ہوں۔ سیاست اس کو کہتے ہیں کہ ایک قوم کے وسیع پیٹ میں دوسری اقوام ہضم کی جا سکیں۔ معاشرت اس کو کہتے ہیں کہ ایک دولت مند اور چالاک طبقہ باقی تمام طبقوں پر حکومت کر سکے اور ان کا خون چوس چوس کر اپنی طاقت میں اضافہ کرتا رہے۔ ہمارے معاشرے میں بنی نوع انسان دو حصوں میں تقسیم ہے۔ برہمن اور اچھوت، مسلمان، ہندو، عیسائی، پارسی، ایرانی، عرب سب اسی تقسیم کے ماتحت ہیں۔ برہمن اور اچھوت! حاکم اور محکوم، سرمایہ دار اور غریب، مولانا اور مرید۔ ان مختلف ناموں کے پردے میں حقیقت ایک ہی ہے جو چھپی ہے! طاقت ور اور کمزور۔
— لیلیٰ کے خطوط
مجھے سارا شگفتہ کی ایک نظم یاد آتی ہے ، جہاں اس نے عورت اور اسکی شرم گاہوں کی بات کی تھی . اس مردانہ سماج میں ممکن ہی نہیں کہ کوئی عورت اپنی شرمگاہوں کی بات کرے۔ اپنے کمرے اور بستر کے قصّے کو عام کردے۔ چھوٹے بڑے تمام لوگ ایسی عورتوں کے بارے میں وہی بوسیدہ مکالمہ دوہراتے ہوئے نظر آتے ہیں____ ”اُسے عورت ہی رہنے دیجئے۔ آخر ایک عورت کو، اپنے آپ کو عریاں کرنے کا کیا حق ہے۔یہ سماج کبھی بھی اُس کے ننگے چہرے کو برداشت نہیں کرے گا___“ سارہ جیسی کمزورعورتیں تو اپنا جہنم اپنے ساتھ لے کر آسانی سے ایک بزدل موت کا لقمہ بن جاتی ہیں .۔ لیکن تمام عورتیں سارہ نہیں ہوتیں۔ کچھ عورتیں رقیہ سخاوت حسین بھی ہوتی ہیں . عصمت بھی ہوتی ہیں . جو کسی خوف یا گھبراہٹ سے الگ سچ بات کہنے کے لئے سماج اور سیاست سے ٹکرانے میں بھی پیچھے نہیں رہتیں۔ اس معاملے میں وہ گھر والوں سے لے کر دنیا تک کی پرواہ نہیں کرتیں۔ یہ بھی نہیں کہ اِس کا انجام کیا ہوگا۔
”یہ جسم میرا ہے اور جسم کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ لینے کا حق مجھے ہے۔ آج کی عورت یہاں تک پھچ چکی ہے ..لیکن اس منزل پر آنے پہلے ایک دور قاضی صاحب کا دور بھی تھا .. جہاں بندشوں میں لیلیٰ اپنے ہی سوالوں سے خوف محسوس کرتی تھی .یہ اقتباس دیکھئے ..
” واعظ صاحب جب چوکی پر تشریف رکھتے ہیں تو خطابت اور بیان کا سارا زور اس مسئلے پر صرف ہوتا ہے کہ بیوی کو خاوند کی اطاعت کس طرح کرنی چاہیے۔ لیکن شوہروں کا اہنی بیویوں کے ساتھ کیا برتاؤ ہونا چاہیے اور مردوں پر عورتوں کے کیا حقوق عائد ہوتے ہیں اس کا ذکر نہیں کرتا بلکہ ذکر کرنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی جاتی۔ ہمارے لیے دنیا میں صرف ایک مٹھی گہیوں اور آدھ گز کپڑا ہے جو مرد ہم کو عطا کرتا ہے۔ مرد نے پردے کو ہماری عصمت کا محافظ بنایا ہے گویا عورت اس قدر بد اصل ہے کہ اگر پردے کے اندر بند نہ رہے تو اس کی عصمت محفوظ نہیں رہ سکتی۔
لیلیٰ یہیں نہیں رکتی ، وہ آگے سوال کرتی ہے …
مگر میں کہتی ہوں کہ عورت سے زیادہ مرد کو پردے میں بٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ مرد کے گناہوں پر پردہ پڑا رہے۔ مرد کی تمام ذہنی تربیت یہی ہے کہ ہر کام خوف اور دھمکی سے کیا جائے۔ اس کے مذہب کا سب سے بڑا عنصر خوف اور لالچ ہے۔ اچھا کام اس لیے نہیں کرتا کہ وہ اچھا ہے بلکہ اس لیے کہ کہ نہ کرنے میں سزا کا اندیشہ ہے اور اور کرنے میں انعام کی امید۔ جس اخلاق انسانی کی بنیاد سزا کا خوف ہو وہ کاغذ کی قندیل ہے جس کا کاغذ خوبصورت ہے مگر چراغ روشن نہیں ”۔
— لیلیٰ کے خطوط
کاغذ کی قندیلیں .کاغذ کا سویرا ..معاذ الله ..سوال ہیں جو زخمی کرتے چلے جاتے ہیں .
تہذیب وثقافت، معاشرہ، قدیم روایتوں پر قائم رہنے کا احساس____لیکن اب سمجھنا ہوگا کہ وقت کی بدلتی تصویروں میں تعریفیں بھی بدلی ہیں۔ ممکن ہے ارتقاءپذیر دنیا میں اپنے بچوں یا آنے والی نسل کے نام پر بھیانک منڈراتے ہوئے خطرے نظر آرہے ہوں۔ لیکن اگر یہ حقیقت ہے تب بھی از سرنو سوچنے کے لئے مجبور ہونا ہوگا۔ ممکن ہے، آنے والی نسل کے لئے پیدا ہوئے خطرے کو لے کر یا مذہب کے سوال پر، آپ نے بھی تھذیبی تحفظات کو کو اپنی اپنی صلاحیتوں، تسلیوں، تھوڑے میں خوش رہنے کی ضرورتوں، اپنی بندھی ہوئی حدوں کے نام پر دیکھنے کی کوشش کی ہو۔ مگر یہ نہ بھولیں کہ یہیں سے دوسروں کی صلاحیت، حد اور ضرورتوں کی پگڈنڈیاں بھی شروع ہوتی ہیں۔ کسی بھی شخص کی انفرادی سوچ سیاسی، سماجی اور مذہبی فکر پر آپ کو فتویٰ دینے کا کیا حق ہے؟ زندگی کے کھلے پن سے سیکس تک مختلف خیالات اور آراءتو ہو ہی سکتی ہیں۔ بدنامی کیا ہے ؟رثوایی کیا ہے ؟ کیا یہ صرف عورتوں کا مقدر ہے ؟ مرد ان سب سے آزاد ہے . مرد کی ساری دماغی ورزش صرف عورتوں کے لئے ہے ؟ ممکن ہے، تھذیب کی میزائل چھوٹنے پر آپ کو مغربی یا بے ہنگم معاشرہ کے لئے صرف عورتیں ذمہ دار نظر آتی ہوں .مرد کیوں نہیں ؟ سارے فتوے عورتوں کے لئے کیوں بنے ؟ اگر آپ نے ایک خاص قسم کی ایشیائی تہذیب کو دیکھنے کے لئے اپنی ’عینک‘ کے پاور ایک مخصوص نقطے تک طے کرلئے ہیں تو اس کے بعد کا راستہ زوال کی طرف جاتا ہے۔ مجنوں ڈائری میں الجھتا ہے .لیلیٰ سوال کرتی ہے . دونوں سوال و جواب کے ایک ہی مقام پر ہیں اور آج بھی لیلیٰ کے سوالوں کا مجنوں
اور ہماری دنیا کے پاس کوئی جواب نہیں .تہذیب اور وثقافت کے یہ اصول وقانون مرد بناتا ہے۔ مذہب سے سماج تک جدوجہد کے راستے مرد طئے کرتا ہے . عورتیںکو جسم تک کی آزادی پر بیباکی سے مکالمہ کا حق نہیں . اس لئے لیلیٰ پوچھتی ہے …
اگر آج تم کمزور اور میں طاقت ور ہو جاؤں تو تمہارا وجود ناقابل معافی جرم اور میری جسم فروشی ایک پاکیزہ خصلت قرار پائے گی۔ میں جو کچھ کرتی ہوں وہ ایک پاکیزہ کام کہلائیں اور جو کچھ تم کرو وہ گناہ کہلائے۔ تمہاری طرف حقارت و نفرت کے وہی اشارے کیے جائیں جو اب میری طرف کیے جاتے ہیں۔ تمہارا کوئی سلام بھی قبول نہ کرے اور جلوسوں میں میری گاڑیاں کھینچی جائیں۔ مجھ میں اور تم میں اعمال کا فرق قابل توجہ نہیں بلکہ طاقت ور اور کمزور کا امتیاز ہے جس نے عورت کی گردن مرد کے پاؤں کے نیچے رکھ دی ہے
کیا جب خدا نے دنیا کو پیدا کیا تھا تو اس نے ہماری زندگی کا یہی نظم قائم کیا تھا جو آج ہے؟ تم چونکہ میرے مقابلے میں طاقتور ہو اس لیے یہی کہو گے کہ موجودگی نظام عین فطرت الٰہی ہے۔ میں چونکہ کمزور ہوں تو مجھے تمہارا فیصلہ ماننا پڑے گا۔ مگر یاد رکھو کہ یہ میرا ایمان نہیں ہے۔ میں طاقت ور کے مقابلے میں کمزور تو ہوں مگر باغی ہوں۔ ”۔
— لیلیٰ کے خطوط
عورت اب جد و جہد اور ارتقاءکے راستے میں بہت آگے نکل آئی ہے۔ اس لئے اگر ابھی بھی وہ ماضی کو ایک حصّہ مان کر، ایک ڈراونا خواب مان کر آپ سے لڑنا چاہتی ہے تو آپ کو خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے۔ اگر وہ تمام باندھ توڑ کر، ایک آزاد ماحول میں، سانس لینے کی متلاشی ہے تو اُس سے آپ کو سنجیدہ الزاموں میں جکڑنے کا جرم نہیں کرنا چاہئے۔ شاید یہ صدیوں کی غلامی کو اُتارنے کا نتیجہ ہے کہ عورت کا آگے بڑھنا ، مردوں کے مقابلے زیادہ آسان ہوتا جارہا ہے۔ آج سے کافی پہلے ’انگارے‘ کے عہد میں جب اردو افسانہ لکھنے میں پہلی بار عورتوں کا نام جڑا تو ممتاز شیریں اور رشید جہاں جیسے نام سامنے آئے۔ اُس کے بعد بھی یہ قافلہ رُکا نہیں۔ لیکن اس قافلے سے پہلے بھی قاضی عبد الغفار جیسے لوگ تھے ، جنہوں نے عورتوں کی آزادی اور بدلتی ہوئی دنیا کے تیور کو محسوس کر لیا تھا .
مولوی رومی کی حکایت سے ایک اقتباس پیش کر رہا ہوں . سوداگر ہندوستان آیا . اس نے وہاں جنگل میں چند طوطیاں دیکھیں،طوطے کو طوطی کا پیغام پنہچا .طوطیوں میں سے ایک طوطی کانپنے لگی، گر پڑی اور اس کا دَم نکل گیا :یہ طوطے کی طرف سے عشق کا پیغام تھا . عشق پیچیدہ راستوں سے گزرتا ہے آگ کے دریا کو عبور کرتا ہے . لیلیٰ مجنوں کے عشق کو قاضی صاحب نے لافانی قصّہ میں تبدیل کر دیا .
گر حجاب از جانہا بر خاستے
گفتِ ہر جانے مسیح آساستے
رُوحوں سے پردہ اُٹھ جائے تو ہر رُوح کی بات مسیح جیسی ہے!