لکھنا تو اس انجام کے بارے میں تھا جس کی طرف قاف لیگ رفتہ رفتہ‘ لمحہ لمحہ‘ بڑھ رہی ہے لیکن راستے میں ایک اور سیاپا پڑ گیا ہے! قاف لیگ والے پڑھے لکھوں کو منشی نہ کہتے اور اربوں کھربوں کی دولت اور جاگیروں پر تکبر نہ کرتے تو اقبالؒ سے آگاہ ہوتے اور اقبالؒ سے آگاہ ہوتے تو اس کا یہ شعر بھی پڑھتے
مری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں
میں اپنی تسبیح روز و شب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ
نئے حوادث قطرہ قطرہ ٹپکتے ہیں اور سب کچھ بہا لے جاتے ہیں۔ شکیب جلالی نے کہا تھا…
کیا کہوں دیدۂ تر ! یہ تو مرا چہرہ ہے
سنگ کٹ جاتے ہیں بارش کی جہاں دھار گرے
قاف لیگ اپنے انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اسکے کھرب پتی ارکان جو مشرف تو مشرف تھا‘ پلاسٹک کے بنے ہوئے شوکت عزیز کے آستانے پر بھی سجدہ ریز رہے۔ اب باہم دست و گریباں ہیں۔ حصے بخرے ہونیوالے ہیں۔ وابستگیاں تبدیل کرنیوالے پھر پھدکنے کی تیاری میں ہیں۔کوئی پھدک کر اس طرف چلا جائیگا اور کوئی اس طرف‘ ان کھرب پتیوں‘ ان صنعت کاروں اور ان وڈیروں نے پہلے بھی یہی کیا تھا۔ اس میں کیا شک ہے کہ یہ سب قوم کے محسن ہیں ! معزز ترین لوگ ہیں اور پاکستانی عوام ان کی بے پناہ عزت کرتے ہیں اور دل سے کرتے ہیں
…؎لغت میں ہجر کا معنیٰ بدل ڈالا کسی نے
کہ اب کے وصل میں اظہار تنہائی بہت ہے
لیکن ہم قاف لیگ کو اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھتا دیکھ رہے ہیں اور یہیں چھوڑ جاتے ہیں اور خود شرقِ اوسط کی طرف روانہ ہوتے ہیں!
آپ نے سنا اور پڑھا ہے کہ صومالیہ کے بحری قزاق جہاز اغوا کرتے ہیں اور لوٹ لیتے ہیں لیکن ایک ہفتہ پہلے جس قزاق نے ایک جہاز لوٹا‘ وہ کوئی فرد نہیں تھا‘ وہ حکومت تھی‘ وہ ایک ملک تھا‘ 30 جون 2009ء کو اسرائیل کی بحریہ نے بین الاقوامی حدود میں داخل ہو کر قبرص سے آنیوالے جہاز کو جس
کا نام سپرٹ آف ہیومینٹی
spirit of humanity
تھا‘ اغوا کر لیا۔ جہاز کا عملہ 21 افراد پر مشتمل تھا جو گیارہ مختلف ملکوں سے تعلق رکھتے تھے۔ جہاز امدادی سامان لیکر غزہ کی طرف جا رہا تھا۔ اس پر امریکی کانگریس کی سابق رکن سنتھیا میکنی بھی سوار تھی اور آئرلینڈ کیلئے بین الاقوامی خدمات سرانجام دینے والی‘ نوبل انعام یافتہ خاتون مے ریڈ مے گوئر بھی تھی۔ آخری خبر آنے تک یہ سب لوگ اسرائیل کی قید میں ہیں۔
غزہ دنیا کا سب سے بڑا مہاجر کیمپ ہے۔ اسے آپ کھلا قید خانہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ پندرہ لاکھ فلسطینی جنہیں امریکہ کی آشیرباد سے اسرائیل نے زبردستی اپنے گھروں‘ کھیتوں‘ باغوں اور بستیوں سے نکالا‘ غزہ میں بے یار و مدد گار پڑے ہیں۔ یہ جہاز دو ہفتے پہلے قبرص کی بندرگاہ پر لنگر انداز تھا۔ قبرص کے حکام اسے غزہ کے سفر کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ اسرائیل غزہ کے بے یارو مددگار مہاجروں کو ’’دہشت پسند‘‘ کہتا ہے اور یہ موقف رکھتا ہے کہ ’’دہشت پسندوں‘‘ کو امداد پہنچانے والوں کو گرفتار کر لیا جائیگا‘ آخر کار جہاز کے سوار مسافروں نے قبرص کو عہد نامہ لکھ کر دیا کہ ان کے پکڑے جانے کی صورت میں قبرص پر کسی قسم کی ذمہ داری عائد نہیں ہو گی۔ صدر ابامہ نے کہا تھا کہ غزہ کے مکینوں کو امداد بہم پہنچائی جائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا سپرٹ آف ہیومینٹی جہاز کی حفاظت پر امریکی بحریہ کے چند نوجوانوں کو مامور نہیں کیا جا سکتا تھا؟کیا اس میں کوئی شک ہے کہ امریکہ اسرائیل کی مٹھی میں ہے اور اسرائیل کے سامنے اس کی حیثیت ایک کٹھ پتلی ریاست کی ہے کیا آپ یقین کرینگے کہ امریکی صدر کی سرکاری رہائش گاہ یعنی ’’ایوانِ صدر‘‘ میں جو شخص چیف آف سٹاف کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہے وہ نہ صرف اسرائیلی شہری ہے بلکہ اسرائیل کی مسلح افواج کا سابق ملازم بھی ہے !
پال کریگ رابرٹس کوئی غیر معروف امریکی نہیں۔ ریگن کے عہدِ صدارت میں رابرٹس مالیات کا نائب وزیر رہا۔ وہ ایک مشہور کالم نگار ہے اور وال سٹریٹ جرنل جیسے چوٹی کے اخباروں میں لکھتا رہا ہے اور لکھ رہا ہے ! رابرٹس نے یونیورسٹی آف ورجینیا سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی اور 1993ء میں اسے امریکہ کے چوٹی کے سات صحافیوں میں شمار کیا گیا۔ اسی امریکی صحافی پال کریگ رابرٹس نے اسرائیل کو ’’بحرِ روم کا قزاق‘‘ قرار دیا ہے۔ رابرٹس برملا کہتا ہے کہ جس طرح امریکیوں نے سترھویں اٹھارویں اور انسیویں صدی میں ریڈ انڈین کی زمینیں چرا کر‘ لوٹ کر‘ اور چھین کر امریکیوں کو آباد کیا تھا بالکل اسی طرح اسرائیل‘ فلسطینیوں کی زمینیں چرا کر‘ ڈاکے مار کر اور چھین کر‘ یہودی آبادکاروں کے حوالے کر رہا ہے۔ پال رابرٹس ایک اور دلچسپ موازنہ کرتا ہے۔ کیلی فورنیا کی امریکی ریاست دیوالیہ ہو گئی ہے لیکن امریکہ کی واشنگٹن ڈی سی میں بیٹھی ہوئی مرکزی حکومت نے کیلی فورنیا کو ٹھینگا دکھا دیا ہے اور کسی قسم کی مالی امداد دینے سے معذرت کر لی ہے لیکن عین اس وقت جب کیلی فورنیا کو ٹھینگا دکھایا جا رہا تھا واشنگٹن ڈی سی کے ایک چھوٹے سے کمرے میں اسرائیل کو پونے چار ارب ڈالر دیئے جا رہے تھے۔ اسرائیل واحد ملک ہے جسے اجازت دی گئی ہے کہ وہ امریکی وزارتِ دفاع کو درمیان میں لائے بغیر اسلحہ سازوں سے براہِ راست رابطہ کر سکتا ہے۔ ان اسلحہ سازوں اور اسلحہ فروشوں کے ڈانڈے امریکی کانگریس سے ملتے ہیں۔ اسرائیل سے مزید بزنس آرڈر لینے کی غرض سے امریکی کانگریس میں اسرائیل کی خوب خوب ہم نوائی کی جاتی ہے اور ایران کیخلاف اقدامات اٹھائے جاتے ہیں۔
اسرائیل بچوں پر ظلم ڈھانے کے معاملے میں بھی دنیا بھر میں سرِفہرست ہے۔ لاتعداد بچوں کو گھروں سے اٹھا کر جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ رہا ہونے کے بعد یہ بچے نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں اور انتہا پسندوں کے ہاتھ لگ جاتے ہیں۔
آپ کا کیا خیال ہے مسلمانوں کی ذلت و رسوائی کا یہ عہد کب تک رہے گا؟ فلسطینی بچے اسرائیلی جیلوں میں کب تک گلتے سڑتے رہیں گے اور کب تک نفسیاتی مریض بنتے رہیں گے؟ کشمیری کب تک بھارت کے غلام رہیں گے؟ عراق اور افغانستان پر امریکہ کی حکومت کب تک رہے گی؟ اور امریکی سیکشن افسروں اور کلرکوں کو پاکستان کے صدر اور وزیر اعظم کب تک سر آنکھوں پر بٹھاتے رہیں گے؟
اس سوال کا جواب حاصل کرنا چنداں مشکل نہیں! کسی بھی روز اخبارات کا مطالعہ یہ سوال ذہن میں رکھ کر کیا جائے تو اسکا جواب فوراً مل جاتا ہے۔ تین دن پہلے کے اخبار میں سے صرف دو خبریں ملاحظہ فرمایئے۔ ’’اردن کے فرماں روا شاہ عبداللہ بن حسین نے اپنے پندرہ سالہ صاحبزادے پرنس حسین کو اپنا ولی عہد اور اردن کا مستقبل کا حکمران نامزد کر دیا ہے‘‘۔
’’رکن اسمبلی کے تعلیمی سکینڈل کا انکشاف ہوا ہے‘ اس نے ایف اے کا امتحان دیئے بغیر اپنے ہم نام کی سند استعمال کر کے بی اے کا امتحان پاس کر لیا ہے۔ رپورٹ کیمطابق فراڈ ثابت ہونے پر سپیکر اسکی کی رکنیت معطل کر سکتے ہیں‘‘۔
آپکو اس سوال کا جواب تو مل گیا ہو گا کہ مسلمانوں کی ذلت و رسوائی کب تک رہے گی لیکن شومیٔ قسمت کہ ایک اور سوال دہلیز پر آن کھڑا ہوا ہے۔ اسرائیل قزاق ہے اور اپنے مفاد کیلئے مسلمانوں پر ڈاکے ڈال رہا ہے لیکن مسلمان‘ تو مسلمانوں ہی پر ڈاکے ڈال رہے ہیں۔ لاکھوں کروڑوں کی آبادی میں ایک پندرہ سالہ شہزادے کے سوا حکومت کرنے کا اہل کوئی نہیں اور جو قانون سازی کیلئے منتخب ہوئے تھے وہ بی اے بھی نہیں! اور بی اے کرنے کیلئے بھی جعل سازی کے مرتکب ہو رہے ہیں ! تو بتایئے بڑا قزاق کون ہے؟
http://columns.izharulhaq.net/2009_07_01_archive.html
“