آج اردو اور پنجابی زبان کے ممتاز شاعر، نقاد، ڈراما نویس ، مترجم اور اردو میں کرکٹ کمنٹری کے بانیوں میں سے ایک قیوم نظر کی 29 ویں برسی ہے۔ وہ 7 مارچ 1914 کو لاہور میں پیدا ھوئے اور23 جون 1989 کو کراچی میں انتقال ہوا۔ لاہور کے قبرستان میانی صاحب میں پیوند زمین ھوئے۔
حلقہ ارباب ذوق کی بنیاد رکھنے میں میرا جی، ن۔ م راشد ،حفیظ ہوشیار پوری،سید نصیر احمد جامعی، انجم رومانی،اختر ھوشیارپوری، حمید نظامی ، میر اقبال احمد، سید امجد حسین، آفتاب احمد خان، حمید شیخ، صفدر میر، تابش صدیقی، یوسف ظفر اور مختار صدیقی وغیرہ کے ساتھہ قیوم نظر کا بھی اہم کردار تھا۔
وہ حلقہ ارباب زوق کے اولیں معتمد عمومی منتخب ھوئے۔۔
قیوم نظر کا اصل نام خواجہ عبدالقیوم بٹ تھا۔ ابتدائی تعلیم پنجاب کے مختلف اسکولوں میں حاصل کی۔ میٹرک کرنے کے بعد ایف سی کالج، لاہور میں سائنس پڑھنے والے طالب علم کی حیثیت سے داخل ہوئے۔ ابھی پورا ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ ناسازگار حالت کی بنا پر انھیں کالج چھوڑ کر ملازمت اختیار کرنا پڑی۔ دو ڈھائی سال تک پرائیوٹ فرموں اور سرکاری دفتروں میں کام کرتے رہے۔ مزید تعلیم کے لیے دیال سنگھہ کالج، لاہور میں داخلہ لیا اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے(اردو) پاس کیا۔ گورنمنٹ کالج میں اردو کے استاد رہے اور پروفیسر کی حیثیت سے سبک دوش ھوئے ۔ بعد میں پنجاب یونیورسٹی اورئینٹل کالج میں پنجابی کا شعبہ قائم ہوا تو اس سے منسلک رہے۔
قیوم نظر کی شاعری میں اردو کی کلاسیکی شاعری کا گہرا اثر ہے ۔ 1933 میں ان کی پہلی غزل چھپی تھی ۔ انھوں نے اردو غزل کو نیا مزاج عطا کیا۔ وہ میر تقی میر اور فانی بدایونی کے غزلیہ روایت سے متاثر رھے۔ سیاحت کا شوق تھا ۔ ان کی شاعری میں فطرت کے تجربات اچھوتے نوعیت کے ہیں۔انھوں نے اپنی اردو غزلوں اور نعتوں کو پنجابی میں بھی منتقل کیا ۔
ان کی کتابوں میں :’’سویدا‘‘، ’’قندیل‘‘، ’’اردو نثر انیسویں صدی میں‘‘(تنقید مع انتخاب)، ’’واسوخت امانت‘‘(تحقیق وتنقید) ’’پون جھکولے‘‘،زندہ ہے لاہور“’’قلب ونظر کے فاصلے‘‘ (کلیات اردو شاعری)اور توں تے میں( پنجابی) شامل ہیں۔۔
بچوں کے لیے ایک کتاب “بلبل کا بچہ“ بھی لکھی جس کی نظم ’’ بلبل کا بچہ کھاتا تھا کھچڑی پیتا تھا پانی‘‘ بہت مشہور ہوئی۔
آخر عمر میں انہیں اپنے بیٹے عمدہ انشائیہ نگار سلمان بٹ کی جوان موت کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔
قیوم نظر کی سارتر سے ملاقات ایک اہم واقعہ ہے۔ان دنوں الجزائر کی جدوجہد جاری تھی۔ قیوم نظر سارتر سے ملنے گئے تو سارتر نے پوچھا الجزائر کے بارے میں کیا خیال ہے؟ قیوم نظر نے کہا میں تو شاعر آدمی ہوں ،۔ ایسے معاملوں سے میرا کیا واسطہ؟سارتر نے جواب پسند نہیں کیا اور کہا کہ شاعر دنیا سے کٹ کر اور اپنے اردگرد سے بےپروا کیسے رہ سکتا ہے۔ واپسی پر قیوم نظر صاحب نے ایسے ہی بتایا لیکن کچھ عرصے بعد یہ کہنے لگے کہ جواب میں، میں نے یہ بھی کہا تھا کہ تو پھر کشمیر کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
قیوم نظر کے کچھہ شعر
دل توڑ کے جانے والے سن، دو اور بھی رشتے باقی ہیں
اک سانس کی ڈوری اٹکی ہے، اک پریم کا بندھن رہتا ہے
نقشِ کفِ پا نے گل کھلائے
ویراں کہان اب یہ راستہ ہے
آج شرماتا ہے سورج اس سے
وہ جو تاروں سے حیا کرتا تھا
سوچتا ہوں تو ہنسی آتی ہے
سامنے اس کے میں کیا کرتا تھا
تیری نگہ سے تجھہ کو خبر ہے کہ کیا ہوا
دل زندگی سے بارِ دگر آشنا ہوا
پوچھو تو ایک ایک ہے تنہا سلگ رہا
دیکھو تو شہر شہر ہے میلہ لگا ہوا
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“