قیوم خالد کا نگار خانہ
یہ پہلا موقع ہے کہ میں نے کوئی کتاب "پی ڈی ایف" پہ پڑھی ہے. کتاب کے مصنف قیوم خالد کا تعلق انڈیا سے ہے اور وہ روزگار کے سلسلے میں امریکہ مقیم ہیں. قیوم صاحب کے افسانوں پر رائے مَیں یقیناً انباکس میں دیتا مگر ان کے اندازِ بیاں نے مجبور کر دیا کہ میں اسے دوستوں کے ساتھ شیئر کروں.
کسی اچھی کہانی کی ایک خُوبی یہ ہے کہ اسے پڑھتے ہوئے تمام مناظر آنکھوں کے سامنے فلم کی صورت چلنے لگتے ہیں. اس کے کردار ہمیں اپنے سامنے سانس لیتے محسوس ہوتے ہیں. مگر قیوم خالد صاحب کے افسانوں میں ایک خُوبی اضافی ہے جو انہیں دیگر لکھاریوں سے ممتاز بنا دیتی ہے. انہیں پڑھتے ہوئے تین طرح کے احساسات ذہن پر منکشف ہوتے ہیں.
اوّل تو یہ لگتا ہے کہ آپ افسانہ پڑھ نہیں رہے بلکہ مصنف آپ کو سُنا رہا ہے. مصنف سُنا رہا ہے اور آپ سُن نہیں رہے بلکہ افسانہ جی رہے ہیں.
دوئم یہ کہ ہر افسانے میں ایک مکمل فلم جیسی تکنیک ہے. مگر اس کے باوصف بھی فلم, افسانہ نگاری پر حاوی نہیں ہوتی اور افسانہ, فلم کو بوجھل نہیں کرتا.
تیسری خُوبی یہ ہے کہ مصنف نے افسانے لکھے نہیں ہیں بلکہ اُن کی مصوری کی ہے. ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہر افسانے میں مصور نے نگار خانہ سجا رکھا ہے. اور نگار خانے کی سبھی تصاویر مل کر ایک شاہکار تصویر کو ترتیب دیتی ہیں.
ان خصوصیات کو مصنف نے کمال مہارت سے کچھ اس طرح بروئے کار لایا ہے کہ پڑھنے والے پر تینوں در الگ الگ وا ہوتے ہیں. اسٹوری ٹیلنگ, سینما اور آرٹ گیلری کوئی بھی ایک دوسرے کو گدلا نہیں کرتے. سب شو ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور سب ہی ایک دوسرے سے الگ رہتے ہیں. لیکن اگر مُجھے کسی ایک خُوبی کو منتخب کرنا پڑے تو میں مصور کو سب سے زیادہ نمبر دوں گا. افسانہ نگاری میں مصوری ایک ایسا فن ہے جو ہر کسی کے حصے میں نہیں آتا. اگر میں چند افسانوں کے عنوان مثال کے طور پر پیش کروں تو ذہن میں کسی مصور کے فن پارے بننے لگتے ہیں. جیسے "سُورج کی تلاش" "تاریک اُجالے" "کرب ناک فاصلے" "بُت اگر بولتے" "ننگے ہاتھ" "ٹُوٹا ہوا عکس" "کائی" "بے سمت راستوں کے مسافر" اور "کھویا ہوا جزیرہ".
کتاب میں کُل 22 افسانے ہیں. یہ افسانے 1973 سے 2014 کے درمیان لکھے گئے. اس زمانی پیمائش سے کوئی بھی بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ ان افسانوں کے پیچھے کس قدر لمبی ریاضت ہے. ان افسانوں میں ایک بات اور بھی قابلِ توجہ ہے. ہر افسانہ ایک مکمل تصویر ہے اور یہ تمام تصاویر ایک بھرپور زندگی "کھویا ہوا جزیرہ" کو تشکیل دیتی ہیں. وہ زندگی, جسے مُجھ سے پچھلی نسل نے جیا ہے. وہ زندگی, جسے میرے ماں باپ جیتے آئے ہیں. وہ زندگی, جسے ہندوستانی اور پاکستانی افراد ایک سا جی رہے ہیں.
میں قیوم خالد صاحب کو سلام پیش کرتا ہوں. اور اُن کا نہایت مشکُور ہوں جو انہوں نے مُجھ جیسے ادھ عمرے کو یہ عزت بخشی کہ "کھویا ہوا جزیرہ" نہ صرف پڑھنے کو دی بلکہ میری رائے کو بھی اِذن بخشا.
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“