ہم پچھلے تین مضامین میں اہم نکات کو سمیٹ چکے ہیں۔ اب کہانی کو سمیٹنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ ایک بلیک ہول یا کائنات کے ابتدائی دور میں خم اور مروڑ کی قوتیں ایک دوسرے کے متضاد عمل کریں گی۔ ایک ابتدائی کائنات کی شدید ترین کیفیت میں جب مادے میں افراط تیزی سے جاری ہے اور نئے اجسام مسلسل تشکیل پا رہے ہیں تو اول زمان مکانی کا خم مروڑ کی قوت پر غالب آ جائے گا اور اس سے مادہ خلا میں نسبتا کم جگہ والے کئی علاقوں میں اکٹھا ہونا شروع کر دے گا۔ لیکن مروڑ کی قوت مسلسل بڑھنے کی وجہ سے بالآخر زمان مکانی کے خم کو مغلوب ہونا پڑے گا۔ اگر ایسا نہ ہو تو مادہ اپنی ہی کشش سے اپنے اندر کی جانب سکڑتا جائے گے حتی کہ وہ ایک نقطے جتنا رہ جائے گا۔ یہ وہی نقطہ ہے جسے لامحدود سنگلریٹی کا نام دیا گیا ہے۔
خم اور مروڑ کی متضاد قوتوں کے بیچ مادہ ایک محدود کثافت یا finite density کا حامل ہو گا نہ کہ لامحدود کثافت کا اگرچہ یہ کثافت بہت زیادہ ہو گی۔ یوں سمجھیے کہ ایک چمچ مادے کی کمیت ہزاروں ٹن ہو سکتی ہے۔ کشش ثقل کی جو توانائی اس انتہائی گہری کثافت کی کیفیت میں جنم لے گی وہ بہت زیادہ ہو گی۔ اتنی زیادہ کہ یہ روشنی کو بھی اپنی جانب کھینچ لے گی۔ اگر آپ یاد کریں تو یہ ہی بلیک ہول کی بعینہ تعریف ہے۔ فرق یہ ہے کہ اس نظریے کی رو سے بلیک ہول کی کثافت ایک لامحدود سنگلریٹی نہیں ہے بلکہ خم اور مروڑ کی قوتوں کے مستقل عمل اور ردعمل کے باعث بلیک ہول اب ایک بہت عظیم مگر محدود کثافت کا حامل علاقہ ہے جو بے پناہ توانائی اپنی کشش ثقل کی صورت میں پیدا کر رہا ہے۔
آئن سٹائن کی مشہور مساوات کے تحت مادے کا توانائی میں بدلنا ممکن ہے۔ اسی مساوات کو الٹ دیں تو توانائی بھی مادے میں بدل سکتی ہے۔ ہمارے بلیک ہول میں پیدا ہونے والی کشش ثقل کی یہ عظیم توانائی بھی ان شرائط کے تحت مسلسل کمیت میں تبدیل ہو جائے گی۔ اس بات کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ مادہ روشنی کی رفتار پر چونکہ توانائی میں تبدیل ہو جاتا ہے اسی طرح اس کی متضاد صورت میں اگر اتنی ہی توانائی خود موجود ہو تو وہ بھی مادے میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ یعنی آپ نے E=mc2 کو الٹ دیا ہے۔ توانائی کا یہ بے پناہ اخراج مستقل جوہری ذروں کو جنم دے گا۔ اس عمل سے بلیک ہول کے اندر موجود کمیت میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ یہ عدم سے وجود کی طرف مراجعت ہے۔ انگریزی میں اسے
Creating something out of nothing
کہیں گے۔
یہ نئے پیدا ہونے والے جوہری ذرے مسلسل گھماو کی حالت میں ہوں گے جس سے زمان مکانی میں پڑنے والے بل میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ ایک وقت ایسا آئے گا کہ زمان مکانی کا بل واضح طور پر زمان مکانی کے خم پر غالب آ جائے گا ۔ یاد رہے کہ خم کی قوت کشش ثقل پیدا کر رہی تھی جس سے مادہ مرکز کی طرف اکٹھا ہو رہا تھا جبکہ بل یا مروڑ کی قوت کا رخ باہر کی جانب تھا۔ جیسے ہی مرکز گریز قوت مرکز مائل قوت پر غالب آئے گی، تمام مادہ باہر کی جانب لپکے گا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا آپ ایک اسپرنگ کو قوت سے اندر کی جانب دبا کر رکھیں اور جیسے ہی آپ اسے دبانا چھوڑیں گے اسپرنگ برق رفتاری سے کھل جائے گا یا ایک بڑے سے لچکدار گیند کو دبا کر رکھا جائے تو جیسے ہی دباو کی قوت ختم ہو گی یہ گیند اچھل کر اپنی جگہ چھوڑ دے گا۔
آپ نے کرتب بازوں کو بعض اوقات دیکھا ہو گا کہ کہ وہ بیک وقت کئی رسیوں سے بندھی گیندوں کو بیک وقت گھماتے ہیں۔ یہ گیندیں ان کے جسم کے گرد تیزی سے گردش میں رہتی ہیں اور بعض اوقات ان پر نظر ٹکانا ناممکن ہو جاتا ہے۔ فرض کیجیے کہ یہ گیندیں جن رسیوں سے بندھی ہیں جو کہ کرتب باز کے ہاتھ میں ہیں وہ سب بیک وقت کمزور پڑ کر ٹوٹ جائیں تو کیا ہو گا۔ یہ گیندیں چہار سمت دور تک اڑتی چلی جائیں گی کہ اب مرکز مائل قوت ختم ہو گئی ہے اور ان پر صرف مرکز گریز قوت کا زور رہ گیا ہے۔ بلیک ہول میں بل کی قوت غالب آنے کے بعد بھی مادہ ایسی ہی کیفیت سے گزرے گا۔ یہ قیاس کرنا مشکل نہیں کہ اس سے ایک مسلسل پھیلتی ہوئی کائنات جنم لے گی۔ ہماری کائنات کا موجودہ پھیلاو اس قیاس پر ناقابل یقین حد تک پورا اترتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر بلیک ہول کے اندر ایک نئی کائنات جنم لیتی ہے۔ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ ہماری کائنات کا مادہ عدم سے نہیں بلکہ ایک پرانی کائنات کے مادے سے وجود میں آیا۔ اور اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ ابھی وہ کائنات مکمل طور پر فنا نہ ہوئی ہو یعنی ایک سے زیادہ کائناتیں عین ممکن ہیں۔ یعنی ہماری کائنات کی بظاہر لامحدود وسعت دراصل ایک بلیک ہول کے اندر بند ہے جو خود کسی اور کائنات کا حصہ ہے اور اسی طرح وہ کائنات ایک اور کائنات کے ایک بلیک ہول کے اندر مقید ہے۔
چونکہ ایک کائنات میں کئی بلیک ہول ہو سکتے ہیں اس لیے ایک کائنات لاتعداد اور کائناتوں کو جنم دے سکتی ہے اور یہ سلسلہ لامحدود کائناتوں تک پھیل سکتا ہے۔ چونکہ باہر سے بلیک ہول کے اندر جھانکنا ممکن نہیں ہے کیونکہ بصارت یا مشاہدہ روشنی کا محتاج ہے اور روشنی بلیک ہول کے کناروں سے باہر نہیں نکل پاتی اس لیے ہماری کائنات کی آبائی کائنات میں موجود کسی حیات کے لیے ہماری کائنات کا مشاہدہ ناممکن ہے۔ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ ہماری کائنات جسے ہم دیکھ سکتے ہیں اس کے اندر موجود تمام بلیک ہولز میں اپنی اپنی کائنات موجود ہے اور ان کائناتوں کے اپنے بلیک ہولز وقت کے ساتھ تشکیل پاتے ہیں اور مزید کائناتیں جنم لیتی ہیں اور یہ سلسلہ شاید کبھی نہ تھمے۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ ابتدائی انسانی شعور کا تصور قیامت محض ایک خام تصور ہے کیونکہ ہر فنا سے ایک اور وجود تشکیل پاتا چلا جائے گا اور فلکیاتی حیات کا یہ تصور ہمیشہ قائم رہنے والا ہے۔
وقت کا ہمارا تصور یک جہتی ہے یعنی وقت ایک لکیر کی صورت گذر رہا ہے۔ ہم وقت میں محض آگے سفر کرتے ہیں تاوقتیکہ ہم زمان مکانی میں ایک ورم ہول نہ بنا لیں۔ مادے کی جو حرکت بلیک ہول کی سرحد یا ایونٹ ہورائزن سے گزرتے وقت ہو گی وہ ہمیشہ یک جہتی ہی نہیں یک طرفہ بھی ہو گی کہ بلیک ہول کی کشش ثقل کی وجہ سے اور کوئی حرکت کی سمت ممکن نہیں۔ وقت کی یہ تعبیر یا تعریف بھی ہماری کائنات کی نہیں بلکہ اس کائنات سے مستعار ہے جس کے ایک بلیک ہول میں ہماری کائنات نے جنم لیا ہے۔
بل یا مروڑ کی جس کیفیت کو نکوڈیم پوپلوسکی نے بیان کیا ہے یہ مادہ اور ضد مادہ کے درمیان موجود عدم توازن کی تشریح بھی کرتی ہے۔ بل کی اس حالت کی وجہ سے مادہ آخر میں الیکٹران جیسے جوہری ذروں کی صورت فنا ہو گا اور ضد مادہ فنا ہو کر تاریک مادے میں ڈھل جائے گا۔ تاریک مادہ یا ڈارک میٹر ایک پراسرار تصور ہے۔ ہم یہ تو جانتے ہیں کہ ہماری کائنات کا بیشتر حصہ اسی تاریک مادے پر مشتمل ہے پر اسے دیکھنا یا اس کا مشاہدہ کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ نہ روشنی خارج کرتا ہے نہ ہی کوئی مقناطیسی تابکاری۔ ہم ابھی تک یہ نہیں سمجھ پائے کہ اس کا وجود کیونکر ممکن ہے لیکن اگر یہ مان لیا جائے کہ ہماری کائنات کی سرحد ایک بلیک ہول کا ایونٹ ہورائزن ہے تو پھر تاریک مادے کو سمجھنا نسبتا آسان ہے کہ اس کی خصوصیات بلیک ہول کی خصوصیات کا پرتو ہیں۔
بل کی یہی کیفیت ہمیں یہ بھی سمجھا سکتی ہے کہ تاریک توانائی یا ڈارک انرجی آخر کیا ہے۔ یہ وہی توانائی ہے جو خلائے بسیط میں ہر جگہ ہے اور جس کی وجہ سے ہماری کائنات پھیل رہی ہے۔ ہم حتمی طور پر یہ نہیں جانتے کہ یہ توانائی کہاں سے آئی لیکن ایک بلیک ہول کے اندر بل کی قوت کا خم کی قوت پر غالب آنا جس توانائی کو جنم دے گا وہ ایسی ہی توانائی ہو سکتی ہے۔ درحقیقت کائنات کا مستقل پھیلاو بذات خود اس بات کا ثبوت ہو سکتا ہے کہ بل کی کیفیت حقیقی ہے اور اسی وجہ سے اس عظیم الشان تاریک توانائی کا جنم ممکن ہو سکا ہے جو کائنات کو وسیع کرتی چلی جا رہی ہے۔
یہ سب ابھی تک ایک نظریہ ہے۔ ریاضی کی مساواتیں اور طبعیات کے پیچیدہ فارمولے اس نظریے کی بڑی حد تک تصدیق کرتے ہیں لیکن حتمیت تک کا سفر ابھی بھی طویل ہے۔ اگر ہم اس نظریے کو حقیقت مان لیں تو کشش ثقل اور فلکیات سے جڑے ہمارے کئی پیچیدہ مسئلوں کا حل بھی نکل آتا ہے۔ لیکن اس کو حقیقت کا درجہ دینے میں ابھی کئی مراحل ہیں۔ ہم تو ابھی تک کوانٹم گریویٹی کی ایک جامع تعریف تک نہیں پہنچ پائے ہیں۔ ایک سوال کا جواب ملتا ہے تو کئی نئے سوال کھڑے ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم اس بلیک ہول اور اس کی آبائی کائنات کے بارے میں کیسے جان سکتے ہیں جس کے اندر ہماری اپنی کائنات مقید ہے؟ کتنی کائناتوں کا تار ہے جو ازل سے اب تک بندھا ہوا ہے؟ ہم کائنات کے آخری سرے پر موجود بلیک ہول کی سرحد کا مشاہدہ کیسے کر سکتے ہیں؟ ہم یہ فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں کہ ہماری کائنات واقعتا ایک بلیک ہول کے اندر ہے؟
ان سوالات میں شاید آخری سوال ایسا ہے جس کا جواب ہم سب سے پہلے ڈھونڈھ سکتے ہیں۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ ستارے، سیارے حتی کہ بلیک ہول بھی اپنے اپنے محور کے گرد گھومتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری کائنات کا محور گردش ہمارے آبائی بلیک ہول کا محور گردش ہی ہو گا اور وہ اس کائنات میں موجود تمام اجسام کے لیے ایک سا ہو گا۔
ہمارے مشاہدے میں آئی پندرہ ہزار کہکشاوں میں سے کائنات کے جنوبی (کائناتی سمت محض ایک ریفرنس کے طور پر ہے) نصف کرے کے مشاہداتی توسط میں موجود اکثر کہکشائین بائیں طرف گردش کر رہی ہیں جبکہ شمالی کرے میں یہی گردش دائیں طرف ہے۔ یہ مشاہدہ اس مفروضے سے لگا کھاتا ہے کہ کائنات کا محور ایک ہی ہے۔ لیکن ابھی اس مفروضے کو حقیقت کا روپ دینے میں بہت وقت ہے۔ تاہم بل یا مروڑ کا نظریہ بہت اہم ہو گیا ہے اور کائنات کو سمجھنے کے لیے صرف زمان مکانی کا تصور کافی نہیں رہا۔
شاید وہ دن بہت دور نہیں جب ہم اپنے وجود سے جڑے اسرار کی ساری گرہیں کھول سکیں گے۔ عرفان ذات شاید تبھی ممکن ہو گا۔ آپ میں سے کچھ تب تک قدیمی سادہ تصورات سے دل کو بہلا سکتے ہیں کہ دل کے خوش کرنے کو یہ سارے خیال اچھے ہیں۔ باقی رہی جستجو تو وہ ان کے لیے ہے جو قفس سے آزاد ہیں اور پرواز کو بیماری نہیں سمجھتے۔
(اس مضمون کا خیال اور اس میں موجود حوالے مشہور ماہر طبعیات نکوڈیم پوپلوسکی کی بلیک ہولز پر کی گئی تحقیق کے مرہون منت ہیں۔)
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...