مولانا آزاد (۱۹۵۸۔۱۸۸۸) ایک زیرک اور ہمہ جہت شخصیت کے حامل معمارِ قوم تھے۔ انہوں نے قوم اور اس کے افراد کی شخصیت کے ارتقا کے لیے ہر ضروری پہلو کو اپنایا۔ ماہرینِ نفسیات نے شخصیت کے ارتقا کے لیے چار طرح کی توانائیوں کو ضروری قرار دیا ہے : جسمانی توانائی، ذہنی توانائی، جذبات و احساسات کی تونائی اور روحانی توانائی۔ جب ہم مولانا کی خدمات اور کارناموں کا جائزہ لیتے ہیں تو پاتے ہیں کہ ان تمام پہلوؤں سے بھی وہ پورے اترتے ہیں۔ اپنی تصانیف ، قائم کردہ اداروں اور ذہنی کمالات کے توسط سے انہوں نے قوم کے افراد کی تعمیر وترقی کے لیے ان تمام ہی توانائیوں کے حصول کے راستے ہموار کیے۔
جسمانی توانائی (Physical Energy ) کے حصول کے بغیر کوئی بھی قوم اور اس کا کوئی بھی ایک فرد ایک قدم آگے نہیں چل سکتا۔ صحتمند جسم کو تمام ہی کارناموں کے لیے لازمی اور ضروری قرار دیا گیا ہے۔ مولانا نے اس چیز کو بہت اچھی طرح سمجھ لیا تھا۔ اس لیے خود بھی اس کے حصول کی خاطر سنجیدہ تھے۔ غبار خاطر کے خطوط سے پتہ چلتا ہے کہ مولانا صحتمند جسم کی اولین شرط ’سحر خیزی‘ کے عادی تھے۔ غبار خاطر کے تقریباََ سارے ہی خط صبح کے چار بجے لکھے گیے تھے ۔ مولانا خطوط کی ابتداء میں بار بار چار بجے صبح کی جانفزا وقت کا ذکر کرتے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ نام نہاددانشوروں کی لائف اسٹائل کے علی الرغم مولانا قید و بند میں بھی اپنے معمولات کو لے کر یکسو رہتے اور صبح خیزی پر آخری وقت تک کاربند رہے۔اسی لیے وہ ایسے کارہائے نمایاں انجام دے سکے جو دس بجے بیدار ہونے والے قائد کبھی انجام نہ دے سکیں گے۔مولانا نے وزیر تعلیم ہونے کی حیثیت سے اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسیٹیوں کے نصاب ِتعلیم کو اسی انداز سے ترتیب دی ، جس میں جسمانی توانائی کے حصول کے لیے ورزش، کھیل کود اور این سی سی وغیرہ کی سرگرمیوں کو بھرپور جگہ ملی۔
ذہنی توانائی (Mental Enargy) ہی دراصل انسانی کمالات کا سرچشمہ ہوتی ہے۔ اس کے بغیر انسان نہ صرف حصول رزق سے محروم ہو جائے گا بلکہ انسانوں کے لیے مخالف ماحول کی اس سرزمین پر باقی رہنا بھی مشکل ہوجائے گا۔اگر اس کے باوجود انسان کرۂ ارض کو اپنے لائق بناکر زندگی کی سانسیں لے رہا ہے تو اس کی وجہ صرف اور صرف ذہنی توانائی ہی ہے۔ اس ذہنی توانائی کے حصول کے لیے مولانا نے دیگر ترقی یافتہ اقوام کی طرح بھارت میںبھی ۱۹۴۸ میں یونیورسٹی ایجوکیشن کمیشن (موجودہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن ) کا قیام عمل میں لایا اور پھر نونہالوں کی ذہنی ترقی کے لیے ۱۹۵۲ میں سکنڈری ایجوکیشن کمیشن (موجودہ سی بی ایس سی) کے قیام کو شرمندۂ تعبیر کیا۔ آج ہندوستانی دماغ کا ڈنکا پوری دنیا میں بج رہا ہے تو اس کا کچھ نہ کچھ حصہ مولانا کے کھاتے میں بھی یقینا جا رہا ہے کہ ان کے قائم کردہ اداروں کی بدولت ہی ایسا ممکن ہو پا رہا ہے۔ مولانا کے بتائے ہوئے نقشے کے مطابق ہندوستان آگے بڑھ رہا ہوتا تو آج ہمارا ملک برین ڈرین (Brain Drain) کے مسئلے سے نجات پاکر برین گین (Brain Gain) کے زمرے میں داخل ہو گیا ہوتا۔
مولانا نے ہندوستان کی نوے فیصدی متوسط آمدنی والی آبادی کو اعلی آمدنی والی آبادی میں بدلنے کے لیے ہی آئی آئی ٹی جیسے ٹیکنکل اداروں کا قیام عمل میں لایا کہ یہاں کے وسائل سے یہیں کے لوگ اپنے اور اپنے ملک کی تعمیر میں حصہ لیں۔ ٹیکنکل افراد کو باہر سے بلانے کی ضرورت پیش نہ آئے ۔ اس سے باہر جا رہے پیسوں کو روک کر بہت جلد ملک ان پیسوں سے اپنے ہی ملک کے افراد کو روزگار دینے کی پوزیشن میں آجائے گا اور ملک اعلی جی ڈی پی اور Per Capita Income والے ملکوں کی فہرست میں شامل ہو جائے گا۔ مولانا کی اس پالیسی کی سمجھ اس وقت حاصل ہوئی جب ہم خلیجی مملک کی معیشت کو دیکھتے ہیں کہ انہوں نے قدرتی وسائل کی فراوانی کے باوجود اپنے یہاں ٹیکنکل افراد کی تیاری کی طرف توجہ نہ دی ،جس کے چلتے انہیں اپنے یہاں کی انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے باہر کے ممالک سے ٹیکنکل افراد درآمد کرنے پڑے، جس کی وجہ سے ایک بڑا سرمایہ انہیں خرچ کرنے پر مجبور ہونا پڑرہا ہے ۔
کسی بھی کام کو انجام دینے کے لیے جذباتی طور پر مستحکم ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اس لیے ایموشنل اینرجی کو ماہرین نفسیات نے اس فہرست میں اہم مقام دیا ہے ۔ ایموشنل اینرجی کے حصول کے لیے فنونِ لطیفہ سے آگاہی اور اس سے لطف اندوزی کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ مولانا خود بھی ۱۹۰۵ میں ’راگ درپن ‘ نامی کتاب کے ہاتھ لگنے کے بعد فنون لطیفہ کی اس طاقت کے قائل ہو گئے تھے۔گہری ریاضت کے بعد ’ستار‘ اور ’بین‘ کے مشاق بھی ہو گئے تھے۔اس لیے فنونِ لطیفہ کی طاقت کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ چنانچہ آزادی کے فوراََ بعد ہی انہوں نے قوم کے افراد کی شخصیت کی تعمیر اس پہلو سے بھی ہو، اس کے لیے انہوں نے ۱۹۵۰ میں انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنز(آئی سی سی آر) ، ۱۹۵۲ میں سنگیت ناٹک اکادمی و للت کلا اکادمی اور ۱۹۵۴ میں ساہتیہ اکادمی جیسے فنون لطیفہ کو فروغ دینے والے اداروں کا قیام عمل میں لایا۔ آج ہندوستانی فنون لطیفہ کی مختلف اقسام سے دنیا مستفید ہورہی ہے اور پنڈت روی شنکر اور پنڈت بھیم سین جوشی جیسے بے مثال فنکاروں کو باوقار گریمی ایوارڈز سے نوازا جا رہا ہے تو مولانا آزاد کے قائم کردہ ان اداروں کو بھی اس کا کریڈٹ جا تا ہے۔
انسان کو اصلی خوشی اس وقت حاصل ہوتی ہے جب وہ روحانی طور سے خود کو مضبوط پاتا ہے۔ اس لیے مختلف مذاہب میں روحانیات کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ بلکہ مذاہب کا بیشتر حصہ اسی ناحیے سے اس کی ترقی کے لیے مختص ہوتاہے۔ مولانا بھی ایک مذہبی انسان تھے اور سیکولرازم اور مذہب کے باریک فرق کو جانتے تھے۔ اس لیے انہوں نے دیگر مرعوب زدہ دانشوروں کے برخلاف روحانیات کو اپنی زندگی میں جگہ دی اور قوم کے افراد کو بھی روحانی ترقی کے راستے دکھائے۔اقوامِ متحدہ نے بھی بھوٹان کے بادشاہ ’ جگمے کھیسر وانگچک ‘کی توجہ دہانی کے بعد ۲۰۱۲ میں اس چیز کی طاقت کو سمجھا اور ورلڈ ہیپنس انڈیکس نام سے ملکوں کی ایک سالانہ رینکنگ شروع کی۔ جس میں بھارت کی پوزیشن ناگفتہ بہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کی بعد کی حکومتوں نے روحانیات کو سرے سے ہی پسِ پشت ڈال دیا۔ ۲۳؍ مارچ ۱۹۱۶ کو جاری ’ڈیفینس آف انڈیا آرڈی نینس ‘کے تحت جولائی ۱۹۱۶ میں جب مولانا کو پہلی بار گرفتار کر لیا گیا تھا تو بھی مولانا نے اس مشن کو نہیں چھوڑا تھا۔ بلکہ رانچی میں نظر بندی کے دوران بھی خود کو روحانی طاقت سے لبریز رکھنے کے لیے ترجمان القرآن اور تذکرہ جیسی کتابوں کی تصنیف کر ڈالی۔یہی وجہ ہے کہ یکم جنوری ۱۹۲۰ کو جب مولانا رہا ہوئے تو مولانا کے ہاتھوں میں ان دونوں روحانی کتابوں کے ساتھ ساتھ ان کی زبان پر اس طرح کے شعر بھی جاری تھے ـ:
قصد کرتا ہوں جو اس جا سے کہیں جانے کا دل یہ کہتا ہے کہ تو جا، میں نہیں جانے کا
حقیقت یہ ہے کی مولانا آزاد ایک مکمل شخصیت کے ارتقا کی دعوت دینے والے معمارِ قوم تھے۔ اس لیے انہیں سینکڑوں سالوں تک اسی طرح یاد کیا جاتا رہے گا۔
(مضمون نگار ، مولانا آزاد نشنل اردو یونیورسٹی لکھنؤ کیمپس میں ریسرچ اسکالر ہیں ، موبائل : 8539054888 )۔