گھوڑا ترکوں کی ثقافت میں بہت اہم علامت تھا۔ گھوڑے کی دُم بھی اہم تھی۔ عثمانی ترکوں کا سب سے بڑا اعزاز پاشا تھا (جو اصل میں باشی تھا)۔ یہ اعزاز‘ یوں سمجھیے لارڈ کا ہم مرتبہ تھا۔ چیدہ چیدہ گورنروں‘ جرنیلوں‘ صوبوں کے والیوں اور غیر ملکی شخصیات کو یہ اعزاز سلطان کی طرف سے عطا کیا جاتا تھا۔ پاشا کے تین درجے تھے۔ سب سے بڑے درجے کے پاشا کو اجازت تھی کہ اُس کے جھنڈے میں گھوڑوں کی تین دُمیں ہوں۔ اس سے کم درجے کے پاشا کے پرچم میں دو دُمیں اور کم ترین پاشا صرف ایک دُم والا جھنڈا لہرا سکتا تھا۔ سلطان کے خیمے کے سامنے جو جھنڈا لہراتا‘ اس میں چار دُمیں ہوتیں کیونکہ وہ سپریم کمانڈر بھی تھا۔ جھنڈے کے ستون کے اوپر ہلال ہوتا۔ یہ ہلال اور یہ ایال… منگول اور ترک ثقافت کے امتزاج کی پیداوار تھے۔ ہلال اور گھوڑے کے بال دونوں انتہائی اہم علامتیں تھیں۔ گھوڑا ترکوں کی بہادری‘ پیش قدمی اور فتح یابی کا نشان تھا۔ یہ سخت جانی اور مشقت پسندی کی علامت تھا۔ وسط ایشیا کے میدانوں سے لے کر انا طولیہ‘ اور قسطنطنیہ تک اور پھر مشرقی یورپ کی آخری سرحدوں تک گھوڑا ہی ترکوں کا رفیقِ سفر رہا۔ یورپ آج تک نہیں بھولا کہ عثمانی ترکوں کے پراسرار‘ سایہ آسا‘ جَو پھانکتے نوجوان‘ ہلال اور ایال سے بنے ہوئے جھنڈے اٹھائے‘ کس طرح ڈان اور ڈنیوب کی وادیوں میں اُتر آئے تھے۔ پھر دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ ان سواروں کے چرمی لباسوں کی ضَو ویانا کی دیواروں پر پڑ رہی تھی۔ کرۂ ارض کی سلطنتوں کے سفیر زربفت کی بقچیوں میں خراج باندھے‘ ہاتھ سینے پر رکھے ’’بابِ عالی‘‘ کی طرف رواں تھے۔ ہلال اور ایال والا پرچم آدھے یورپ پر لہرا رہا تھا۔
مغل ہندوستان آئے تو گھوڑے کے ساتھ ہاتھی اور تختِ رواں بھی ان کے تزک و احتشام کی علامت قرار پائے۔ فرانسیسی ڈاکٹر برنیئر جو شاہجہان کے دربار میں رہا‘ لکھتا ہے کہ عام طور پر مغل جنوب کی طرف سفر کرتے تو رَتھ پر سوار ہوتے۔ شمال کو نکلتے تو تختِ رواں پر ہوتے۔ مشرق کی طرف جانا ہوتا تو ہاتھی پر اور مغرب کی طرف گھوڑے پر۔ یہ سب ان کی سلطنت کی وسعت و جلال کی علامتیں تھیں۔ جنوب میں ہندو دیومالا کے مراکز تھے اور رتھ کی اہمیت تھی۔ مشرق میں اڑیسہ‘ بنگال اور آسام کے جنگل تھے جہاں ہاتھی بہتات میں تھے۔ مغرب کی طرف شاہراہیں افغانستان‘ ایران اور وسط ایشیا کو جاتی تھیں جہاں گھوڑا تیز رفتاری کا نشان تھا۔ شمال میں کشمیر کی جھیلیں‘ پہاڑ اور وادیاں تھیں اور تختِ رواں ان سے مناسبت رکھتا تھا۔
انگریز اپنے چھوٹے سے جزیرے سے نکلے تو بحری جہاز ہی ان کے لیے سب کچھ تھا۔ یہ جو‘ ان کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا تو اس بے مثال عروج کی پشت پر بحری جہاز ہی تھا۔ کہاں نیوزی لینڈ… دنیا کا جنوب مشرقی کنارا اور کہاں کینیڈا کا صوبہ برٹش کولمبیا جو انتہائی مغرب میں واقع تھا۔ اس زمانے میں طیارہ تو دور کی بات ہے‘ موٹر سائیکل تک وجود میں نہیں آیا تھا۔ ذرا اُن کی سول سروس کی تعیناتیاں اور تبادلوں پر غور کیجیے۔ نائیجیریا سے آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ سے کینیڈا۔ جنوبی افریقہ سے ہندوستان… باپ آسٹریلیا کا گورنر تھا تو بیٹا دہلی میں وائسرائے بنا۔ چنانچہ آج بھی انگریزی ادب میں بحری جہاز برطانیہ کے گم شدہ جاہ و جلال کی علامت ہے!
ہمارے جاہ و جلال‘ تزک و احتشام‘ شان و شوکت‘ سطوت و شکوہ کا نشان کیا ہے؟ گھوڑا؟ بحری جہاز؟ ٹرین؟ کتاب؟ قلم؟ نہیں! ہمارے کلچر‘ ہماری ثقافت‘ ہمارے مائنڈ سیٹ‘ ہمارے طرزِ فکر کو بیان کرنا ہو تو ایک لفظ کافی ہے۔ صرف ایک لفظ گلو بٹ!
معاف کیجیے گا۔ گلو بٹ کو کسی ایک سیاسی جماعت سے وابستہ کرنا سخت غیر حقیقت پسندانہ حرکت ہوگی! مسلم لیگ نون آسمان سے نہیں اُتری‘ نہ کسی الگ تھلگ جزیرے میں رہتی ہے۔ گلو بٹ ہم سب کی مشترکہ میراث ہے۔ ہم پیپلز پارٹی ہیں یا مسلم لیگ‘ ہم ایم کیو ایم ہیں یا جے یو آئی یا اے این پی! ہم سب ایک مشترکہ ثقافت رکھتے ہیں‘ ہمارا طرزِ فکر ایک ہے اور اس طرزِ فکر کا نشان گلو بٹ ہے۔
ہم کس طرح سیاست کرتے ہیں۔ ہم حکومت کیسے چلاتے ہیں۔ ہم سودا کیسے تولتے ہیں۔ ہم وعدہ کس طرح پورا کرتے ہیں۔ ہم سچ کتنا بولتے ہیں۔ ہم ٹیکس کس طرح دیتے ہیں۔ ہماری ٹریفک کس معیار کی ہے۔ ہم صفائی پسند کتنے ہیں۔ ہماری پولیس کیا چیز ہے۔ ہماری سول سروس کس نہج پر سوچتی ہے۔ ہم مذہب کا کس طرح استعمال یا استحصال کر رہے ہیں۔ ان سب سوالوں کا ایک ہی جواب بنتا ہے۔ گلو بٹ!
گلو بٹ کے مختلف روپ ہیں۔ کہیں اسے سیکٹر کمانڈر کہتے ہیں۔ کہیں وہ جیالا کہلاتا ہے۔ کہیں اس نے کاندھے پر چار خانے والا رومال ڈال کر سر پر پگڑی باندھی ہوئی ہے۔ کہیں وہ لُڈی‘ ہے جمالو گا رہا ہے۔ کہیں نعرہ لگاتا ہے ہُن میاں دے نعرے وجن گے۔ کہیں اس نے کسی یونیورسٹی پر قبضہ کر رکھا ہے اور ہوسٹل خالی کرنے سے انکار کر رہا ہے۔ کہیں وہ مرید ہے۔ کہیں کسی مخصوص رنگ کی ٹوپی پہنے ڈیم نہیں بننے دیتا۔ لیکن وہ جہاں بھی ہے‘ اس کے ہاتھ میں لاٹھی ہے۔ اس کا دلیل سے‘ گفت و شنید سے‘ قانون سے‘ متانت و تہذیب سے کوئی علاقہ نہیں!
ہم خوش نصیب ہیں کہ تاریخ میں ہمارا نام گلو بٹ کے حوالے سے آئے گا۔ اگر گلو بٹ ترکوں کو یا انگریزوں کو مل جاتا تو تاریخِ عالم کتنی مختلف ہوتی!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“