قطرہ قطرہ دریا ۔۔۔۔۔۔ ایک سکون بخش تجربہ
افسوس ہے کہ چند دن پہلے تک مجھے مقبول عامر کے بارے میں کچھہ پتہ نہیں تھا۔ ان کا ایک شعر دل کو لگا تو شئیر کیا ۔اس پر نام بھی آدھا غلط لکھا تھا۔ بھائی متین خان مبتلا نے درست کرایا۔ کئی دوستوں نے خواہش ظاہر کی کہ مقبول عامر کا ذرا تفصیلی تعارف ہونا چاہئیے۔ کمنٹس میں دوستوں نے کچھہ معلومات فراہم بھی کیں۔ انٹرنیٹ سے رجوع کیا تو مزید کچھہ مل گیا۔ پوسٹ لگائی تو دوستوں سے مزید معلومات ملنے لگیں ۔ اس اشتراک سے ، آپ نے دیکھا کہ ایک اچھا خاصا نوٹ بن گیا۔
اس سے مجھے کچھہ اور یاد آگیا ہے جو بیان کرتا ہوں ۔۔۔
کوئی دوسال پہلے کی بات ہے میرے عزیزوں نے بتایا کہ کہ ایک نوجوان پولیو قسم کی کسی بیماری کی وجہ سے دونوں ٹانگوں سے معذور ہے۔ کہیں آجا نہیں سکتا سوائے اس کے کہ کوئی مہربان ہو اور اٹھا کر موٹر سائیکل پر بٹھائے اور کہیں چھوڑ آئے۔ اس طرح وہ اپنےغریب خاندان پر مزید بوجھہ ہے۔ اس نے وزیراعلیٰ اور بیت المال کو درخواستیں لکھی ہیں کہ اسے موٹر ٹرائیسکل فراہم کی جائے۔ مجھے کہا گیا کہ آپ لاہور ہوتے ہیں اور صحافی بھی ہیں آپ کی واقفیت ہوگی ، اس کا کام کرادیں۔ یہ ان کی خوش فہمی تھی۔ میں اس قسم کا صحافی نہیں۔ میرے محلے میں بھی شاید ہی کسی کو معلوم ہوکہ میں کیا کرتا ہوں۔ اہل حکم سے دور ہی رہتا ہوں۔ میرا کلاس فیلو چار سال وزیراعظم پاکستان رہا ، اس سے نہیں ملا حالانکہ اس سے چند دن پہلے تک فونک رابطہ تھا۔
برادرم عامر ہاشم خاکوانی سے مشورہ کیا کہ اس نوجوان کیلئے کسے کہا جائے۔ انہوں نے کہا سرکار سے کوئی توقع نہ رکھیں۔ ہم اپنے دوستوں کو نیکی کا موقع کیوں نہ دیں۔ یہ کہہ کر انہوں نے دو ہزار روپے مجھے تھمائے اور کہا کہ اپنے سب دوستوں کو sms کرکے بتائیں ، اپنا بنک اکاؤنٹ نمبر بھی لکھہ دیں۔ ایسا ہی کیا۔ لیکن آن لائن بنکنگ کا کم لوگوں کو تجربہ ہے۔ تین دوستوں نے ہزار دو ہزار روپے بھیجے۔ بعد میں کوئی ملتا تو ہزار دو ہزار دستی دے دیتا۔ مطلوبہ رقم سے کافی کم جمع ہوسکے ۔ سوچا بس یہ رقم اس نوجوان کے حوالے کردی جائے۔ پھر باجی ( میری بڑی سالی) باہر سے آئیں۔ ان سے ذکر ہوا تو انہوں نے کہا واپسی پر کچھہ دیتی جاؤں گی۔ انہوں نے معقول رقم دیدی تو اطمینان ہوا کہ تہائی تو ہوگئی۔ پھر کچھہ دن بعد آدھی ہوگئی۔ کچھہ دوستوں نے زیادہ حصہ ڈالا تو ٹارگٹ کے قریب پہنچ گئے۔ پھر ایک نیک دل خاتون صحافی دوست نے سب سے بڑا عطیہ دیا تو پیسے ضرورت سے بڑھ گئے۔ جو گاڑی کے ساتھہ اس نوجوان کو نقد بھجوا دئیے۔
میرے عزیزوں نے اسے ایک کھوکھا بنوا دیا اور طرح ایک اجتماعی کاوش سے وہ نوجوان جو خاندان پر بوجھہ تھا، زندگی میں واپس آکر خاندان کا کفیل بن گیا ہے۔
کبھی کراچی جانے والی سڑک پر سفر کا اتفاق ہوتو بہاولپور سے آگے احمد پور شرقیہ کے بعد چنی گوٹھہ کے چوک کے قریب آپ اس باہمت نوجوان محمد سجاد کا پوچھہ کر اسے مل سکتے ہیں۔
یہ تجربہ ایک بار پھر بھی کام آیا۔
میرے خیال میں دوست گروپ بنالیں تو محض ایک ایک دو دو ہزار کے کنٹری بیوشن سے اپنے آس پاس مستحق لوگوں کی ایسی بڑی ضرورتیں بھی پوری کر سکتے ہیں ، جو ایک دو لوگوں کیلئے پوری کرنا مشکل ہو۔ خصوصاَ اساتذہ اپنے سٹاف روم میں ذکر کریں۔ زیادہ سٹاف ہوتو صرف ایک بڑے پیزا کی قیمت جتنے کنٹری بیوشن سے کسی غریب بچی کی شادی بھی آسانی سے کرائی جاسکتی ہے۔
کوئی دوست اس سلسلے میں میرے ساتھہ اشتراک کرنا چاہے تو بسم اللہ ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“