دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا
آج اس شعر کے خالق قتیل شفائی کی 17 ویں برسی ہے۔
قتیل شفائی جن کا اصل نام اورنگزیب خان تھا، 24 دسمبر، 1919ء کوہری پورہزارہ میں پیدا ہوئے اور 11 جولائی، 2001ء کو لاہور میں وفات پائی۔ وہ زندگی کا بڑا حصہ احمد ندیم قاسمی کے دیوار شریک ہمسائے رہے، دونوں کی برسی بھی ملحق دنوں 10 اور 11 جولائی کو ہے۔
اورنگ زیب خاں میٹرک کا امتحان نہ دے سکے۔ ہری پور سے راولپنڈی آئے اور بسوں کے اڈے پر بکنگ کلرک جیسی معمولی ملازمتیں کرتے رہے۔ انہی دنوں شاعری میں حکیم محمد یحییٰ شفا سے اصلاح لینا شروع کی، ان کی نسبت سے اپنے تخلص قتیل کے ساتھہ شفائی کا اضافی کیا ۔ پھرقتیل شفائی لاہور آئے اور جو مقام پیدا کیا ، اس سے آپ سب واقف ہیں۔
قتیل شفائی نے پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد سے نغمہ نگاری کا آغاز کیا ۔ بے شمار فلمی نغمے لکھے۔ انہیں نیشنل فلم ایورڈ ، صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی 1994ء ، آدم جی ادبی انعام ، امیر خسرو ایورڈ اور نقوش ایوارڈ بھی ملے۔ بھارتی فلم سازوں نے بھی ان سے گیت لکھوائے۔
قتیل شفائی نے خود بھی فلمیں بنائیں۔ ان میں پشتو میں فلم ’’عجب خاں آفریدی‘‘ اور ہندکو کی پہلی فلم’’ قصہ خوانی‘‘ شامل ہیں۔ اردو میں ’’اک لڑکی میرے گاؤں کی‘‘ شروع کی لیکن مکمل نہ ہو سکی۔
قتیل شفائی کے لہجے کی سادگی و سچائی ، عام فہم زبان کا استعمال اور عوام الناس کے جذبات و محسوسات کی خوبصورت ترجمانی ان کی مقبولیت کا راز ہے۔ ان کا اصل میدان غزل ہے۔ ان کی شاعری میں سماجی اورسیاسی شعور بھی موجود ہے۔ انھیں صف اول کے ترقی پسند شعرا میں اہم مقام حاصل ہے۔
قتیل شفائی کے شعری مجموعوں میں ہریالی،گجرجلترنگ ،روزن ،جھومر،مطربہ ،چھتنار ، گفتگو ،پیراہن ، آموختہ ،ابابیل ، برگد ،گھنگرو ،سمندر میں سیڑھی ،پھوار ،صنم ، پرچم، کلیات رنگ خوشبو روشنی (تین جلدیں)، انتخاب (منتخب مجموعہ) شامل ہیں۔ ’’گھنگھرو ٹوٹ گئے" کے عنوان سے آپ بیتی بھی لکھی۔
قتیل شفائی کے کچھہ اشعار
جن کو پینے کا سلیقہ ہے وہ پیاسے ہیں قتیل
جتنے کم ظرف تھے اس دور میں مے خوار ہوئے
جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھہ
جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں
چلو اچھا ہوا کام آگئی دیوانگی اپنی
وگرنہ ہم زمانے بھر کو سمجھانے کہاں جاتے
ہمین تو آج کی شب پو پھٹے تک جاگنا ہوگا
یہی قسمت ہماری ہے، ستارو تم تو سوجائو
ایک ذرا سا دل ہے جس کو توڑ کے بھی تم جا سکتے ہو
یہ سونے کا طوق نہیں،یہ چاندی کی دیوار نہیں
جب بھی چاہیں اک نئی صورت بنا لیتے ہیں لوگ
ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ
یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے
کہ سنگ تجھہ پہ گرے اورزخم آئے مجھے
گنگناتی ہوئی آتی ہیں فلک سے بوندیں
کوئی بدلی تیری پازیب سے ٹکرائی ہے
لاکھہ چاہا ہے کہ اس کو بھول جاؤں، پر قتیل
حوصلے اپنی جگہ ہیں، بے بسی اپنی جگہ
آخری ہچکی ترے زانوں پہ آئے
موت بھی میں شاعرانہ چاہتا ہوں
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سر عام رکھہ دیا
ابھی تو بات کرو ہم سے دوستوں کی طرح
پھر اختلاف کے پہلو نکالتے رہنا
احباب کو دے رہا ہوں دھوکا
چہرے پہ خوشی سجا رہا ہوں
تھک گیا میں کرتے کرتے یاد تجھہ کو
اب تجھے میں یاد آنا چاہتا ہوں
مر گئے ہم تو یہ کتبے پہ لکھا جائے گا
سو گئے آپ زمانے کو جگانے والے
در و دیوار پہ حسرت سی برستی ھے قتیل
جانے کس دیس گئے پیار نبھانے والے
اپنی زباں تو بند ہے تم خود ہی سوچ لو
پڑتا نہیں ہے یوں ہی ستم گر کسی کا نام
دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایہ نہ تھا
اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا
کیا مصلحت شناس تھا وہ آدمی قتیل
مجبوریوں کا جس نے وفا نام رکھہ دیا
تم پوچھو اور میں نہ بتاؤں ایسے تو حالات نہیں
ایک ذرا سا دل ٹوٹا ہے اور تو کوئی بات نہیں
تم آ سکو تو شب کو بڑھا دو کچھہ اور بھی
اپنے کہے میں صبح کا تارا ہے ان دنوں
اف وہ مرمر سے تراشا ہوا شفاف بدن
دیکھنے والے اسے تاج محل کہتے ہیں
وہ تیری بھی تو پہلی محبت نہ تھی قتیل
پھر کیا ہوا اگر وہ بھی ہرجائی بن گیا
بات دیواروں سے کرلیتے ہیں پیاروں کی جگہ
آگیا ہم کو بھی بھرے گھر میں اکیلا رہنا
لکھنا مِرے مزار کے کتبے پہ یہ حروف
مرحوم زندگی کی حراست میں مرگیا
۔۔۔۔تصویر میں قتیل صاحب کی گود میں
میرا بیٹا امروز اسلم ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔