پچھلی دو صدیوں کے دوران ارض ِ ہمالہ پر دو مشہور’’ اورنگ زیب‘‘ پیدا ہوئے ۔ایک اورنگ زیب نے شہنشاہ عالمگیر بن کر اپنی تلوار کے ذریعے جھیل ڈل دے لے کر راس کماری تک سارا ارض، ہمالہ فتح کیا تھا تو دوسرے اورنگ زیب نے شاعر قتیل شفائی کا روپ دھار کر اپنے قلم کے ذریعے ارضِ ہمالہ پر آباد دنیائے شعرو ادب کو مسخر کر لیا۔
یہاں اورنگ زیب عالمگیر کے ساتھ اورنگ زیب قتیل شفائی کا اس لیے نام لیا ہے کہ ہماری نظر میں قتیل شفائی بھی بڑا ہمالہ شاہ آدمی ہے ۔اس کے سوا اورنگ زیب عالمگیر’’ قلم در انگشت‘‘وہ اورنگ زیب قرآن مجید کا کاتب ،یہ اورنگ زیب کلام قتیل شفائی کا مصنف،وہ حافظ قرآن،یہ صاحب دیوان ،اس کی لمبی داڑھی،اس کا منہ صفا چٹ،وہ خلعت ہفت پارچہ میں ملبوس اور یہ سوٹڈ بوٹڈ۔
قتیل شفائی اپنے ہمزاد اورنگ زیب سے کب آخری بار رخصت ہوا یہ تو معلوم نہیں لیکن قتیل شفائی اپنے ہمزاد اورنگ زیب کے بارے میں بتایا ہے کہ وہ قتیل شفائی کا بچپن اور لڑکپن تھا،اس کے بعد جب شباب آیا تو اورنگ زیب نہیں بل کہ قتیل شفائی کا نام لے کر آیا۔اب ہمالہ کے دامن میں آباد پٹھانوں کی ایک بستی ہری پور ہزارہ کے چند لوگ اس مخدوم اورنگ زیب کو جانتے ہوں تو جانتے ہوں یا ہری پور ہزارہ کے اسکول کے رجسٹروں میں یا پھر قتیل شفائی کے قریبی رشتہ داروں کی زبان پر اورنگ زیب کا نام شاید ابھی موجود ہو۔۔۔۔۔ ویسے اورنگ زیب اب کہیں نظر نہیں آیا۔وہ اپنے آپ کو قتیل شفائی میں ڈھالنے کے لیے پیدا ہوا تھا ،اس نے اپنا کام مکمل کر لیا اور اب ہمیشہ کے لیے قتیل شفائی کی جون میں چھپ کر رہ گیا ہے۔
قتیل شفائی نے گیت لکھے ،نظمیں لکھیں اور غزلیں بھی کہیں مگر ان کے فن کا حسن اور شعر کا جمال غزل ہی میں نکھرتا ہے۔اس کے بعد گیت کی کشش محسوس کی جاتی ہے اگرچہ حیرت ہوتی ہے کہ ان کے یہاں گیت کی روش کیوں کر پروان چڑھی؟ وہ سرحد کی فضاؤں میں جوان ہوئے اور مزاج بھی انھوں نے وہیں کا پایا،وہیں کی آب و ہوااور فضا کا ان پر اثر نمایاں ہوا۔اسے غالباً سوہنی مہینوال،سسی پنوں،ہیر رانجھا کا دیس نہیں کہا جا سکتا ،وہ خوشحال خان خٹک کا دیس ہے اور خوشحال خان خٹک کے دیس کا ترانہ ہے ۔اس کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ،اس میں تلواروں کی جھنکار ہوتی ہے ،پائل کی نرم نغمگی نہیں ۔۔۔ جمال کی جھمک نہیں ہوتی،جلال کی کی کڑک ہوتی ہے ،لہراؤ اور بہاؤ نہیں ہوتا ،طوفان کی خش وخاشاک بہا لے جانے والی تیز و تند روانی ہوتی ہے۔کیا ہوا،کیسے ہوا اور کیوں ہوا مگر قتیل کے یہاں یہ ہوا،اس کے یہاں گیت کی گنگناہٹ آئی اور گیت کا سجیلا پن آیا اور گیت کی نرم اور ہلکی سریں آئیں۔
شاعر اور خالص شاعر کی روایت ہر دور میں رہی ہے ۔غزل کی نشاۃ ثانیہ کا تو انحصار ہی اسی روایت پر ہے جس کا نمائندہ بل کہ بانی شاعر حسرت موہانی ہوا۔جس کی شاعری پر اس کی سماجی اور سیاسی زندگی کی ظاہر یا پوشیدہ چھوٹ بھی نہیں پڑتی۔ ان کی زندگی کے سیاسی پہلو کو دیکھئے تو کتنا غیر شاعرانہ ہو کر رہ گیا تھا لیکن شعری پہلو کا عمل دخل ہو گیا ہے تو وہ بھی بڑی حد تک شاعرانہ ہو گیا ہ۔ ترقی پسند تحریک کے شاعروں کے قافلے میں مجاز اور فیض نمایاں رہے ۔مخدوم بھی اسی ذیل میں آتے ہیں اگرچہ فیض اور مخدوم کی شاعری کا تھوڑا سا حصہ نظریاتی بھی ہو گیا ہے لیکن بیشتر یہ تینوں شاعر ہی رہتے ہیں۔ساحر کی بھی بالکل یہی روش رہی ۔قتیل شفائی اگر ان سب سے زیادہ نہیں تو کسی سے کم بھی نہیں۔
قتیل شفائی غزل میں گیت اور گیت میں غزل کہتا ہوا پایا جاتا ہے ۔اس کی غزل بوجھل نہیں ہوتی،اضافتی اور عطفی ترکیبوں سے اس کا گیت ہلکا نہیں ہوتا ہزار بار کہے ہوئے اور بیان کیے ہوئے معاملات کی شمولیت سے ۔۔۔۔وہ دونوں کا اپنا اپناوزن اور وقار قائم رکھتے ہیں اگرچہ ان کی غزل گیت کی کیفیت اور فضا لیے رہتی ہے لیکن وہ غزل کی انفرادیت کو باقی رکھتے ہیں اور اسے اس کی انفرادیت سے محروم نہیں ہونے دیتے بل کہ ایک نئے پن سے اسے روشناس کراتے ہیں اورایک نئی طرح ڈالتے ہیں جس میں وہ اپنی بھر پور شخصیت کے ساتھ جو رنگین اور حسین بل کہ صاف ستھری انسانیت اور انسان دوستی کی روشن مثال ہے، جلوہ گر رہتے ہیں۔اگرچہ قتیل شفائی کے نو عدد مجموعہ ہائے شاعری ہیں ۔یہ مجموعے مختلف اصناف سخن پر مشتمل ہیں ۔گیت بھی غزلیں اور نظمیں بھی ان کے دامن میں ’’گفتگو‘‘اور ’’پیرہن‘‘ صرف غزلوں پر مشتمل ہیں۔
ادب اور فلم کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ شعرا اور ادیب اگر فلمی دنیا کی طرف نہ آتے تو فلمیں صرف حاشیہ بردار منشیوں اور تُک بند شاعروں کی مرہون منت ہوتیں۔ ادبی دنیا کی معروف ہستیوں کی وجہ سے فلموں کو نہ صرف وقار اور عزت ملی بل کہ ان کا معیار بھی بلند ہوا۔مایہ ناز فلمی شاعر قتیل شفائی کا شماربھی ایسی یاد گار زمانہ شخصیات میں ہوتا ہے جن کے قلم سے ایسے خوبصورت فلمی نغمات تحریر ہوئے جن کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ قتیل شفائی ۲۴ دسمبر ۱۹۱۹ء کو ہری پور ہزارہ میں پیدا ہوئے والدین نے ان کا نام اورنگ زیب خان رکھا ۔ادبی دنیا میں قتیل شفائی کے نام سے شہرت پائی۔ ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول ہری پور ہزارہ سے حاصل کی ۔والدین ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتے تھے اس لیے قتیل شفائی اپنی تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور عملی دنیا میں کود پڑے۔
احمد ندیم قاسمیکی قربت نے قتیل شفائی کی علمی و ادبی سوچ کو جلا بخشی۔بہتر روزگار کی تلاش انھیں لاہور کھینچ لائی ۔کلرکی سے ملنے والی محدود تنخواہ سے جب معاشی مسائل حال نہ ہوئے تو انھوں نے فلمی رسائل میں ادارتی صفحے لکھا شروع کر دیے۔یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان کو وجود میں آئے کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔آنجہانی دیوان سرداری لال نے فلم ’’تیری یاد ‘‘ شروع کی اس فلم کے موسیقارعنایت علی عرف ناتو تھے۔ہدایت کار داؤد چاند تھے۔قتیل شفائی موسیقار عنایت علی (ناتو)سے ملے اور انھیں اپنے چند گیت پیش کیے۔موسیقار ناتو نے فلم ’’تیری یاد‘‘ کے لیے قتیل شفائی سے گیت تحریری کروائے۔ اس فلم میں کل دس گانے تھے ،نو گانے قتیل شفائی نے تحریر کیے اور ایک گانا تنویر نقوی نے لکھا تھا۔’’تیری یاد‘‘۱۴/اکتوبر ۱۹۴۸ء کو لاہور میں پربھات سینما میں ریلیز ہوئی۔کراچی میں یہ فلم ۴ نومبر ۱۹۴۹ء کو سول ہسپتال کے قریب واقع سینما ایمپائر میں نمائش پذیر ہوئی تھی۔اس فلم میں علی بخش ظہور کا گایا ہوا ’’محبت کا مارا چلا جا رہا ہے‘‘قتیل شفائی کا تحریر کردہ خوبصورت نغمہ تھا۔
قتیل شفائی نے اپنے پورے فلمی کیریئرمیں پہلی فلم ’’تیری یاد‘‘‘۹۴۸اء سے لے کر آخری ریلیز فلم ’’میرے محبوب‘‘ ۲۰۰۲ء تک قریباً ۲۰۰ سو فلموں میں نغمہ نگاری کی ،ان کے لکھے ہوئے بے شمار نغموں نے مقبولیت کے ریکارڈ قائم کیے۔’[تیری یاد ‘] کے بعد ہدیت کار انور کمال پاشا کی پہلی پاکستانی کامیاب اردو فلم ’’دو آنسو‘‘ میں قتیل شفائی کے نغمات کو عوامی پذیرائی ملی۔
اب وہ فلموں کے کامیاب ترین شاعر بن گئے تھے۔اصل شہرت گلنار ،گمنام اور قاتل کے نغمات سے ملی۔یہ وہ دور تھا جب ایک فلم میں ایک سے زائد شاعروں سے نغمے لکھوانے کا رواج تھا۔قتیل شفائی کے ساتھ تنویر نقوی ،سیف الدین سیف،مشیر کاظمی،طفیل ہوشیار پوری،ساغر صدیقی اور احمد راہی جیسے مایہ ناز شاعر فلموں کے لیے گیت لکھ رہے تھے۔ ۱۹۵۳ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’’گلنار‘‘ میں قتیل شفائی کے علاوہ ساغر صدیقی جیسا بڑا نام بھی نغمہ نگار کے طور پر شامل تھا مگر قتیل شفائی کی تحریر کردہ ’’وہ چل دیے ہم کو تسلی دیے بغیر‘‘جسے میڈم نور جہان نے گایا تھا۔ سب سے زیادہ مقبول ہوا۔انور کمال پاشا کی کامیاب فلموں ’’گمنام‘‘ اور’’ قاتل‘‘میں گلوکارہ اقبال بانوکے گائے ہوئے گیتوں ’’پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے ‘‘ ،’’ الفت کی نئی منزل کو چلا ‘‘ قتیل شفائی کے تعارف کے لیے کافی ہیں۔
ہماری فلمی دنیا کا ہمیشہ یہ المیہ رہا ہے کہ جب کوئی گیت مقبول ہوا،چاروں طرف سے موسیقار پر داد تحسین کے ڈونگرے برسائے جانے لگتے ہیں ،اس طرح مختلف ذہنوں کی محنت اور کاوش سے تخلیق ہونے والا ایک امر گیت کسی ایک سنگیت کار کی جھولی میں چلا جاتا ہے یہ نہ صرف زیادتی ہے بل کہ شدید قسم کی بد دیانتی بھی ہے ۔انصاف کی نظر سے دیکھئے تو ایک نغمے کی تشکیل چار چیزوں سے ہوتی ہے۔ پہلی شاعری ،دوسری دھن،تیسری آواز اور چوتھی صدا بندی،اگر یہ چاروں گھل مل کر آگے بڑھیں تو ایک سدا بہار سپر ہٹ اور تاثر سے بھر پور نغمے کی تخلیق ہوتی ہے اور اگر ان میں سے کوئی بھی چیز کمزور پڑ جائے تو پھیکا پن چھپائے نہیں چھپتا۔
قتیل شفائی ،تنویر نقوی اور فیاض ہاشمی نے فلمی دنیا میں آنے کے بعد اس بات کو غلط ثابت کیا کہ ایک مقبول نغمے کا سارا کریڈٹ موسیقار کو جاتا ہے ان شعرا نے ایسے فلمی نغمے لکھے جنھوں نے کمزور دھنوں کو بھی مقبولیت سے ہم کنار کیا اور اپنے فلمی گیتوں سے اس بات کو ثابت کیا کہ عوام میں سب سے پہلے فلم کا تعارف ایک اچھے اور معیاری گیت سے ہوتا ہے جو صرف ار صرف اچھے شاعر کی مرہون منت ہے۔فلمی شاعری کے لیے حسن خیال کی ضرورت ہوتی ہے نہ کہ اعلیٰ تخیل کی ،سب سے زیادہ ضروری چیز تاثیرہے اور یہ چیز قتیل شفائی کی فلمی شاعری میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔’’سرفروش ‘‘کا نغمہ ’’ اے چاند جا کر ان کو میرا سلام کہنا‘‘ اور ‘‘نوکر‘‘ کی مشہور لوری:
راج دلارے
میری اکھیوں کے تارے
میں تو واری واری جاؤں
گیت اور لوری میں دو مختلف تاثر پائے جاتے ہیں۔بھر پور عوامی پذیرائی سے ان دونوں فلمی گیتوں کو بے حد مقبولیت ملی جو آج بھی اسی طرح قائم ہے ۔ہدایت کار ،منشی دل کی کامیاب فلم ’’حمیدہ‘‘ کے علاوہ صبیحہ خانم اور سدھیر کی کامیاب سوشل فلم ’’چھوٹی بیگم‘‘ کے نغمات نے بھی اپنے دور میں کافی شہرت پائی۔خاص طور پر قتیل شفائی کے نغمے’’کب تک رہو گے آخر اجی ،یوں دور دور ہم سے‘‘نے مقبولیت کے ریکارڈ قائم کیے۔ منشی دل کی کامیاب فلم ’’حمیدہ‘‘کا تاثر سے بھر پور نغمہ ’’ بن کے دلہن لہراؤں گی،گھونگھٹ میں شرماؤں گی‘‘یاد گار نغمہ ثابت ہوا۔
۱۹۶۵ء میں ہدایت کار مسعود پرویز کی کلاسیکل رومانی فلم ’’ انتظار‘‘قتیل شفائی کے نغمات سے مزین ایک اعلیٰ شاہکار ثابت ہوئی۔خواجہ خورشید انورکی دھنوں پر قتیل شفائی نے لازوال نغمے تحریر کیے:
جس دن سے پیا دل لے گئے
او جانے والے رے ٹھہرو ذرا رک جاؤ
چھن چھن ناچوں گی
غضب کیا تیرے وعدے پہ اعتبار کیا
بلم پردیسی ،سجن پردیسی
ان جیسے اور نغمات بھی امر سنگیت کے طور پرآج بھی مقبول ہیں ۔اس فلم کی اعلیٰ دھنوں پر خواجہ خورشید انور کو صدارتی ایوارڈ بھی ملا۔’’ انتظار ‘‘ پہلی صدارتی ایوارڈ یافتہ فلم تھی جس کے شاعر قتیل شفائی تھے۔قتیل شفائی کے فلمی گانوں میں غزل کی حلاوت شعری ترنم اور نظم میں کبھی تو سرگوشیوں کی سی لرزش ملتی ہے تو کبھی ڈرامے کا شدید تاثر۔انار کلی،عشق لیلیٰ،ناگن اور نیندکے گانے اس کی اچھی مثالیں ہیں۔
قتیل شفائی کو انڈین فلمی صنعت میں ان کے اعلیٰ فلمی نغموں کی وجہ سے ہمیشہ ایک بلند مقام حاصل رہا اور کئی انڈین فلموں میں ان کے کلام کو شامل کیا گیا ۔انھوں نے ۵۳ سالہ فلمی کیریئرمیں بے شمار فلمی نغمات تحریر کیے جو سبھی مقبول ہوئے مگر ان میں
جگر چھلنی ہے دل گھبرا رہا ہے ،محبت کا جنازہ جا رہا ہے
اک ہلکی ہلکی آہٹ ہے
نکل کر تیری محفل سے دیوانے کہاں جائیں
پریشاں رات ساری
ہائے میری مجبور جوانی
صدا ہوں اپنے پیار کی
پہلے تو اپنے دل کی رضا مان جایئے
تیرے در پر صنم ہم چلے آئے
یہ نغمے آج بھی اپنی مقبولیت برقرار رکھے ہوئے ہیں ۔قتیل شفائی کی اعلیٰ شاعری سے مزین یہ گانے پاکستانی فلم موسیقی کے سنہرے دور کی چند مثالیں ہیں۔
قتیل شفائی نے اپنے دور کے تمام نامور موسیقاروں کے لیے گیت لکھے ،ان گیتون کی تعداد سینکڑوں ہیں۔
٭ روتے ہیں چھم چھم نین موسیقار،فیروز نظامی
٭ نگاہیں ملا کر بدل جانے والے موسیقار،رشید عطرے
٭ بن کے میرا پروانہ آئے گا اکبر خاناں موسیقار،رشید عطرے
٭ سپنوں میں اڑی جاؤں موسیقار،رشید عطرے
٭ اے دل کسی کی یاد میں موسیقار،رشید عطرے
٭ میرے دل کی تار بجے با ربار موسیقار،رشید عطرے
٭ ضسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں موسیقار،رشید عطرے
٭ کیوں ہم سے خفا ہو گئے اے جان تمنا موسیقار،رشید عطرے
٭ گوری کر کے سنگھار ہو جا چلنے کو تیار موسیقار،رشید عطرے
٭ ہم سے بدل گیا وہ نگاہیں تو کیا ہوا موسیقار،ماسٹر عنایت حسین
٭ کیا ہے جو پیار تو پڑے گا نبھانا موسیقار،ماسٹر عنایت حسین
٭ کیا خبر تھی تیری محفل سے گزرنا ہو گا موسیقار،ماسٹر عنایت حسین
٭ مجھے آرزو تھی جس کی وہ پیام آگیا ہے موسیقار،ماسٹر عنایت حسین
٭ کلی کلی منڈلائے بھنورا موسیقار،خواجہ خورشید انور
٭ سلام محبت بڑا خوبصورت موسیقار،خواجہ خورشید انور
٭ ہے عشق میرا دیوانہ موسیقار،خواجہ خورشید انور
٭ جا جاری کویلیا جاجا موسیقار،خواجہ خورشید انور
٭ تقدیر کی گردش ہے نہ رو میرے محبوب موسیقار،اے حمید
٭ یہ وادیاں ،یہ پربتوں کی شاہزادیاں موسیقار،اے حمید
٭ بس گیا تو سوتنیا کے دوار سجنا موسیقار،اے حمید
٭ اے دوست تیری آنکھ جو نم ہے موسیقار،اے حمید
٭ گرم گلابی شام ہے موسیقار،اے حمید
٭ رنگین نظارے موسم سہانا موسیقار،اے حمید
٭ مجھے آئی نہ جگ سے لاج موسیقار،اے حمید
٭ یہ محفل جو آج سجی ہے موسیقار،نثار بزمی
٭ اگر کوئی پوچھے بہاروں کا مطلب موسیقار،نثار بزمی
٭ زندگی اپنی گزر جائے گی آرام کے ساتھ موسیقار،ناشاد
٭ جب بھی چاہیں اک نئی صورت بنا لیتے ہیں لوگ موسیقار،ناشاد
٭ اے زندگی اے زندگی موسیقار،تصدق حسین
٭ سہیلی تیرا بانکپن لٹ گیا آئینہ توڑ دے موسیقار،ایم اشرف
٭ بانٹ رہا تھا جب خدا موسیقار،ایم اشرف
٭ میں تو چلا ایسا جیون بھر کیا کوئی دیپ جلا ہو گا موسیقار،ایم اشرف
٭ تیرے خیال کو دل سے کبھی جدا نہ کروں موسیقار،ایم اشرف
ان تمام کومل اور تاثر سے لبریز نغمات کے خالق شاعر قتیل شفائی نے ۱۹۹۰ء کے بعد جب پاکستان کی فلمی شاعری زوال پذیر ہو گئی اور موسیقاروں کی اکثریت نے فلمی شاعری کی اہمیت کو نظر انداز کر کے اوچھی ،بے ہنگم اور گھٹیا شاعری کو اپنی دھنوں کے لیے ضروری سمجھا تو انھوں نے فلمی دنیا سے علاحدگی اختیار کر لی۔
قتیل شفائی نے بطور فلم ساز ایک ہند کو فلم ’’قصہ خوانی‘‘ بنائی تھی جس میں سلطان راہی نے ہیرو کا رول کیا تھا یہ پاکستان میں بننے والی پہلی اور آخری ہندکو فلم تھی۔قصہ خوانی کے علاوہ ان کی پشتو فلم ‘‘عجب خان آفریدی‘‘بڑی کامیاب رہی۔ایک اردو فلم ’’ایک لڑکی میرے گاؤں کی‘‘ شروع کی جو نا مکمل رہی ۔ قتیل شفائی نے پاکستانی فلموں کے علاوہ چند ایک بھارتی فلموں کے لیے بھی نغمہ نگاری کی جن میں گرو دت کی فلم ’’شگون‘‘ کے علاوہ ’’پھر تیری کہانی یاد آئی‘‘،’‘قدرت اور سر‘‘ کے نام قابل ذکر ہیں۔
آزادی کے بعد اردو شاعری میں جن ناموں نے ایک خاص اعتبار حاصل کیا ان میں قتیل شفائی کا نام کئی لحاظ سے خاصا مقبول اور محبوب رہا ہے۔ قتیل شفائی کا شعری کردار بڑا ہی صد پہل اور متنوع ہے انھوں نے نظمیں لکھیں،غزلیں ،گیت اور آزاد غزل بھی لکھی ،وہ فلمی دنیا سے وابستہ رہے اور شعرو ادب کے ساتھ بھی برابر کا تعلق رہا۔گویا قتیل شفائی اپنے ذات میں کود ایک انجمن تھے۔ قتیل شفائی کے گیتوں میں عورت کی مظلومیت کا عکس بڑے بھر پور رنگ میں ابھرا ہے۔عورت جو ہمارے معاشرے میں صرف تفریح طبع کا کھلونا سمجھا جاتا ہے وہ من ہی من میں تڑپتی ہے مگر پھر بھی گھنگھرو پہن کر ناچنے پر مجبور ہے۔پیٹ کی آگ کس طرح دین و ایمان کو گھائل کر رہی ہے ۔چاندی کی جھنکاروں میں کیسی کشش ہے ۔ قتیل شفائی کے گیت اسی مجبوری اور ظلم کی کہانی سناتے ہیں لیکن ان کے گیتوں کے اور بھی رنگ ہیں ملاحظہ کریں:
میرا دوپٹہ لہرا رہا ہے
ساون کا بادل یاد آرہا ہے
پیتم نے مجھ کو ململ منگادی۔مری خوشی کی دنیا بسا دی
رنگ اس کی خاطر میں نے منگایا۔ابرک ملا کر اس کو لگایا
تارے فضا میں چمکارہا ہے
میرا دوپٹہ لہرا رہا ہے
آکاش کا رہنے والا تھا
اب دھرتی پر آباد ہوں میں
جنت سے جو نکلا تیرے لیے
اس آدم کی اولاد ہوں میں
دو دل جب انسانوں کے مل کر دھڑکتے تھے
اس دن سے میں تجھ سے محبت کرتا ہوں
یہ دنیا جب تک باقی ہے
میں تیرا ساتھ نہ چھوڑوں گا
تیرے آنچل کے اک جھونکے سے
رُخ طوفانوں کا موڑوں گا
جس دن سے پیار کی رسم چلی اے جانِ تمنا
اس دن سے میں تجھ سے محبت کرتا ہوں
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ قتیل شفائی نے صرف گیت کو ساز تک محدود نہیں رکھابل کہ اسے زندگی بنا دیا بقول فراق گھورکپوری:
’’قتیل کے نغموں میں حیات بٹتی ہے۔‘‘
قتیل شفائی کے گیت مجروح زندگی کی پکار ہیں ان میں درد،کسک،تڑپ، بے چارگی،گھٹن اور ایک بے چین الہڑ جوانی کے تمام مرتعش جذبات پنہاں ہیں۔شاید اسی لیے ان کی کشش بھی لازوال ہے ۔ قتیل شفائی کی شاعری کا مرکزی کردار عورت ہے۔خصوصاً طوائف جیسے انھوں نے مطربہ کا خوبصورت نام دیا ہے۔وہ مرکزی کردار عورت کی نفسیات کے اچھے نباض ہیں۔ قتیل شفائی کے گیتوں میں سادگی اور نغمگی کی جو بہار ہے وہ بھی ان کی منفرد پہچان بناتی ہے۔
حفیظ ،اختر شیرانی اور فیض کی طرح قتیل شفائی کا مزاج بھی سراسر رومانی ہے۔ترقی پسند جماعت کی وابستگی نے ان کے نغموں کو ایک صحت مند معنویت بخشی ہے یہی وجہ ہے کہ قتیل شفائی محض رومانی شاعر ہو کر نہیں رہ جاتے بل کہ ان کا رومان زندگی کی سرحد میں دور دور تک پھیلتا چلا گیا ہے۔اس کی مثال اس شجر سایہ دار کی ہو گئی جو زندگی کے سفر میں جھلستے ہوئے مسافر کو لمحاتی قرار عطا کرتا ہے۔چھتنار،ہریالی،مطربہ ۔۔۔۔۔ان کے مجموعوں کے نام ہی ان کی ذہنی کیفیت کے مظہر ہیں۔ قتیل شفائی کے گیتوں میں ایک خاص نوعیت کی جھنکار اور ایک انوکھی نغمگی کا احساس ہوتا ہے جس کے متعلق ممتاز نقاد ڈاکٹر وزیر آغا کا خیال یہ ہے کہ:
’’ قتیل شفائی کے گیت میں عورت اس پنچھی کی طرح ابھری ہے کہ جیسے تازہ تازہ پر عطا ہوئے ہوں اور جو ابھی اڑنے کے قابل تو نہ ہوئی ہو تا ہم جس کے پروں کی پھڑ پھڑاہٹ نے نغمے میں ایک انوکھی جھنکار کا اضافہ ضرور کر دیا ہے۔‘‘
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ایک رقص مجسم کی کیفیت ان کے نغموں میں ہے ان کے یہاں محض جذبے کا سیدھا سادہ بیان نہیں بل کہ جسم کی پکار اور اس کی لغزش تک پنہاں ہے۔فیض احمد فیض کی شاعری کی طرح قتیل شفائی کے گیتوں میں بھی پیکر سازی کا ایک اچھوتا حسن ہے۔
انوکھی سی تصویر دل کو گدگداتی ہے
نہیں ہے سامنے کوئی مگر آواز آتی ہے
لے پی لے تو بھی دکھیارے کہتی ہے سلونی شام
ایک جام کھنکتا جام،اٹھا لے جام ،کھنکتا جام
چاندی جیسا رنگ ہے تیرا سونے جیسے بال
اک تو ہی دھنوان ہے گوری باقی سب کنگال
ہر آنگن میں سجے نہ تیرے اجلے روپ کی دھوپ
چھیل چھبیلی رانی تھوڑا گھونگھٹ اور نکال
گیت کے ان تمام بولوں میں جو صوتی تحریک ہے اور جو تصویر الفاظ کے وسیلے سے آنکھوں اور کانوں تک پہنچ جاتی ہے وہ قابل صد تحسین ہے۔عشق ایک ابدی جذبہ ہے ،گیت کا موضوع بھی یہی عشق ہے ۔عورت اور مرد اس عشق کے دو اہم کردار ہیں،گیت کا وصف یہ ہے کہ یہاں عاشق اور معشوق کے کردار کو مسخ نہیں کیا گیا بل کہ ان کو فطری خصوصیت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔
قتیل شفائی نے معیار اور مقدار دونوں اعتبار سے گیت کے فن میں اضافہ کیا ہے۔’’جھومر‘‘ میں کل ملاکر پچاس گیت شامل ہیں دوسرے مجموعوں میں بھی اچھی خاصی تعداد ہے۔ ان کی روشنی میں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ انھوں نے جہاں ایک طرف گیت کی جدیدہیئت کا لحاظ رکھا ہے وہاں قدیم روایت سے استفادہ بھی کیا ہے اور اس صنف کے وسیع سے وسیع تر امکانات پر ان کی نظر رہی ہے۔وہ اس میں تنوع بھی لائے ،یہ تنوع کبھی لسانیاتی تشکیل کے ذریعہ،کبھی انوکھے اور البیلے پیکروں کی اکتراع سے،کبھی حسنِ تراکیب اور ہندی کے کومل اور شریں الفاظ کے استعمال سے پیدا ہوئے ہیں اور ان کے گیتوں میں ایک سدا بہار کیفیت کے حامل بنے ہیں ۔اس امر میں دو رائیں نہیں کہ قتیل شفائی ایک دلدار شاعر ہیں اور اس دلداری کا بہت کچھ انحصار ان کے گیتوں پر ہے۔
دل دیتا ہے رو رو دہائی، کسی سے کوئی پیار نہ کرے
بڑی مہنگی پڑے گی یہ جدائی ،کسی سے کوئی پیار نہ کرے
کوئی سمجھے کسی کو نہ اپنا
جھوٹا نکلے گا جیون کا سپنا
گاؤں گاؤں پکارے شہنائی
کسی سے کوئی پیار نہ کرے
سیج پر بیٹھی روئے دلہنیا
بسے پیتم کے من میں سوتنیا
ہائے نکلا بلم ہرجائی
کسی سے کوئی پیار نہ کرے
کوئی سویا ہے ماٹی کے نیچے
کوئی بھاگے ہواؤں کے پیچھے
لائی دل کی لگن رسوائی
کسی سے کوئی پیار نہ کرے
٭٭٭٭٭
جس دن سے پیا دل لے گئے ، دکھ دے گئے
اس دن سے گھڑی پل ہائے ، چین نہیں آئے
جب چہکیں پنچھی شام کے
رہ جاؤں دل کو تھام کے
کروں بین تمھارے نام کے
آنسو اب کس کام کے
لوٹا ہے تمھارے پیار نے ،اقرار نے
بیٹھی ہوں میں آس لگائے، چین نہیں آئے
جب یاد تمھاری آ گئی، تڑپا گئی
میرے دکھیا نین بھر آئے ،چین نہیں آئے
قتیل شفائی کی رنگا رنگ شخصیت پر لکھنا آسان نہیں اس کا خمیر کچھ ایسے مختلف النوع رنگوں اور خوشبوؤں کے امتزاج اے اٹھایا گیا ہے جن کی گہرائی لا محدود اور وسعت بے پایاں ہے۔اس کے بارے میں اس صدی کے عظیم شاعر ،ادیب،افسانہ نگار،نقاد اور دانشوراحمد ندیم قاسمی نے بھرے مجمعے میں کہا تھا:’’ قتیل شفائی اس صدی کے اہم شاعر ہیں ۔‘‘
اور یہ جملہ سنتے ہی فرط جذبات سے قتیل شفائی کی آنکھوں سے آنسو چھلک آئے تھے۔فراق گھورکپوری نے لکھا ہے:
’’ اس دور کے جن بہت کم شاعروں کوبھر پور کامیابی نصیب ہوئی ہے ان میں قتیل شفائی کانام قابل رشک حیثیت کا مالک ہے۔‘‘
دینے والے میرے دیس کی دھر تی کو خوش حالی دے
باغوں کو پھل پھول عطا کر کھیتوں کو ہر یالی دے
مولا مجھ کو ڈال دے اپنے درویشوں کے رستے پر
اس کابھی میں بُرا نہ مانوں جو نت مجھ کو گالی دے
جو اپنی اولاد سے بڑھ کر سمجھے پودوں پیڑوں کو
آنے والے موسم میں اس باغ کو ایسا مالی دے
صدیوں سے جھلسایا ہے جس کو پیلی گرم دوپہروں نے
اس دہقاں کے چہرے کو اب شنگرف جیسی لالی دے
ساری دنیا تیرے ذمے دنیا کی ہر چیز تری
مجھ کو توبس ایک مرے کردار کی رکھوالی دے
بڑا نہ آخر بن بیٹھے وہ ہم سے چھوٹے لوگوں میں
جس کو رتبہ دیا ہے تو نے ظرف بھی اس کو عالی دے
قتیل شفائی کی فنی خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان نے انھیں تغمہ حسن کارکردگی بھی دیا۔فلمی اور ادبی دنیا کے خوبصور ت شاعر قتیل شفائی ۱۱ جولائی ۲۰۰۱ء کو لاہور میں انتقال کر گئے۔
قتیل شفائی کا نام اردو ادب میں ہمیشہ جگمگاتا رہے گا اس کی شاعری میں اس کا اپنا لہجہ تھاوہ خوابوں کا نہیں حقیقت کا شاعر تھا۔یہی وجہ ہے کہ آج قتیل شفائی اس جہان فانی میں نہیں لیکن ان کا کلام آج بھی دلوں کو مسحور کر دیتا ہے۔
نامہ بر اپنا ہواؤں کو بنانے والے
اب نہ آئیں گے پلٹ کر کبھی آنے والے
یہ ٹھیک ہے نہیں مرتا کوئی جدائی میں
خدا کسی کو کسی سے مگر جدا نہ کرے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“