دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا
آج جس شخصیت کی کہانی بیان کرنے جارہا ہوں ،وہ بہت ہی جانے پہچانے انسان ہیں ۔وہ بہت اچھے شاعر اور عظیم انسان تھے ۔یہ عظیم انسان 1919 میں ہری پور میں پیدا ہوس ،پنڈی میں ادب و شعری کے حوالے سے ابتدائی رہنمائی حکیم شفائی سے حاصل کی ۔ان کا نام تھا قتیل شفائی ۔۔۔قتیل شفائی نے پاکستانی اور بھارتی فلموں کے لئے بے شمار گیت لکھے ۔معروف ادبی رسالے ادب لطیف کے ایڈیٹر بھی رہے ۔فراق گورکھ پوری جن کا اردو ادب میں بڑا نام ہے ،انہوں نے قتیل شفائی کے بارے میں لکھا ہے کہ اس دور میں جن کم شاعروں کو کامیابی حاصل ہوئی ہے ،ان میں قتیل شفائی کا نام قابل رشک حیثیت کا حامل ہے ۔فیض صاحب نے قتیل شفائی کے بارے میں لکھا ہے کہ قتیل شفائی ایک ایسا منفرد رنگ رکھتے ہیں جن میں قریب قریب سب رنگوں کی جھلکیاں ملتی ہیں ،لیکن اس رنگا رنگی کے باوجود ان کا کلام یک رنگ ہے ۔مصوری کی دنیا کا ایک بہت بڑا نام عبدالرحمان چغتائی وہ کہتے ہیں کہ آپ کی ندرت اور اثر افرینی کا کمال ہے کہ ہر جذبے سے آزادی اور شگفتگی کا اظہار ہوتا ہے ،اور دل میں آرزو ایک ایسی کسک پیدا کردیتی ہے کہ جو فراموش نہیں کی جاسکتی ۔ان کی سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ انسانیت سے پیار کرتے تھے ،اس لئے محبت بھرے گیت لکھتے رہے ۔بہت صاف گو انسان تھے ،اس لئے تو انہوں نے کہا تھا کہ ،دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی ،جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا ۔یہ شعر ان کے کردار کی حقیقی عکاسی کا ضامن ہے ۔ہریالی ،روزن ،جھومر اور چلترن وغیرہ ان کی معروف کتابیں ہیں ۔اس کے علاوہ کلیات قتیل شفائی بھی ہر بک شاپ پر دستیاب ہے ۔ان کے فلموں گانوں پر بھی بہت ساری کتابیں مرتب کی گئی ہیں جو شائع ہوئی اور بہت مقبول ہوئی ۔فلم دنیا کا یہ وہ واحد شاعر ہے جس نے جو بھی گیت لکھا وہ سپر ہٹ ثابت ہوا ۔وہ ادیب ،شاعر اور گیت کار ہونے کے ساتھ ساتھ مفکر انسان بھی تھے ۔آخر میں وہ بہت بیمار ہوگئے تھے ،دو سال تک بستر مرگ پر رہے ،زبان بھی بند ہو چکی تھی ،لیکن بستر مرگ پر بھی لکھنے اور سوچنے کا تخلیقی کام جاری رکھا ۔انہوں نے شاعری کی آخری کتاب بستر مرگ پر لکھی تھی اور آخری فلمی گیت بھی مرنے سے کچھ دن پہلے لکھا تھا جو سپر ہٹ ثابت ہوا ۔۔ اپنے بارے میں ایک انٹرویو کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ مَیں ایک ایسے علاقے میں پیدا ہوا، جہاں علم و ادب کا دور دور تک نشان نہیں تھا۔ قدرتی مناظر سے تو بھرپور تھا لیکن علم و ادب کے حوالے سے وہ ایک بنجر علاقہ تھا، سوائے اس کے کہ باہر سے کچھ پرچے آتے تھے۔ ’زمیندار‘ آتا تھا، جس میں مولانا ظفر علی خاں کی نظمیں ہوتی تھیں۔ کچھ علامہ اقبال کا احوال لکھا ہوتا تھا۔ قتیل شفائی نے فلموں کے لیے گیت نگاری کا آغاز پاکستان کی پہلی فلم ’تیری یاد‘ سے کیا جبکہ اپنی عمر کے آخری دور میں بہت مرتبہ ممبئی کا بھی سفر کیا اور ’سر‘، ’دیوانہ تیرے نام کا‘، ’بڑے دل والا‘ اور ’پھر تیری کہانی یاد آئی‘ جیسی بہت سی بھارتی فلموں کے لیے بھی عمدہ گیت لکھے۔ اُن کے گیتوں کی مجموعی تعداد ڈھائی ہزار سے زیادہ بنتی ہے، جن میں ’صدا ہوں اپنے پیار کی‘، ’اے دل کسی کی یاد میں ہوتا ہے بے قرار کیوں‘، ’یوں زندگی کی راہ سے ٹکرا گیا کوئی‘ کے ساتھ ساتھ ’یہ وادیاں، یہ پربتوں کی شاہزادیاں‘ جیسے زبان زدِ خاص و عام گیت بھی شامل ہیں۔۔لازوال گیت تخلیق کرنے والے نامور شاعر قتیل شفائی کا انتقال گیارہ جولائی 2001ء کو 82 برس کی عمر میں ہوا تھا۔اُنھیں سنہ 1994میں ’پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ‘ سے نوازا گیا۔ اِس کے علاوہ، قتیل شفائی نے آدم جی ایوارڈ، نقوش ایوارڈ، اباسین آرٹ کونسل ایوارڈ اور امیر خسرو ایوارڈ بھی حاصل کیے۔لاہور میں جہاں آپ کا قیام تھا اُس سڑک کو قتیل شفائی اسٹریٹ اور ہری پور میں جہاں وہ رہتے تھے محلہ قتیل شفائی کہا جاتا ہے۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔