(Last Updated On: )
اردو زبان و ادب کی ترقی و ترویج کے لیے کوشاںقطر کی قدیم ترین اردو تنظیم ، بزمِ اردو قطر (قائم شدہ ۱۹۵۹ ء )، کی جانب سے زووم پر پہلا آن لائن عالمی طرحی مشاعرے کا انعقاد بروز جمعہ، بتاریخ ۲/ اکتوبر ۲۰۲۰ء بڑے اہتمام سے منعقد کیا گیا جس میں اردو دنیا کے تقریباً دو درجن شعر و شاعرات نے شرکت کی۔ شعرائے کرام کے علاوہ سخن فہم سامعین کی ایک بڑی تعداد اس پروگرام سے اپنے اپنے قیام گاہوں سے محظوظ ہوئی۔
انڈیا اردو سوسائٹی کے بانی صدر و شاعرِ خلیج و فخر المتغزلین جناب جلیلؔ نظامی نے حیدر آباد دکن سے مسندِصدارت کورونق بخشی۔ دہلی میں مقیم بزرگ شاعر جناب شاذؔ جہانی (آلوک کمار شریواستو) مہمانِ خصوصی کی کرسی پر سرفراز ہوئے جب کہ اکولہ ہندوستان سے کلاسیکی لب ولہجہ کے شاعر جناب اقبال خلشؔ اور کراچی میں مقیم پر وقار لہجے کی شاعرہ محترمہ زینت کوثرؔ لاکھانی مہمانانِ اعزازی کے طور پرمشاعرے میں جلوہ افروز ہوئے۔ بزمِ اردو قطر نے لاک ڈاون کے دور میں قطر میں سب سے پہلے ۳/ اپریل ۲۰۲۰ء کو پہلا آن لائن غیر طرحی مشاعرے کا انعقاد کیا تھا ۔ قطر کے اس پہلے عالمی آن لائن طرحی مشاعرے میں اردو کے عظیم شاعر و میر تقی میرؔ کے دو مصرع بطور طرح دیے گئے تھے۔
۱؎ ’’نکلا نہ ایک حرف بھی میری زبان سے ‘‘ اور
۲ ؎ ’’ تم کو تو التفات نہیں حالِ زار پر‘‘
جن پر مختلف ممالک میں مقیم شعرا و شاعرت نے غزل کہہ کر اپنی شرکت سے مشاعرے کو کامیابی سے ہم کنار کیا۔ میرؔ کے منتخب نشتروں اور برمحل فقروں کے ساتھ بزمِ اردو قطر کے چیئرمین ڈاکٹر فیصل حنیف نے مشاعرے کی نظامت کے فرائض بہت عمدہ انداز میں انجام دیے۔ مشاعرے کا آغاز ڈاکٹر سعد محمد رفیق کی تلاوتِ کلامِ پاک سے ہوا۔ قاضی عبد الملک نے اپنی دل کش آواز میں ایک نعت پاک پیش فرمائی جب کہ معروف غزل سنگر ابولخیر خان نے میر تقی میر ؔ کی غزل اپنی سحر انگیز آواز میں پیش کی۔ بزمِ اردو قطر کے صدر جناب محمد رفبق شادؔ اکولوی نے بزم کا مختصر تعارف پیش فرمایا اور جنرل سکریٹری افتخار راغبؔ نے تمام شعرا و سامعین کا پر جوش استقبال کیا۔ بزم کے نائب سکریٹری سید فیاض بخاری کمالؔ نے پروگرام کو زووم پر انصرام و ریکارڈنگ کی ذمہ داری بہ حسن وخوبی انجام دی۔ مختلف ممالک کے جن شعراے کرام نے اپنی طرحی غزل سے مشاعرے کو پر وقار بنایا ان کے اسمائے گرامی ہیں: صدرِ مشاعرہ جناب جلیلؔ نظامی (ہندوستان)، مہمانِ خصوصی جناب شاذؔ جہانی (آلوک کمار شریواستو، ہندوستان) ، مہمانانِ اعزازی جناب اقبال خلشؔ (ہندوستان) اور محترمہ زینت کوثرؔ لاکھانی (پاکستان)، جناب محمد رفیق شادؔ اکولوی (قطر)، افتخار راغبؔ (قطر)، جناب سرفراز بزمی (ہندوستان) ، ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی (ہندوستان) ، جناب ضمیر احمد ضمیرؔ (ہندوستان) ، ڈاکٹر وصیؔ بستوی (قطر)، جناب راشد عالم راشدؔ (قطر) ، محترمہ سعدیہؔ صدف (ہندوستان) ، جناب فیاض بخاری کمالؔ (قطر) ، جناب فریدؔ انور صدیقی (متحدہ عرب امارات) ، جناب عمران ثانیؔ (ہندوستان) ، ڈاکٹر مفضلؔ مفیض (قطر) ، ڈاکٹر طارق فیضؔ (ہندوستان) ، محترمہ رضیہؔ کاظمی (امریکہ) ، محترمہ عالیہؔ تقوی (ہندوستان) ، ڈاکٹر ظفرؔ اسلم (ہندوستان) ، جناب فیروزؔ اختر (ہندوستان) ، جناب بے نام گیلانی (ہندوستان) اور محترمہ نزحتؔ نوشین (ہندوستان)۔
صدر مشاعرہ اور تمام مہمانان نے بزم اردو قطر کی کاوش کو سراہا اور مشاعرے کی بہترین کامیابی پر میارک باد پیش کی۔چند منتخب اشعاربا ذوق قاری کی نذر کیے جاتے ہیں:
لانے کی دھُن میں ہیں جسے ناداں زمین پر
باتیں وہ کر رہی ہے زباں آسمان سے
جس پر لگے ہوئے تھے کئی صد ہزار پر
اب وہ غزل اُڑان کو مانگے ہے چار پر
جلبلؔ نظامی، حیدر آباد دکن
مجھ کو یقین تھا کہ میں انصاف پاؤں گا
لیکن گواہ پھر گیا اپنے بیان سے
کہتے ہو شاذؔ تم کہ وبا ہے مصلحت
اتنا تمھیں یقین ہے پروردگار پر
شاذؔ جہانی (آلوک کمار شریواستو)، دہلی
اے کاش سوچتا وہ جلانے سے پیش تر
اُس کا مکاں قریں تھا ہمارے مکان سے
نو واردوں کی حوصلہ افزائی شرط ہے
شاعر خلشؔ اترتے نہیں آسمان سے
اقبال خلشؔ، اکولہ، ہندوستان
منہ کھولنے سے پہلے یہ سوچو ہزار بار
لوٹا نہیں وہ تیٖر جو نکلا کمان سے
شکوے کئی تھے دل میں مگر تیرے روبرو
’’نکلا نہ ایک حرف بھی میری زبان سے‘‘
زیزت کوثرؔ لاکھانی، کراچی
جمہوریت کا نعرہ دیا جس نے شان سے
رکھتے ہو بیر کیوں اُسی اردو زبان سے
آخر سبب ہے کیا ذرا سوچو تو مومنو
کیوں لوٹتی ہے اپنی دعا آسمان سے
محمد رفیق شادؔ اکولوی، دوحہ، قطر
پتّھر بہ صد خلوص رہیں آئنے کے سنگ
شبنم کے قطرے رقص کریں نوکِ خار پر
راغب خودی کے رُخ پہ رہے دائمی دمک
دستارِ انکسار سرِ افتخار پر
افتخار راغبؔ، دوحہ، قطر
جنگِ حیات جیت کے خوش تھے تمام لوگ
دیوانہ ہنس رہا تھا مگر اپنی ہار پر
اُس نے بھی کھول رکھے ہیں سارے ستم کے باب
ہم بھی اَڑے ہوئے ہیں ادھر آر پار پر
سرفراز بزمیؔ، راجستھان، ہندوستان
تیار کر رہا ہے میری فردِ جرم وہ
اپنے ہی گھر میں بیٹھ کے وہم و گمان سے
راتوں کی نیند دن کا سکوں ہو گیا حرام
ڈھاؤ نہ ظلم اور دلِ بے قرار پر
احمد علی برقیؔ اعظمی، دہلی
اُس کا اداس چہرہ مجھے کر گیا ملول
کیسے خوشی مناؤں میں دشمن کی ہار پر
لگتا ہے جیسے اوس میں بھیگا ہو کوئی پھول
آنسو رکے رکے سے ہیں رخسارِ یار پر
ضمیر احمد ضمیرؔ، اکولہ، ہندوستان
سرمایۂ حیات گیا آندھیوں کے ساتھ
ہم جیسے لوگ رہ گئے نازاں غبار پر
پھر حکم یہ ہوا کہ یہ تحریر تم پڑھو
اک لفظ لکھ دیا گیا پانی کی دھار پر
ڈاکٹر وصیؔ بستوی، دوحہ قطر
اپنی زمیں کی جن کو کوئی فکر ہی نہیں
کس منہ سے وہ امید رکھیں آسمان سے
بدلے ہیں رنگ آمدِ فصلِ بہار پر
کیسے یقیں کروں ترے قول قرار پر
راشد عالم راشدؔ، دوحہ قطر
رہتا تھا جو پرے مرے وہم و گمان سے
بیٹھا ہے دل کے تخت پہ اب کتنی شان سے
اُس نے جو التفات کی تھوڑی نگاہ کی
رہنے لگے ہیں ہم بھی ذرا خوش گمان سے
سعدیہؔ صدف، کولکاتا
قابو نہ کر سکے دلِ بے اختیار پر
آئے ہیں چھپ چھپا کے وہ میری مزار پر
ماتھے پہ ہے پسینہ پریشاں ہے زلف بھی
کیا کیا نہ گزوری ہوگی دلِ سوگوار پر
فیاض بخاری کمالؔ، دوحہ قطر
اب کے چلیں جو آندھیاں اُن کو بھی لے اُڑیں
یادوں کے رہ گئے تھے جو کچھ سائبان سے
غرقاب کر کے چھوڑے گا محلوں کو سیلِ غم
نکلا ہے اب کی بار جو کچّے مکان سے
فریدؔ انور صدیقی، دبئی
جب جب بھی میں نے مانگا ہے اُس مہربان سے
اُس نے سوا دیا مجھے میرے گمان سے
مدّت سے کر رہا ہے سفر جو خلاؤں کا
وہ کیوں حسد کرے گا کسی کی اُڑان سے
عمران ثانیؔ: اکولہ، ہندوستان
بلبل ذرا چہکنا تو شاخوں پہ دھیان سے
خطرہ ہے گلستان کو اب باغبان سے
انصاف کے ترازو کا میران اُلٹ گیا
گیتا پہ ہاتھ رکھ کے وہ پلٹے بیان سے
ڈاکٹر مفضل مفیض، دوحہ قطر
رہتا نہیں ہے ہوش مجھے کیا بیاں کروں
آتی ہے جب بھی مجھ کو صدا آسمان سے
میری کہانی کو اے خدا تو ہی رہ دکھا
کردار چل رہا ہے جدا داستان سے
ڈاکٹر طارق فیضؔ، اکولہ، ہندوستان
نا اہل منفعل نہ ہوئے اپنی ہار پر
اب ذاتیاتِ حزبِ مخالف ہے وار پر
کہتے ہیں بزمِ اردو جسے تا ابد خدا
رکھیّے چمن کی طرح رضیّہؔ نکھار پر
رضیّہؔ کاظمی، امریکہ
ہم اعتبار کیسے کریں اُس کی بات کا
پلٹا ہو بار بار جو اپنے بیان سے
شاخِ شجر پہ ہے یہاں بلبل کا آشیاں
کیوں کر وہ جائے اور کہیں گلستان سے
عالیہ تقوی، ہندوستان
ہرگز نہ متفق تھا میں اُس کے بیان سے
پھر بھی نہ کہہ سکا میں کچھ اپنی زبان سے
نکلا زمینِ میرؔ میں رکھ کے قدم ظفرؔ
بے جا نہیں ہے فخر کچھ اِس افتخار پر
ڈاکٹر ظفرؔ اسلم، ہندوستان
پر کاٹنے کے بعد بھی پنجرے میں رکھ دیا
صیّاد ڈر رہا تھا ہماری اُڑان سے
اُس نے بھی ہجر کا کبھی شکوہ نہیں کیا
فیروزؔ میں بھی زندہ رہا آن بان سے
فیروزؔ اختر، ہندوستان
حق بات ہے یہ کوئی فریبِ نظر نہیں
اثرات کچھ خزاں کے ہیں اب کی بہار پر
پیرِ مغاں کے بہکے قدم پر نظر نہیں
اُٹھتی ہیں انگلیاں تو فقط بادہ خوار پر
بے نامؔ گیلانی، ہندوستان
ہوش و حواس تیری محبت میں کھو دیے
خوشیاں خرید لائی ہوں غم کی دکان سے
تم روٹھ کر ذرا سا الگ ہم سے کیا ہوئے
اٹھنے لگے سوال ہمارے سنگھار پر
نزہت نوشین، ہندوستان
رپورٹ: افتخار راغبؔ
جنرل سکریٹری، بزمِ اردو قطر، دوحہ قطر
“