اس وقت دنیا کا سب سے امیر ترین ملک قطر ہے۔ بہت چھوٹا سا ملک جس کا رقبہ صرف دس ہزار مربع کلومیٹر ہے (صوبہ سندھ کا رقبہ ڈیڑھ لاکھ مربع کلومیٹر ہے)۔ اس نے جب 1971 میں آزادی حاصل کی تو یہ انتہائی غریب ملک تھا۔ بس ایک گرم صحرا۔ اس وقت اس کا جی ڈی پی فی کس فرانس سے تین گنا ہے۔
قطر کی سرمایہ کاری اور جائیداد پوری دنیا میں ہے۔ اس کا دارالحکومت دوحہ اونچی عمارات، بڑی گاڑیوں اور پرتعیش مالز کا سمندر ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں دبئی کی امارات کی طرح کا آزاد معاشرہ جسے بغیر الکوحل کا ویگاس یا موناکو کہا جاتا ہے۔ صرف چند دہائیوں پہلے کی اس پسماندہ آبادی میں رہن سہن اب اسقدر پرتعیش ہے کہ دوحہ کے جنوب میں قطر کے امیر کی طرف سے تحفہ کی گئی زمین پر بنایا جانے والا کیتھولک چرچ دو کروڑ ڈالر کی لاگت سے تعمیر ہوا۔
ساتھ لگی بائیں طرف والی تصویر 1980 کی ہے اور دائیں طرف اسی جگہ کی 2013 میں لی گئی۔ قطر آخر اتنا امیر کیسے ہوا؟ قدرتی گیس۔ بہت سی قدرتی گیس۔ لیکن قطر کی کہانی صرف گیس کی نہیں۔
چالیس کی دہائی میں یہاں پر فوسل فیول کے ذخائر دریافت ہو گئے تھے اور ساٹھ کی دہائی میں اس کو نکالنا بھی شروع کر دیا گیا تھا۔ لیکن قطر میں زیادہ تبدیلی نہیں آئی۔ ستر کی دہائی میں شیل نے اس ملک کا سب سے بڑا خزانہ دریافت کیا۔ یہ شمالی فیلڈ تھا جو دنیا میں گیس کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔ لیکن یہ گیس زیادہ منافع بخش نہ تھی۔ گیس صرف پائپ کے ذریعے ٹرانسپورٹ کی جا سکتی تھی۔ قطر کے ہمسائیوں کو یہ چاہیۓ نہیں تھی اور جہاں ضرورت تھی ، وہ اس سے بہت دور تھے۔ یہاں تک کہ شیل بھی اس ذخیرے کو بھول گیا۔
قطر میں روایتی بادشاہت تھی۔ الشیخ حمد بن خلیفہ آل ثانی نے اپنے والد کا تختہ 1996 میں الٹا۔ ان کی بیوی موزا بنت ناصر سعودی حکومت مخالف تحریک المہندہ کے سربراہ کی بیٹی اور ایک سوشیالوجسٹ تھیں۔ ان دونوں کے قطر کے مستقبل کے بارے میں اپنے کچھ فرق خیالات تھے۔
ملک میں ہونے والی سوشل تبدیلیاں اماراتِ دبئی کی طرز پر بہت جلد آئیں۔ حمد کے خیال میں شمالی فیلڈ قطر کا مستقبل تھا۔ امیرِ قطر نے ایک بڑی غیرمعمولی ٹیکنالوجی میں بڑی ہی خطیر سرمایہ کاری کی۔ گیس کو مائع بنانے کی ٹیکنالوجی۔ تا کہ گیس کو تیل کی طرح بحری جہازوں پر لادا جا سکے۔ اس کے لئے گیس کا درجہ حرارت منفی 161 تک کرنا تھا۔ اس کی گئی سرمایہ کاری سے وہ ٹیکنالوجی بنی جس کی وجہ سے قطر دنیا میں ایل این جی برآمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ چین، انڈیا، کوریا اور جاپان کی تین چوتھائی گیس اب قطر سے آتی ہے۔ قطر نے اپنے ملک میں اس کو نکالنے کے طریقے پر اتنی بڑی سرمایہ کاری کی ہے کہ یہ سارا پراسس اس کو بہت سستا پڑتا ہے۔ امریکہ میں نکلنے والی گیس سے ایک چوتھائی قیمت کا۔
اس کے امیر ہونے کی وجہ یہ ہے لیکن اس ملک کی کہانی صرف یہ نہیں۔ ملک کو اس طرح ملنے والی دولت اکثر ملک کو تباہ کر دیتی ہے۔ (انگولا اور وینزیولا کی مثالیں نیچے دئے گئے لنک سے)۔ اس مساوات کی دوسری سائیڈ یہ کہ اس کو خرچ کیسے کیا جائے۔
قطر اپنی دولت سے خود اپنے ملک میں اور بیرونِ ملک سرمایہ کاری کرنے کے لئے سرمایہ کاری کی اتھارٹی بنائی۔ لندن شہر کا ایک حصہ اب اس کے پاس ہے۔ ہوٹل، آفس، اپارٹمنٹ۔ امریکہ میں چوتھا بڑا سرمایہ کار قطر ہے۔ صرف مین ہٹن میں ان کی پانچ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہے۔ کئی بڑی ملٹی نیشلز میں اس کا اب بڑا شئیر ہے۔ فوکس ویگن، پورشے، بارکلے بینک، شیل، ٹیفینی جیسے کمپنیوں میں قطر بڑا شئیر ہولڈر ہے، روس کی تیل کی کمپنی روسنیفٹ اور فرنچ ٹیلی کام میں بھی۔ 2006 میں دس ارب ڈالر سے شروع ہونے والی سرمایہ کاری اب ساڑھے تین کھرب ڈالر کے قریب ہے۔ اپنے ملک میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری سڑکوں، ہوائی اڈوں، ریسرچ سنٹرز، فائننشل سنٹرز پر کر رہا ہے۔ لیکن کیوں؟ تا کہ اگر تیل اور گیس کی آمدنی کم ہو تو فرق نہ پڑے۔ لیکن ابھی گیس کا ختم ہونے بھی بہت دور ہے۔ تیل کی ڈیمانڈ تو شاید اگلے پندرہ سے بیس سال میں کم ہونا شروع ہو جائے گی، گیس کی اتنی جلد نہیں۔
حمد بن خلیفہ آل ثانی کے ذہن میں ایک اور چیز بھی تھی۔ دنیا میں اثر و رسوخ۔ اس سے پہلے قطر کا کنٹرول بنیادی طور پر سعودی عرب کے ہاتھ میں تھا۔ اور امیرِ قطر کے سامنے کویت کی مثال بھی تھی۔ دنیا میں اپنی شناخت کے بغیر یہ مکمل طور پر خودمختار نہیں ہو سکتا تھا۔ آزادی کے لئے بندوق چاہیۓ تو قطر نے 2003 میں یہ امریکہ سے لے لیں۔ ایک ارب ڈالر ان کی فوجوں کے اڈے تعمیر کرنے پر خرچ کئے۔ دوحہ سے بیس میل دور اس بیس پر گیارہ ہزار فوجی موجود ہیں۔ امیرِ قطر کے بقول ایک مشکل خطے میں ان کو محفوظ رکھنے کے لئے یہ خریدی گئی انشورنس ہے۔
اور ہاں، الجزیرہ۔ دنیا کے اکثر ممالک میں پابندی کا شکار مگر سب سے زیادہ دیکھا جانے والا چینل۔ اس چینل پر نہ صرف عرب کے تقریبا ہر ملک میں پابندی ہے بلکہ انڈیا اور اسرائیل میں بھی۔ امریکہ بھی اس کا اثر کم کرنے کے لئے چینل بنانے کی ناکام کوشش کر چکا ہے۔ تمام پابندیوں کے باوجود یہ مشرقِ وسطیٰ میں سب سے زیادہ دیکھا جانے والا چینل ہے۔
قطر کے بڑھتے اثر اور عربی زبان میں خطے کی خبریں دینے کی وجہ سے مصر، سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے دوسرے ملکوں کو ملا کر قطر پر دہشتگردی کی معاونت کا الزام لگاتے ہوئے جون 2017 میں پابندیاں لگا دیں۔ 18 ممالک نے نہ صرف تجارتی اور سفارتی تعلقات توڑ لئے بلکہ اپنی فضائی حدود بند کر دیں۔ ان میں وہ ملک بھی شامل تھے جہاں سے قطر کا روز کی خوراک کا بھی انحصار تھا۔ قطر کی خریدی گئی 'انشورنس پالیسی' کی وجہ سے فوج کشی تو نہیں کر سکتے تھے لیکن کسی ملک کے خلاف اس سے زیادہ سخت ایکشن اور نہیں لیا جا سکتا تھا۔ الجزیرہ کو بند کرنا سب سے بڑی ڈیمانڈ تھی۔ اسرائیلی وزیرِ اعظم کا اس پر کہنا تھا کہ عرب دنیا میں پڑنے والی اس پھوٹ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ ہماری جان الجزیرہ سے چھوٹ جائے گی۔
قطر کو اپنی اوقات یاد کروانے اور ان کا اثر و رسوخ کم کرنے کی کوشش کے لئے کی جانے والی یہ پابندیاں مکمل طور پر ناکام رہیں۔ قطر نے ان پابندیوں کی وجہ سے ترکی، ایران اور مغربی دنیا سے بہتر تعلقات بنا لئے۔
قطر آئیڈیل ملک نہیں۔ اس کے اپنے کئی مسائل ہیں۔ خاص طور پر یہ کہ سب کچھ حکومت اور ایک شخص کے کنٹرول میں ہے۔ متحدہ عرب امارات میں پرائیویٹ سیکٹر کا ترقی میں بڑا عمل دخل ہے لیکن قطر میں ایسا نہیں لیکن چند چیزیں ٹھیک کر کے قطر نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور مشرقِ وسطٰیٰ کے چھوٹے سے ناقابلِ ذکر کونے میں آزادانہ شناخت بنا لی جو باقی سب ملکر بھی کم نہ کر پائے۔ اپنے پر لگائی گئی تمام تر پابندیوں کے باوجود قطر آج بھی دنیا کا سب سے امیر ملک ہے۔