برسوں کے پر تناؤ ماحول کے بعد پچھلے سال ۵ جون کو صورتحال نے اچانک نیا موڑ لیا۔ سعودی عرب، مصر، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے قطر کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ دہشت گردوں کی معاونت کا الزام لگاتے ہوئے چودہ مطالبات پیش کرتے ہوئے الٹی میٹم دیا اور ہر قسم کا تعلق توڑ لیا۔ سب سے بڑا مسئلہ الجزیرہ تھا اور دوسرا اس کا عالمی اثر و رسوخ۔ یہاں تک کہ سعودی عرب نے بارہ ہزار قطری اونٹ بھی ملک بدر کر دیے۔ اس چھوٹے سے ملک کی سرحد سعودی عرب کے علاوہ کسی سے نہیں ملتی۔ خیال تھا کہ چند روز سے زیادہ قطر یہ برداشت نہیں کر سکے گا۔ لیکن قطر نے ایک بھی مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا۔ اس سب سے ہوا کیا؟ اس کے نتائج پر ایک نظر۔
قطر کے وزیر اطلاعات سیف آل ثانی کے مطابق یہ بائیکاٹ ان کی آزادی پر حملہ ہے اور وہ اپنی آزادی ہر صورت برقرار رکھیں گے۔ قطر کمزور نہیں کہ دھمکیوں میں آ جائے۔ لیکن بائیکاٹ کے ابتدائی چند گھنٹوں میں ایسا نہیں لگ رہا تھا۔ قطر میں بنیادی ضرورت کی اشیاء پہنچنا بند ہو گئیں تھیں۔ سٹاک مارکیٹ کریش ہو گئی تھی۔ فوج کشی کا خطرہ منڈلا رہا تھا۔ قطر کی فوج اپنے ہمسائیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔ امریکہ کو اپنا اڈہ کچھ سال پہلے دینے کی حکمت عملی کام آئی تھی۔ لیکن اس کے ہمسائیوں نے امریکہ سے اجازت لینے کے لئے سفارت کاری شروع کر دی۔ اس دوران قطر نے کامیاب ڈپلومیسی سے ترکی کی فوج بھی اپنے ملک بلوا لی۔ فوج کشی کا خطرہ ٹل گیا۔ اقتصادی بائیکاٹ سے مقابلے کیلئے قطر کی برسوں کی سرمایہ کاری کام آئی۔ پچھلے سال قطر کی معیشت کو نہ صرف نقصان نہیں پہنچا بلکہ تجارتی تعلقات ختم ہونے کے شاک کے باوجود اکانومی تین فیصد بڑھی ہے۔ کئی ملٹی نیشنل کمپنیاں جو دبئی سے آپریٹ کر رہی تھی اور اب قطر میں بزنس نہیں کر سکتی تھیں، انہوں نے دوحہ میں دفاتر کھول لئے۔ ایک سال میں مالیاتی سیکٹر میں ستر فیصد نئے ادارے کھلے۔ قطر نے نئے تجارتی پارٹنر تلاش کر لئے۔ لیکن خطے میں الگ تھلگ ہو جانا بہت بڑا چیلنج ہے۔ سرمایہ کاروں کو لبھانے کے لئے اور دنیا کو ساتھ رکھنے کے کئے قطر کو بہت کچھ کرنا پڑا ہے۔
سب سے پہلے اصلاحات۔ ۸۰ ممالک کے شہریوں کیلئے ویزہ کی شرط ختم کر دی گئی۔ غیر ملکی شہریوں کے حقوق میں اضافہ ہوا۔ اقتصادی فری زون قائم کئے گئے۔ قطر کی تاریخ میں پہلی بار انتخابات ہوئے، پہلی بار پارلیمنٹ بنی۔ اگرچہ اس کے اختیارات محدود ہیں لیکن عوامی نمائندگی کی طرف پہلا قدم ہے۔ کفیل کا سسٹم ختم کیا جا رہا ہے۔ بیرون ملک سے کام کرنے مرضی سے نوکری بدل سکیں گے یا چھوڑ سکیں گے۔ غریب لیبر کا استحصال روکا جائے گا۔ قطر کے وزیر مالیات کے مطابق یہ اصلاحات کرتے ان کو بڑا وقت لگتا لیکن بائیکاٹ ان کے لئے اس حوالے سے نعمت غیرمترقبہ ثابت ہوا ہے۔
دنیا میں اثر بڑھانے کے لئے قطر نے ملٹری اور انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کو مضبوط کیا ہے۔ پچھلے چند ماہ میں قطر نے پچیس ارب ڈالر کے نئے دفاعی معاہدے کئے ہیں۔ جہاز، ہیلی کاپٹر، میزائل، ٹینک جو کچھ دستیاب ہے، قطر خرید رہا ہے۔ ایک وجہ تو یہ کہ حملے کی صورت میں یہ تر نوالہ نہ ہو۔ لیکن یہ اپنے ہمسائے اور حریف سعودی عرب کا مقابلہ کبھی بھی نہیں کر سکتا جس کے عسکری اخراجات اپنی اکانومی کے حساب سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ ایسا کرنے کی دوسری وجہ سٹرٹیجک ہے۔ اربوں ڈالر کی خریداری صرف ان ممالک سے ہے جنہوں نے مشکل وقت میں ساتھ دیا یعنی امریکہ، جرمنی، فرانس اور برطانیہ۔ ان کو نوازنا مستقبل میں فیور لینے کا طریقہ ہے۔
قطر میں الحدید کا فوجی اڈہ امریکہ کا اس خطے میں سب سے اہم فوجی اڈہ ہے۔ ایک ارب ڈالر کی لاگت سے تعمیر کیا یہ اڈہ قطر نے ۲۰۰۳ میں امریکہ کو بالکل مفت تحفے میں دیا تھا اور اس کے اخراجات بھی بڑی حد تک برداشت کرتا ہے۔ قطر نے اب اس کو مزید پھیلانے کا اعلان کیا ہے۔ اس اڈے میں گیارہ ہزار امریکی فوجی اور ایک سو بی ۵۲ بمبار طیارے ہیں۔ یہ وہی اڈہ ہے جہاں سے افغانستان، عراق، شام اور لیبیا پر کارروائی کی جاتی ہے۔ قطر نے اب ترکی کا مستقل بحری اڈہ اپنی زمین پر بنوانے کا معاہدہ بھی کر لیا ہے۔
انٹرٹینمنٹ کی صنعت میں قطر پہلے ہی بہت کام کر رہا تھا خاص طور پر کھیلوں کی صنعت میں۔ اس میں اضافہ کر دیا ہے۔ فٹبال کا اگلا ورلڈ کپ یہاں منعقد ہونا ہے۔ فرانس کا سب سے بڑا فٹ بال کلب یہ خرید چکا ہے۔ بہترین کھلاڑی حاصل کر رہا ہے۔ ان میں برازیل کے مشہور ترین فٹبالر نیمار بھی ہیں جو قطر ورلڈ کپ کی تشہیر کے لئے بھی کام کریں گے۔ اولمپک کی میزبانی کی کوشش کر رہا ہے۔ الجزیرہ کا ذیلی ادارہ بائن سپورٹس اب کھیلوں کا دنیا کا سب سے بڑا چینل بن چکا ہے۔
لیکن اس کے حریف خاموش نہیں بیٹھے۔ اس جنگ کی دوسری طرف کے حربوں کی کہانی پھر کبھی۔ مشرق وسطی کی پیچیدہ صورتحال کی اس پیچیدہ جنگ میں جیت کس کی ہو گی؟ کیا مخالفین قطر کا کانٹا نکال سکیں گے؟ یا اس کا بازو مروڑ کر اس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیں گے؟ یہ وقت بتائے گا۔ آپ کی کیا رائے ہے؟