تحریر : گی دموپاساںؔ (فرانس(
مترجم : شوکت نواز نیازی (راولپنڈی(
(فرانسیسی زبان سے براہِ راست اردو ترجمہ)
وکیلِ صفائی نے عدالت میں اپنے مؤکل کے دفاع میں دیوانگی کا عذر پیش کیا تھا۔اس کے سوا اس عجیب و غریب جرم کی کیا توجیہہ پیش کی جاسکتی تھی؟ایک صبح شاطُوع (Chatou) کے قریب اونچی گھاس میں ایک مرد اور ایک عورت کی لاشیں پائی گئیں۔دونوں ادھیڑ عمر تھے اور ان کا شمار شہر کے نامور دولت مندوں میں ہوتا تھا۔عورت تین سال سے بیوہ تھی اور ایک سال قبل ہی اس مرد سے اس کی شادی ہوئی تھی۔ان کی کسی سے دشمنی نہ تھی اور نہ ہی ان کو لوٹا گیاتھا۔ایسا دکھائی دیتا تھا کہ ان دونوں کو کسی تیز دھار آلے سے پے در پے وار کرنے کے بعد یکے بعد دیگرے دریامیں پھینک دیاگیا ہو۔ابتدائی تفتیش سے کچھ ظاہر نہیں ہوا۔جن ملاّحوں نے لاشوں کی اطلاع پہنچائی تھی ان سے پوچھ گچھ بھی لاحاصل رہی۔ حکام اس اندھے قتل کی تفتیش ختم کرنے ہی و الے تھے کہ قریبی گاؤں کے ایک نوجوان بڑھئی جارج لوئیؔ عرف''نواب صاحب''نے خود ہی اس قتل کے ارتکاب اعتراف کر لیا۔
حکام کے ہر سوال کے جواب کے میں وہ یہی کہتا، ’’میں اس شخص کو دو سال سے جانتا تھا اور اس عورت کو چھ ماہ سے۔وہ اکثر میرے پاس پرانے فرنیچر کی مرمّت کے لئے آتے تھے، کیونکہ میں اس کام میں خاصا ماہرہوں‘‘۔
اور جب اس سے یہ سوال پوچھا جاتا، ’’ تم نے ان کو کیوں قتل کیا؟‘‘ تو وہ تواتر سے ایک ہی جواب دیتا، ’’ میں نے ان کو اس لئے قتل کیا کہ میں ان کو قتل کرنا چاہتا تھا‘‘۔اس کے علاوہ اس سے اور کوئی بات نہیں اگلوائی جا سکی۔
ایک بات ظاہر تھی کہ یہ نوجوان کسی کی ناجائز اولاد تھی جس کو پرورش کے لئے اس گاؤں میں کسی کی تحویل میں دے دیا گیا تھا اور پھر کچھ عرصے کے بعد اس کے ماں باپ نے اسے فراموش کر دیاتھا۔اس کا نام تو جارج لوئیؔ ہی تھا لیکن چونکہ وہ شروع ہی سے وہ ایک ذہین اور مہذب لڑکا ثابت ہوا تھااوراپنے ہم عمر ساتھیوں کی نسبت کہیں زیادہ شائستہ اور نفیس عادات کا حامل تھا اس لئے سب لوگ اس کو"نواب صاحب" کہہ کر پکارنے لگے اور جلد ہی یہی اس کے نام کے طور پر مانا جانے لگا۔جب اس نے لکڑی کا کام شروع کیا توکچھ ہی عرصے میںاس کی مہارت کا چرچہ دوردور تک پھیل گیا۔کبھی کبھار تو وہ لکڑی کے مجسمے بھی بنایا کرتا تھا۔یہ بھی کہا جاتا تھا کہ وہ پکا سوشلسٹ اور کمیونزم اور لاوجودیت کے نظریات کا پیروکار تھا۔مہماتی ناولوں کا شوقین، وہ اپنے علاقے میں خاصا اثر و رسوخ رکھنے والااورمزدوروں اور کسانوں کے سیاسی جلسوں میں ایک شعلہ بیاں مقرر کے طور پر جانا جاتا تھا۔
وکیلِ صفائی نے اس کے دفاع میں دیوانگی کا عذر پیش کیا تھا۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک بڑھئی اپنے بہترین گاہکوںکو مار ڈالے جو دولت مند بھی تھے اور فراخ دل بھی ؟یہ بات ملزم نے خود تسلیم کی تھی۔ایسے گاہک جنہوں نے گزشتہ دو سال کے دوران اس سے کم و بیش تین ہزار فرانک کا کام کروایا تھا(اس کا ثبوت اس کے کھاتوں سے ملا تھا)۔ایک ہی جواز باقی رہ جاتاہے : دیوانگی! ایک نچلے درجے کا فرد جو سارے بورژوا طبقے سے انتقام لینے کی خاطردوامیروں کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔اس موقع پر نہائت مہارت سے وکیلِ صفائی نے اسکی عرفیت"نواب صاحب" ا ذکر بھی کر ڈالاجو اس علاقے کے لوگوں نے اس لاوارث کو دے رکھی تھی۔ عدالت کو مخاطب کرتے ہوئے وکیلِ صفائی نے کہا، ’’کیا یہ قسمت کی ستم ظریفی نہیں ہے ؟ ایسی ستم ظریفی جو ایسے بیچارے لاوارث نوجوان کو دیوانگی کی جانب دھکیل دے جس کا نہ باپ ہے اور نہ ماں؟یہ نوجوان جو جمہوریت کا حامی ہے۔یہ میں کیا کہہ رہا ہوں ؟یہ تو اسی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتا ہے جس کے ارکان کو کچھ عرصہ قبل حکومتِوقت یا تو گولی سے اڑا دیتی تھی یا پھر جلا وطن کر دیتی تھی۔اوراب اسی سیاسی جماعت کا یہی حکومت کھلی بانہوں سے استقبال کر تی ہے جس کے اصولوں میں ایک آتشزدگی اور جس کے روز مرّہ کے امور میں ایک قتل ہے۔جن نظریات کی کبھی مذّمت کی جاتی تھی آج انہی کو سر عام پزیرائی بخشی جاتی ہے اور اسی بات نے اس نوجوان کو پاگل بنا دیا ہے۔اس نوجوان نے جمہوریت پسندوں کو اور عورتوں کو، جی ہاں! عورتوں کو موسیو گمبیتہؔ اورموسیو گریویؔ(1) کی موت کے نعرے مارتے ہوئے سنا ۔ بس اس کا الجھا ہوا ذہن الٹ گیا۔اس کے سر پر بھی خون سوار ہو گیا، بورژوا طبقے کا خون!
حضرات !اس قتل کا موردِ الزام ملزم نہیں بلکہ معاشرہ ہے۔
عدالت میں موجود حاضرین کی اکژیت اثبات میں سر ہلانے لگی۔صاف ظاہر تھاکہ وکیل ِ صفائی یہ مقدمہ تقریباً جیت ہی چکاتھا۔ وکیلِ استغاثہ سر جھکائے خاموش بیٹھا رہا۔پھر جج نے ملزم سے حسبِ معمول آخری سوال پوچھا، ’’کیا ملزم کو اپنے دفاع میں کچھ کہنا ہے؟‘‘
نوجوان اٹھ کر کھڑا ہوا۔اس کا قد درمیانہ، بال سنہری اور سرمئی آنکھیں پر سکون اور شفاف تھیں۔اس دبلے پتلے نوجوان کی آواز بلند، گونج دار اور متوازن تھی اور اس کے پہلے چند الفاظ نے ہی اس کے بارے میں قائم کی گئی عمومی رائے کو بدل ڈالا۔اس نے کسی مقرر کی طرح اونچی آواز میں بولنا شروع کیالیکن ایک ایک لفظ اتنی صفائی سے ادا کیا گیا کہ اس کا ہر ایک حرف کمرے کے آخری کونے تک سنائی دیا گیا۔
’’جنابِ والا !چونکہ میں کسی پاگل خانے میں داخل نہیں ہونا چاہتا، اس سے تو میں موت کو بہتر حل سمجھتا ہوں،اس لئے میں سب کچھ بتا دینا چاہتاہوں۔میں نے اس عورت اور اس مرد کو اس لئے قتل کیا ہے کہ وہ دونوں میرے والدین تھے۔میری کہانی سنیں اور فیصلہ سنائیں۔
ایک عورت نے ایک بچے کو جنم دیااور پرورش کیلئے ایک آیا کے حوالے کر دیا۔کیا وہ جانتی تھی کہ وہ آیا اس معصوم جان کو کہاں لے گئی؟اس کی قسمت میں ازلی ذلّت، ناجائز پیدائش کی بدنامی لکھ دی۔۔۔نہیں، اس سے بھی زیادہ اس کو موت کی سزا سنا ڈالی کیونکہ اس نے تو اس بچے کو لاوارثوں کی طرح پھینکڈالا تھا، اور دوسری آیاؤں کی طرح، ماہانہ خرچہ نہ ملنے کے باعث وہ آیا بھی اس کو بھوک اور لاپرواہی کی موت مرجانے دیتی۔
لیکن مجھے جس عورت نے پالاوہ ایک رحمدل عورت تھی، میری اپنی ماں سے زیادہ رحمدل ، زیادہ عورت، زیادہ عظیم اور زیادہ ماں تھی!اس نے مجھے پال پوس کر بڑا کیا۔ اس نے یہ کام کرکے غلطی کی۔اسے چاہئے تھا کہ وہ اس قابلِ نفرت جان کو مر جانے دیتی جسے شہر والے مضافاتی بستیوں میں لا پھینکتے ہیں۔جیسے غلاظت شہر سے باہر پھینک دی جاتی ہے۔مجھے بچپن ہی سے ایک موہوم سا احساس تھا کہ میرے کندھوں پر کسی ذلت یا بدنامی کا بوجھ ضرور ہے۔ ایک دن دوسرے بچوں نے مجھے ’’حرامی‘‘ کہہ کر پکارا۔انہیں اس گالی کا مطلب تو معلوم نہیں تھا، جو ان میں سے کسی نے اپنے گھر میں سنی تھی۔ مطلب تو مجھے بھی معلوم نہیں تھا لیکن پھر بھی یہ گالی میرے کانوں میں پگھلے ہوئے سیسے کی مانند اتر گئی۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں سکول میں سب سے ذہین لڑکا تھا۔اگر میرے ماں باپ مجھے لاوارث پھینکنے دینے کے جرم کا ارتکاب نہ کرتے تو شائد میں ایک شریف آدمی یا پھر ایک معزز شخص ضرور بن چکاہوتا۔یہ جرم میرے خلاف کیا گیا تھا۔میںاس جرم کا شکارتھا اور وہ اس جرم کے مجرم تھے۔میں بے یارو مددگار تھا اور وہ بے رحم۔انہیں مجھ سے محبت کرنا چاہئے تھا لیکن انہوں نے مجھے مسترد کر دیا۔
انہوں نے مجھے زندگی دی۔۔۔۔لیکن کیا زندگی کوئی تحفہ ہے؟کم از کم میرے لئے تو یہ ایک نحوست تھی۔ مجھے مسترد کرنے کے بعد تو میرے پاس ان کا دیا صر ف انتقام ہی رہ گیا ہے۔جو ظلم انہوں نے مجھ پر ڈھایا ہے اس سے بڑھ کر غیر انسانی، اندوہناک اور اذّیت ناک ظلم اور کوئی نہیں ہو سکتا۔جس شخص کی تحقیر کی جائے وہ جوابی کارروائی کرتا ہے۔جس کا مال لوٹ لیا گیا ہو وہ بزور بازو اپنا مال واپس لے لیتا ہے۔جس کو دھوکہ دیا جائے،بے وقوف بنایا جائے یاتشدد کا نشانہ بنایا جائے وہ قتل کرتا ہے۔جس کو ذخم لگایا جائے وہ بھی قتل کرتا ہے۔جس کو ذلیل کیا جائے وہ قتل کرتاہے۔مجھے لوٹا گیا ہے،دھوکہ دیا گیا ہے، میں تشدد کانشانہ بنایا گیاہوں،اخلاقی طور پر ذلیل کیا گیا ہوں،اور بے عزّت کیا گیا ہوں اور یہ سب ان مجرموں سے کہیں زیادہ جن کے جرائم کو آپ معاف کر دیتے ہیں۔
میں نے صرف انتقام لیا ہے۔میں نے قتل کیا ہے۔یہ میرا حق تھا۔انہوں نے ذلّت اور خواری کی جو زندگی گزارنے پر مجھے مجبور کیا تھااس کے بدلے میں میں نے ان کی خوش و خرم زندگی لے لی۔آپ اس کو پدر کشی یا مادر کشی کہیں گے۔کیا یہ لوگ واقعی میرے والدین تھے؟ جن کے لئے میں ایک ناقابلِ برداشت بوجھ تھا،ایک خوف، بدنامی کا ایک داغ؟ جن کے لئے میری پیدائش ایک سانحہ تھا اور میری زندگی ذلّت کا ایک اندیشہ ؟ لذّت کے ایک لمحے کی تلاش میں انہیں ایک بن چاہی اولاد مل گئی۔انہوں نے اپنی اولاد کاخاتمہ کر ڈالا۔ مجھے موقع ملاتو میں نے بھی ان سے وہی سلوک کیا۔
حالانکہ ابھی کچھ عرصہ قبل ہی میرے دل میں ان کے لئے پیار پیدا ہونے چلاتھا۔
جیسا کہ میں نے کہا میرا باپ پہلی مرتبہ دوسال قبل میرے پاس آیا تھا۔مجھے کوئی شک نہ ہوا تھا۔اس نے مجھے کچھ چیزیں بنانے کو کہا۔ بعد میں مجھے علم ہوا کہ اس نے رازاری کی قسم اٹھاتے ہوئے علاقے کے پادری سے میرے بارے میں معلومات حاصل کی تھیں۔پھر وہ اکژوبیشتر آنے لگا۔وہ مجھے کام کا آڈر دیتا اور منہ مانگی ادائیگی کیا کرتا۔کبھی کبھار وہ ادھر ادھر کی باتیں بھی کرتا۔اس دوران میں مجھے اس سے کچھ انسیت سی پیدا ہونے لگی۔اس سال کے شروع میں وہ اپنی بیوی، میری ماں کو اپنے ساتھ لے کر آیا۔جب وہ میری دکان میں داخل ہوئی توکسی خزاں رسیدہ پتے کی مانند کانپ رہی تھی جیسے اسے کوئی نفسیاتی بیماری لاحق ہو۔پھر وہ بیٹھ گئی اور ایک گلاس پانی مانگا۔وہ کچھ نہیں بولی، بس ادھر ادھر میرے کام کو دیکھتی رہی اور لاتعلقی سے ’ہاں ‘ یا ’ناں ‘میں اپنے شوہر کے سوالات کے جوابات دیتی رہی۔جب وہ چلے گئے تو میں نے سوچاکہ شائد وہ پاگل ہے۔
ایک ماہ بعد وہ پھر واپس آئی۔لیکن اس مرتبہ وہ پر سکون اور اپنے آپ پر قابو پائے ہوئے تھی۔اس روز وہ کافی دیر ٹھہرے ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے۔ اس دن انہوںنے مجھے ایک بڑا ارٓڈر دیا۔اس کے بعد وہ تین مرتبہ آئی لیکن مجھے کچھ معلوم نہ ہوا۔لیکن ایک روز اچانک وہ مجھ سے میری زندگی کے بارے میں پوچھنے لگی، میرا بچپن، میرے والدین۔۔۔میں نے جواب دیا، ’’مادام، میرے والدین وہ بد نصیب تھے جنہوں نے مجھے لاوارث پھینک ڈالا تھا۔'' یہ سن کر اس نے ایک ہاتھ اپنے دل پر رکھا اور بے ہوش ہو کر گر پڑی۔میرے دل میں پہلی بات یہی آئی، ’’یہ میری ماں ہے۔‘‘لیکن میں نے اس پر یہ بات ظاہر نہیں ہونے دی۔ میں ابھی مزید ثبوت چاہتا تھا۔
میں نے بھی ان کے بارے میں کچھ معلومات اکٹھی کر رکھی تھیں۔مجھے علم تھا کہ ان دونوں کی شادی پچھلے جولائی میں ہوئی تھی اور کہ میری ماں تین سال قبل بیوہ ہوئی تھی۔کچھ لوگوں کے مطابق ان دونوں کا عشق میری ماں کے پہلے شوہر کی زندگی میں ہی شروع ہو چکاتھا لیکن اس بات کا کبھی کوئی ثبوت نہیں مل سکاتھا۔واحد ثبوت میں تھا،وہ ثبوت جسے پہلے پہل چھپانے کی کوشش کی گئی اور بعد میں ضائع کرنے کی۔بریحال میں ان کی جانب سے کسی اشارے کا منتظر رہا۔
ایک شام وہ پھرحسب ِ معمول میرے با پ کے ہمراہ آئی ۔اس شام وہ غیر معمولی طور مضطرب تھی۔ساری شام اس کی نگاہیں میرا چہرہ ٹٹولتی رہیں جیسے کچھ تلاش کر رہی ہوں۔ پھر جانے سے پہلے وہ رکی اور مجھ سے کہنے لگی،’’دیکھو، تم ایک ایماندار اور محنتی نوجوان ہو اس لئے میں تمہارا بھلا چاہتی ہوں۔یقیناً کبھی نہ کبھی تم شادی کرنے کا ارادہ کرو گے۔میں تمہاری مدد کرنا چاہتی ہوں کہ تم آزادی سے اپنی پسند کی لڑکی کو اپنا سکو۔میری اپنی پہلی شادی میری مرضی کے خلاف ہوئی تھی اس لئے مجھے معلوم ہے کہ یہ کتنابڑا عذاب ہوتاہے۔لیکن اب میں آزاد ہوں، دولت مند، بے اولاد،اپنی مرضی کی مالک۔یہ لو، اس سے اپنی شادی کا بندوبست کر لینا۔‘‘
اس نے میرے ہاتھ میں ایک لفافہ تھما دیا۔
میں چندلمحے اس کو تکتا رہا پھر میں بولا،’’آپ میری ماں ہیں؟‘‘
وہ یوں لڑکھڑائی جیسے کسی نے اس کو دھکا دیاہو اور اپنا سر موڑ لیا کہ میں اس کو دیکھ نہ پاؤں۔اس کے شوہر نے،میرے باپ نے، اس کو کندھوں سے سنبھالا اور چیخ کر بولا، ’’تم دیوانے ہو کیا؟‘‘
میںنے جواب دیا، ’’ بالکل نہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ ہی میرے ماں باپ ہیں۔میں ایسے دھوکہ نہیں کھا سکتا۔آج اعتراف کر لیں تو میں اس بات کو ہمیشہ اپنے سینے میں راز رکھوں گا۔مجھے آپ سے کوئی شکوہ نہیںہے۔ مجھے جو ہوں وہی رہوں گا، ایک بڑھئ!''
میرا باپ یوں ہی میری ماں کو کندھوں سے تھامے سہارا دیئے دروازے کی جانب بڑھنے لگا۔میری ماں اب ہچکیاں لے کر رونے لگی تھی۔میں نے لپک کر دروازہ مقفل کر دیا اور تالے کی چابی اپنی جیب میں ڈال لی۔پھر میں نے اپنی ماں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’ ان پر ایک نظر ڈالیں اور پھر کہیں کہ یہ میری ماں نہیں ہے‘‘!
اس پر اس کا چہرہ زرد پڑ گیا اور وہ آپے سے باہر ہو گیا۔شائد وہ اس خیال سے خوفزدہ ہو گیاتھا کہ جس راز کو آج تک چھپائے رکھاگیا تھا وہ اچانک کھل کر زمانے بھر کے سامنے آ جائے گا۔اور ایک ہی لمحے میں ان کا نام و نمود، عزت و وقار خاک میں مل جائے گا۔پھر وہ کہنے لگا،’’تم ۔۔۔تم ۔۔۔بدمعاش ہو! تم ہم سے دولت ہتھیانا چاہتے ہو۔اور مدد کرو ان نیچ لوگوں کی!اور مدد کرو ! اور احسان کرو ان پر "
اس دوران میری ماں بد حواسی میں ایک ہی جملہ دہرائے جاتی تھی، ’’چلو یہاں سے! چلو یہاں سے!‘‘ میرے باپ نے جب دروازہ مقفل پایا تو مڑ کر بولا، ’’اگر تم نے اسی وقت یہ دروازہ نہ کھولا تو میں تمہیں دھوکہ دہی اور حبسِ بے جا کے الزام میں قید کروا دوں گا۔‘‘ میں نے سکون سے آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا اور ان کو ڈھلتی ہوئی شام کے سائے میں بھاگتے ہوئے دیکھتا رہا۔مجھے یکایک احساس ہوا کہ میں آج ایک بار پھر یتیم ہو گیا ہوں، ایک بار پھر مجھے لاوارث بنا دیا گیا ہے اور ایک بار پھر مجھے اکیلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ایک ناقابلِ برداشت دکھ، وحشت، بدنامی کے خوف اور کراہت کے احساس نے چاروں طرف سے مجھے کچلنا شروع کردیا۔مجھے اپنے سارے بدن میں سے اس ظلم کے خلاف بغاوت کی ٹیسیں اٹھتی محسوس ہوئیں۔اس ظلم، کمینگی، ذلّت اور اپنی محبت کو دھتکار دئیے جانے کے خلاف! میں ان کے تعاقب میں بھاگ اٹھا۔مجھے معلوم تھا کہ شاطوعؔ کے ریلوے اسٹیشن کو جانے کے لئے وہ دریائے سینؔ کے کنارے والا راستہ لیں گے۔جلد ہی میں نے ان کو جا لیا۔ اب اندھیرا پوری طرح چھا چکا تھا۔میں خاموشی سے ان کے پیچھے جا پہنچا تا کہ وہ میری قدموں کی آہٹ نہ سن پائیں۔میری ماں ابھی تک ہچکیاں لے کر رو رہی تھی۔مجھے اپنے باپ کی آواز آئی، ’’یہ سب تمہاری غلطی ہے۔تم اس کو ملنا ہی کیوں چاہتی تھی؟ ہمارے موجودہ حالات میں تو یہ بہت احمقانہ بات تھی۔ہم دور رہتے ہوئے بھی اس کی مدد کر سکتے تھے۔سامنے آئے بنا۔جب ہم اس کو کبھی اپنا بیٹا کہہ ہی نہیں سکتے تو اس سے یوں ملنے کا کیا فائدہ؟‘‘
میں لپک کر ان کے سامنے جا کھڑا ہوا اور ان سے گڑگڑا کر کہا، ’’دیکھا ! آپ ہی میرے ماں باپ ہیں۔آپ ایک مرتبہ تو مجھے چھوڑچکے ہیں اب کیادوسری مرتبہ پھر مجھے دھتکار دیں گے؟‘‘
پھر جناب ِ عالی، میرے باپ نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا۔میں قسم اٹھاتا ہوں، اپنی عزت کی،قانون اور عدالت کے سامنے میں قسم اٹھاتا ہوں کہ اس نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا۔ جب میں نے اس کے کوٹ سے پکڑنے کی کوشش کی تو اس نے اپنی جیب سے ریوالور نکال لیا۔
میری آنکھوں میں خون اتر آیا۔پھر مجھے کچھ احساس نہ رہا۔میری جیب میںپرکار ہوتی تھی۔ میں نے وہی نکال کر اس پر پے درپے وار کردئیے۔میری ماں نے چیخنا شروع کر دیا ، ’’بچاؤ! قاتل!‘‘اور میرے بال کھینچنا شروع کر دیا۔ تب شائد میں نے اس کو بھی مار ڈالا۔مجھے کچھ معلوم نہیں کہ میں نے اس وقت کیا کیا تھا؟بعد میں جب میں نے ان دونوں کو وہاں پڑے دیکھا تو سوچے سمجھے بغیر ان کو دریا میں پھینک دیا۔
بس۔اب اپنا فیصلہ سنائیے!‘‘
ملزم بیٹھ گیا۔اس انکشاف کے بعد عدالت اگلی سماعت تک برخاست کر دی گئی۔جو عنقریب ہونے والی ہے۔اگر ہم جیوری کے ارکان ہوتے تو اس مادر کشی اور پدر کشی کے جرم کا کیا فیصلہ کرتے ؟
نوٹ :
موسیو گریویؔ 1879 فرانس کے صدر تھے۔موسیو گمبیتہؔ دائیں بازو کے ایک سیاستدان تھے جو اس کہانی کی اشاعت کے چند روز بعد ہی وفات پا گئے۔
Original Title: Un parricide
Written by:
Guy de Maupassant (5 August 1850 – 6 July 1893) was a French writer, remembered as a master of the short story form, and as a representative of the naturalist school of writers, who depicted human lives and destinies and social forces in disillusioned and often pessimistic terms.
نوٹ:
یہ کہانی شوکت نواز نیازی کے ترجمہ کردہ گی دموپاساں کے افسانوں کے مجموعے "پینتیس شامیں موپاساں کے ساتھ" سے لی گئی ہے۔ اس مجموعے میں موپاساں کے 35 بہترین افسانے ، موپاساں کے جامع تعارف کے ساتھ شامل ہیں۔ موپاساں کی مزید کہانیوں کے مطالعہ کے لیے اس مجموعے کودرج ذیل پتہ سے خریدیں۔
خریداری کے رابطہ کریں۔
اسد آصف، سٹی بک پوائنٹ، کراچی۔ 03122306716
اشرف بک ایجنسی، کمیٹی چوک، راولپنڈی۔
نیشنل بک فاؤنڈیشن، جی -8، اسلام آباد