جزبہ خندیدن برایم چارہ دیگر نماند
سخت مشکل بود انور درد پنہاں داشتن
انتساب
عدیلہ اور راشد
کے نام
پہلی بات
قطعہ – ایک سانس کی صنفِ سخن ہے، اس کا تقاضا ہے کہ سانس نہ اکھڑے، اس لئے یہ تکلمی کوشش بڑی ریاضت مانگتی ہے، اِس ریاضت کے لئے بڑی فرصت درکار ہے – اور – فرصت کبھی اے کاش میسر ہوتی !
اِس دَور میں آتی جاتی سانس کا جو عالم ہے، سب پر آشکار ہے، تفکرات میں گھرِی ہوئی خلقِ خدا کو کسی بہانے مسرت اور طمانیت کا ایک لمحہ بھی میسر آجائے تو میرے نزدیک یہ بھی غنیمت ہے – اور اگر – ان قطعات کے مطالعے سے کسی دل میں احتساب کی کوئی کرن پھوٹ پڑے تو میں سمجھوں گا کہ میری یہ حقیر کوشش رائیگاں نہیں گئی.
اس کتاب کی ترتیب وتسوید کے سلسلے میں پروفیسر توصیف تبسم کے پرخلوص تعاون کا بے انتہا ممنون ہوں، جن قطعات کو کتاب بدر کرنا ضروری تھا ان کی نشاندہی کرنے میں توصیف صاحب نے کوئی رعایت نہیں برتی اس لئے کہ پروفیسر موصوف کی حِس نقد کسی ادھار کی محتاج نہیں.
کتاب کی اشاعت کے سلسلے میں، میں پروفیسر حفیظ تائب، جناب ايوب محسن، اور پروفیسر جلیل عالی کے تعاون اور تشویق کا بھی از حد شکر گزار ہوں.
میرے بے تکلف دوست شیخ عبد الرشید سیٹھی اس کتاب کی طباعت کے بارے میں مجھ سے بھی زیادہ شتاب زدگی کا شکار تھے، لہذا کوتاہیوں کی ساری تہمتیں میں ان کے ذمے دھرتا ہوں.
انور مسعود
تائیدِ ضمیر
پروفیسر انور مسعود اردو اور پنجابی کے ممتاز اور مشہور شاعر ہیں، فارسي زبان پر بھی اُن کو حیرت انگیز تخلیقی دسترس حاصل ہے، آج ہمارے ملک میں شاید چند ہی ایسے شعرا موجود ہوں جو فارسی، اردو، اور پنجابی تین زبانوں میں اُن کی سی منزلت اور قدرت رکھتے ہوں، وہ صرف ایک ممتاز ومشہور شاعر ہی نہیں بے حد محبوب ومقبول شاعر بھی ہیں، ملک کا کوئی قابلِ ذکر ادبی میلہ ان کی شرکت کے بغیر ارباب ذوق کے لئے قابلِ قبول نہیں ہوتا، اتنا مشہور ومقبول شاعر قابلِ تشریح تو ہوسکتا ہے محتاجِ تعارف ہرگز نہیں ہوتا اب وہ شہرت ومقبولیت کے اس مقام پر ہیں کہ دوسرے لوگ ان کے تذکرے سے اپنے تعارف کا وسیلہ ڈھونڈتے ہیں.
مشاعروں کے اسٹار شاعروں کی بات اگر فلمی حوالے سے کی جائے تو میں انور مسعود کو شاعروں کا دلیپ کمار کہوں گا مگر شاعروں کے اِس دلیپ کمار کا محض چہرہ ہی تاثر آفریں نہیں، گل افشانیِ گفتار ہی سِحر انگیز نہیں، اس کی روح بھی تابدار ہے اس کا شعر جتنا مشاعرے میں چمکتا ہے اتنا ہی کاغذ پر بولتا ہے، اس کی شاعری برگد کے درخت کی طرح بہت چھتنار، اُونچی اور گہری ہے، وہ مشاعرے ہی نہیں لُوٹتا دلوں کو بھی تسخیر کرتا ہے.
انور مسعود کی مزاحیہ پنجابی شاعری کا ایک مجموعہ “میلہ اکھیاں دا” ملک میں اس قدر مقبول ہوچکا ہے کہ اس کی اکثر نظمیں کتاب کی اشاعت سے پہلے ہی مشاعروں کے حوالے سے بے شمار لوگوں کو ازبر ہوچکی تھیں، اب “قطعہ کلامی” کی صُورت میں اُن کے فکاہیہ اور طنزیہ اردو قطعات اہلِ نظر کے سامنے آرہے ہیں، میرے لئے یہ انتہائی اِعزاز ومسرت کی بات ہے کہ اس کاپیش لفظ لکھنے کی سعادت میرے حصے میں آئی.
انور مسعود نے اپنے سفرِ سخن کا آغاز غزل سے کیا تھا اور آج کے عصری ادب میں اُس کی غزل اپنے مخصوص لہجے اور معنوی فضا کے لحاظ سے الگ پہچانی جاتی ہے میرے نزدیک اُس کی غزل کا مطالعہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ اگر غزل کی زمین پر اُس کے قدم مضبوطی سے نہ جمے ہوتے تو مزاح کی زمین اُس کے قدموں تلے آنے ہی نہ پاتی، اِس لئے اُس کے چند اشعارِ غزل ملاحظہ فرمائیے:
اُس نے پیکر میں نہ ڈھلنے کی قسم کھائی ہے
اور مجھے شوقِ ملاقات لئے پھرتا ہے
دل جو ٹوٹے گا تو اِک طرفہ چراغاں ہوگا
کتنے آئنوں میں وہ شکل دکھائی دے گی
کتنا آسان ہے تائید کی خُو کر لینا
کتنا دشوار ہے اپنی کوئی رائے رکھنا
یہی اندازِ دیانت ہے تو کل کا تاجر
برف کے باٹ لئے دھوپ میں بیٹھا ہوگا
اِس وقت وہاں کون دھواں دیکھنے جائے
اخبار میں پڑھ لیں گے کہاں آک لگھی تھی
زہر ایجاد کرو اور یہ پیہم سوچو
زندگی ہے کہ نہیں دوسرے سیاروں میں
تم اپنے نشیمن کی بھی اب خیر مناؤ
آندھی ہے تو بیگانۂِ آداب تو ہوگی
تو کیا چھپا رہا ہے میرا ہاتھ دیکھ کر
اے کف شناس میں بھی قیافہ شناس ہوں
کیا کروں اس کی طرح میں نہیں بد خو ورنہ
سو بہانے ہیں اگر بات بڑھانا چاہوں
سنجیدہ اشعار کے نمونے ہم نے پہلے لکھے کہ انور مسعود نے شعر گوئی کا آغاز سنجیدہ شاعری سے کیا، طنز ومزاح کے نمونے آپ کے سامنے ہیں.
زندگی کی جو دھوپ چھاؤں شاعر کی تصنیفِ جاں پر اثر انداز ہوتی ہے وہ اس کی تصنیفِ شعری میں بھی ضرور منعکس ہونی چاہیئے، میرے نزدیک کسی تخلیقی فن پارے کا منصفانہ تجزیہ مصنف کی زندگی کی روشنی ہی میں کیا جاسکتا ہے، ہم وہ ہیں جو ہم رہ چکے ہیں، ہم وہ ہیں جو آگے چل کر ہوں گے، ہم اپنے آپ سے بھاگ نہیں سکتے، نپولین نے جب اپنے بیٹے سے کہا تھا کہ – “میرے بیٹے مجھ سے کچھ منسوب نہ کرنا سوائے میرے نام کے” تو اُس کے شعور میں شاید اپنی زندگی کا راستہ چمک رہا ہو.
انور مسعود 1935ء میں گجرات میں پیدا ہوئے (یہ سال کوئٹے کے ہولناک زلزلے کے باعث بھی ناقابلِ فراموش ہے) بچپن کا کچھ زمانہ گجرات میں گزرا اور کچھ لاہور میں، 1947ء میں لاہور سے گجرات واپس آکر میٹرک پبلک ہائی سکول سے اور ایف اے اور بی اے کے امتحانات زمیندار کالج گجرات سے پاس کئے، ایم اے فارسی کی سند فضیلت یونیورسٹی اورئنٹیل کالج لاہور سے حاصل کی، ایف اے میں سکالر شپ حاصل کیا، بی اے میں کالج میں پہلی پوزیشن کے ساتھ رول آف آنر كي اعزازي سند حاصل كي، ایم اے فارسی میں پنجاب یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے پر یونیورسٹی کی طرف سے طلائی طمغہ حاصل کیا (چاندی اور کانسی کے تمغوں کا ایک تھیلہ الگ بھرا رکھا ہے) گجرات اور جہلم کا درمیانی فاصلہ ہی کتنا ہے، زمیندار کالج سے میرے اپنے خاندانی روابط بہت پرانے اور گہرے رہے ہیں، چند برس پہلے تک اس کالج سے بی اے کے طلبہ کی کوئی ایسی کھیپ نہیں گزری جس میں میرے خاندان کا کوئی نوجوان فیل نہ ہوا ہو.
انور مسعود کو میں نے زمیندار کالج کے طالب علم کی حیثیت سے بھی دیکھا ہے، وہ اپنے کالج کا ملک الشعراء تھا، پنجابی زبان کے بزرگ شاعر حضرت پیر فضل گجراتی مرحوم، جن کا فیضانِ صحبت ان کو حاصل رہا، میرے کرم فرما تھے، اسی کالج کے ایک فاضل استاد پروفیسر چودھری فضل حسین میرے بے تکلف دوست ہیں، انور مسعود ان کا شاگردِ رشید ہے، ان اصحاب سے بھی اس کا تذکرہ سننے میں آتا رہا، پھر جب یہ خود پروفیسر ہوکر راولپنڈی میں مقیم ہوئے تو گزشتہ کئی برسوں سے سفر وحضر میں یکجائی کی صورتیں اکثر میسر آتی رہتی ہیں، انور مسعود کا بچپن انتہائی عسرت میں گزرا، طویل نا مساعد حالات میں اس نے اپنی تعلیم بھی جاری رکھی اور دگرگوں حالات کے پیدا کردہ مسائل کا بوجھ بھی اپنے کندھوں پر اٹھائے رکھا.
ان کے اپنے خاندان میں ان کے تایا مولانا عبد اللطیف افضل ایک عالمِ دین ہیں اور اردو اور پنجابی کے شاعر بھی، ان کی نانی محترمہ کرم بی بی عاجز مرحومہ بھی شاعرہ تھیں جو انور مسعود کے الفاظ میں “بہت عالمِ متقی، اور بہت دُکھی خاتون تھیں” اُن کا مجموعہ کلام “گل وگلزار” کے نام سے شائع ہوا.
انور مسعود اپنے اساتذہ کا ذکر انتہائی ارادت اور شیفتگی سے کرتے ہیں، پروفیسر چودھری فضل حسین کے علاوہ زمیندار کالج کے انگریزی کے پروفیسر سید حامد حسن کا بھی انور مسعود کے ادبی ذوق کی تربیت میں بڑا حصہ رہا ہے، اورئنٹیل کالج میں وہ پروفیسر سید وزیر الحسن عابدی مرحوم سے بطور خاص متاثر ہوے، پروفیسر عابدی لسانیات کے بے نظیر سکالر تھے، ادب کے طالب علم جانتے ہیں کو وہ لفظ کی توانائی کو زندگی کی سب سے بڑی قوت سمجھتے تھے، عابدی مرحوم کی زبان شناسی کا فیضان انور مسعود کے فن کی نمایاں خصوصیت ہے.
انور مسعود کی مجلسی پھلجڑیاں شگفتگی اور برجستگی میں اپنی مثال آپ ہیں، اُن کی طبیعت میں بجلی کی سی تیزی اور براقی اًن کے خاندانی ورثے کا کرشمہ بھی ہوسکتا ہے وہ یوں کہ بجلی کے پنکھے گجرات میں سب سے پہلے اُنہی کے خاندان نے بنائے، یہی نہیں بلکہ جب تک ان کے اجداد گاؤں میں مقیم رہے وہ بندوق سازی کے فن میں بھی صاحبان کمال مانے جاتے تھے.
شعر میں اُسلوبِ اظہار کی اہمیت (بلکہ میرے نزدیک فوقیت) سے انکار نہیں کیا جاسکتا، انور مسعود کے فن میں محنت، ہنر مندی اور پالش کاری کی جو سندرتا اور جلا نظر آتی ہے، میں خیال کرتا ہوں کہ یہ جوہر اُس کی ذاتی زندگی کی عطا ہے.
یہاں پر اُس کی برجستہ گُوئی کی چند مثالوں کا بیان بے محل نہ ہوگا کہ ہمارا مقصود اُس کی حسِ ظرافت کا جائزہ لینا ہی تو ہے، یہ چُونچال پن شروع ہی سے اُس کی طبیعت کا خاصہ رہا ہے.
کسی موقع پر بی اے کی کلاس میں مصحفی کے یہ دو شعر پڑھے گئے:
پانی بھرے ہے یاروں اک قرمزی دوشالا
لنگی کی سج دِکھا کر سقنی نے مار ڈالا
کاندھے پہ مَشک دھر کر جب قدم کو خم کرے ہے
ظالم کا حُسنِ کافر ہوجائے ہے دوبالا
انور مسعود نے فی البدیھہ تیسرا شعر جڑدیا:
جس دن سے کامنی کو دیکھا ہے پانی بھرتے
میرے گلے سے آگے جاتا نہیں نوالا
اورئنٹیل کالج کا یہ لطیفہ اُس کے کئی ہم دَرسوں کو یاد ہوگا کہ ایک روز مرحوم پروفیسر وزیر الحسن عابدی نے چپراسی سے چاک لانے کے لئے کہا کہ وہ بلیک بورڈ پر کچھ لکھ کر سمجھانا چاہتے تھے، چپراسی بہت سے چاک جھولی میں ڈال کر لے آیا اس سے پہلے کہ عابدی صاحب چپراسی کی “چاک آوری” پر ناراض ہوتے، انور مسعود نے چپراسی کی جھولی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
“سر! دامنِ صدچاک اِسی کو کہتے ہیں؟”
انور مسعود جب مطالعاتی دورے پر ایران گئے ہوئے تھے تو ایک دعوت میں ایک خاتون نے اُن کو ماست (دہی) کا پیالہ پیش کیا، دہی نکالتے ہوئے کچھ دہی انور مسعود کے کپڑوں پر جا پڑا تو اُنہوں نے برجستہ کہا: از ماست کہ برماست..
مجھے کسی ناقدانہ دیدہ وری کا دعوی نہیں، میں اتنا محسوس کرتا ہوں کہ آپ تخلیقات کو فنکار کی زندگی سے الگ کر کے نہیں دیکھ سکتے، میں سمجھتا ہوں کہ انور مسعود کو طنز ومزاح کی طرف اس کی ذاتی زندگی نے مائل کیا ہے کہ انقلاب بے معنویت اور مایوسی سے بھی جنم لیتا ہے – اور مزاح بقول کسے – رکے ہوئے آنسوؤں کا نام ہی تو ہے، میرے نزدیک انور مسعود کی فکاہیہ شاعری کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس سے دل کو آسودگی اور دماغ کو توانائی ملتی ہے، وہ زندگی کے سفر کو ہلکا بھی کرتی ہے اور شدائد کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ بھی دیتی ہے.
طنز ومزاح کی شاعری میں انور مسعود نے شاید پہلی مرتبہ ایک ایسا لطیف جال بن کر بچھایا ہے کہ نہ بڑی مچھلی اس کو توڑ سکتی ہے اور نہ چھوٹی مچھلی نظر بچا کر نکل سکتی ہے، اُس نے جبر واستحصال کے مختلف مظاہر کو اپنے نشتروں کا ہدف بنایا ہے اور جہالت کے خلاف بھی پوری قوت سے جہاد کیا ہے وہ ایک بالغ نظر شاعر ہے، وہ جانتا ہے کہ جہالت کا دوسرا نام زندوں کی موت ہے، اُس کا فن دل آویز ہے، اُس کے اظہار میں کوئی جھول نہیں ہوتی، اُس کے اکثر شعر شیشے کے ایک ہی تختے سے تشکیل پاتے ہیں، مجھے وہ فلسفے اور آرٹ کے اس سنگم پر نظر آتا ہے جہاں فلسفہ عالم بناتا ہے اور ادب انسان.
وہ مینار کی تعمیر اور کردار کی تشکیل کے فرق سے واقف ہے، اُس کے اسلوب میں ایسی تازگی اور بے ساختگی کا احساس ہوتا ہے کہ جیسے وہ “سیکنڈ ہینڈ” الفاظ لکھتا ہی نہ ہو، انور مسعود کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اظہار اور ابلاغ کی سطح کو قائم رکھتا ہے، ناہمواریوں پر اس کا تبصرہ بڑا ہموار ہے، طنز ومزاح کے حوالے سے میں یہ بات کسی ہچکچاہٹ کے بغیر کہنا چاہتا ہوں کہ جس تخلیقی فنکاری سے انور مسعود نے کشمکش کو شگفتگی بنادیا ہے اُس کی مثال اکبر الہ آبادی کے بعد اردو کی فکاہیہ شاعری میں ایک عہد آفریں اضافہ ہوا ہے، ان مزاحیہ قطعات کے مطالعے کے دوران میری روح پر ایک ایسی شبنم قطرہ زن رہی ہے جیسے وہ سرگوشی کر رہی ہو کہ خدا کی بہترین تخلیق خوبصورت پھول یا خوبصورت عورت ہی نہیں – سچا شاعر بھی خدا کی بہترین تخلیق ہے.
سید ضمیر جعفری
959 – رمنا 4/9
اسلام آباد
ڈیپ فریزر
دفعتہًً انور خیال آیا ہے آج اِس مُرغ کا
شوربہ پینے کے بعد اور بوٹیاں کھانے کے بعد
اللہ اللہ ایک برقی سَرد خانے کے طفیل
اِس نے کتنی عمر پائی ہے ذبح ہوجانے کے بعد
پدر تمام کند
بھینس رکھنے کا تکلف ہم سے ہوسکتا نہیں
ہم نے سُوکھے دودھ کا ڈبا جو ہے رکھا ہوا
گھر میں رکھیں غیر محرم کو ملازم کس لئے
کام کرنے کے لئے اَبا جو ہے رکھا ہوا
کلچرڈ
ذرا سا سونگھ لینے سے بھی انور
طبیعت سخت متلانے لگی ہے
مہذب اِس قدر میں ہوگیا ہوں
کہ دیسی گھی سے بو آنے لگی ہے
زُبدۂُ الخُطبا
درپئے تقریر ہے اِک واعظِ گنبد گلو
لاؤڈ اسپیکر بھی اُس کے سامنے موجود ہے
نیند کا طالب ہے اِک بیمار بھی ہمسائے میں
“کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے”
لاری میں لارا
رہے گا یاد فقط ایک کاغذی پُرزہ
بھرے جہاں میں پھر اور کچھ نہ سُوجھے گا
عجیب دُشمنِ لطفِ سفر ہے کنڈکٹر
مری رقم کا بقایا ٹکٹ پہ لکھ دے گا
ٹیکسال
ہے ایک چیزِ تیز میں اِک چیز تیز تر
موجِ خرام یار سے بڑھ کر کہیں جسے
پہلی تو شے وہی ہے کہ ٹیکسی ہے جس کا نام
اور دوسری وہ چیز کہ میٹر کہیں جسے
توفیق
چاند کو ہاتھ لگا آئے ہیں اہلِ ہمت
اُن کو یہ دُھن ہے کہ اب جانبِ مریخ بڑھیں
ایک ہم ہیں کہ دکھائی نہ دیا چاند ہمیں
ہم اِسی سوچ میں ہیں عید پڑھیں یا نہ پڑھیں
اسپیشلسٹ
دل کی بیماری کے اِک ماہر سے پوچھا میں نے کل
یہ مرض لگتا ہے کیوں کر آدمی کی جان کو
ڈاکٹر صاحب نے فرمایا توقف کے بغیر
“دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو”
یادش بخیر
کزرا ہوں اُس گلی سے تو پھر یاد آگیا
اُس کا وہ اِلتفات عجب اِلتفات تھا
رنگین ہوگیا تھا بہت ہی معاملہ
پھینکا جب اُس نے پھول تو گملا بھی ساتھ تھا
ایک صابن کی اعلی کوالٹی دیکھ کر
میں اِسے کھاؤں کہ اب اِس سے نہاؤں انور
فیصلہ ہو نہ سکا جسم کے تر ہونے تک
کتنا رقبہ تھا جو اَب رہ گیا ٹافی جتنا
ہائے کیا گزری ہے صابن پہ سُپر ہونے تک
انشورنس ایجنٹ
آپ کرائیں ہم سے بیمہ چھوڑیں سب اندیشوں کو
اِس خدمت میں سب سے بڑھ کر روشن نام ہمارا ہے
خاصی دولت مل جائے گی آپ کے بیوی بچوں کو
آپ تسلی سے مَرجائیں باقی کام ہمارا ہے
تُرکی بہ تُرکی
اپنی زوجہ سے کہا اِک مولوی نے نیک بخت
تیری تُربت پہ لکھیں تحریر کس مفہوم کی
اہلیہ بولی عبارت سب سے موزوں ہے یہی
دفن ہے بیوہ یہاں پر مولوی مرحوم کی
احسان مند
اِک زخمیِ شدید دمِ مرگ کہہ گیا
وقت اُس کے پاس گرچہ بہت ہی قلیل تھا
بس پر سوار ہو کے میں فارغ ہوا شتاب
“ورنہ سفر حیات کا بے حد طویل تھا”
الحاجِ محقق
کٹا ہے حجِ کعبہ کا سفر بھی
سرور وکیف کے ساغر لُنڈھاتے
یہیں گاڑی میں حُقہ مِل گیا تھا
کراچی تک گئے ہیں کَش لگاتے
کربِ کبیرہ
اُسے سوجھے گی نارنگی نہ گاڑی
اِسی تکلیف میں کھویا رہے گا
سُنادو کوئی نثری نظم اُس کو
کبیرا حشر تک روتا رہے گا
صباحت وملاحت
یہاں کلچے لگائے جا رہے ہیں
نمک کیوں لائیے جاکر کہیں سے
اُٹھا کر ہاتھ میں میدے کا پیڑا
“پسینہ پونچھئے اپنی جبیں سے”
جوابِ با صواب
اُستاد نے شاگرد سے اِک روز یہ پوچھا
ہے جمعہ مُبارک کی فضیلت کا تجھے علم
کہنے لگا شاگرد کہ معلوم ہے مجھ کو
ریلیز اسی روز تو ہوتی ہے نئی فلم
مضروب
جو چوٹ بھی لگی ہے وہ پہلی سے بڑھ کے تھی
ہر ضربِ کربناک پہ میں تِلمِلا اُٹھا
پانی کا، سوئی گیس کا، بجلی کا، فون کا
بِل اتنے مِل گئے ہیں کہ میں بِلبِلا اُٹھا
موو ایبل پراپرٹی
تبصرے ہوں گے مرے عہد پہ کیسے کیسے
ایک مخلوق تھی میراثِ رواں چھوڑ گئی
پھونکتی رہتی تھی پٹرول بھی تمباکو بھی
ہائے کیا نسل تھی دُنیا میں دھواں چھوڑ گئی
انتظارِ ساگر کھینچ
گھر میں ٹونٹی ہے اِک کمیٹی کی
جس کے نیچے دھرا ہے ایک گھڑا
اور بہلا رہے ہیں روزہ ہم
“قطرہ قطرہ بہم شود دریا”
امرِ واقعہ
لُطفِ نظارہ ہے اے دوست اِسی کے دم سے
یہ نہ ہو پاس تو پھر رونقِ دُنیا کیا ہے
تیری آنکھیں بھی کہاں مجھ کو دکھائی دیتیں
میری عینک کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
حق بہ حقدار
بہ کیفیتِ وجد گفتم شبے
گلوے خوش آہنگ قوال را
سزاوارِ ایں شاعری من نِیَم
سپردم بتو شعرِ اقبال را
بیچ اِس مسئلے کے
جو ہے اوروں کی وہی رائے ہماری بھی ہے
ایک ہو رائے سبھی کی یہ کچھ آسان نہیں
لوگ کہتے ہیں فرشتہ ہیں جنابِ واعظ
ہم بھی کہتے تو یہی ہیں کہ وہ انسان نہیں
باتیں اور ملاقاتیں
آؤ اُس کے اصل گورے رنگ سے
اب تصور میں ملاقاتیں کریں
آؤ پھر ماضی کی یادیں چھیڑ دیں
آؤ خالص دودھ کی باتیں کریں
گرانی کی گونج
تیور دکاندار کے شعلے سے کم نہ تھے
لہجے میں گونجتی تھی گرانی غرور کی
گاہک سے کہہ رہا تھا ذرا آئِنہ تو دیکھ
کس مُنہ سے دال مانگ رہا ہے مسور کی
حُسنِ انتظام
ہر ایک عہد میں زندہ ہے میر کا مصرع
کسی سے جس کی صداقت ڈھکی چھپی نہ رہی
نظامِ برق لیا واپڈا نے ہاتھوں میں
“پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی”
کہتا ہوں سچ…
یہی تو ہے بڑی خوبی ہماری
کہیں اِس مُلک میں رشوت نہیں ہے
اور اِس سے بڑھ کے ہے اک اور خوبی
کسی کو جھوٹ کی عادت نہیں ہے
اللہ کسی کو نہ دکھائے
وقفہ گزر گیا کہ قیامت گزر گئی
دس، بیس، تیس بار مجھے دیکھنے پڑے
ٹی وی پہ رات خیر ڈرامہ جو تھا سو تھا
لیکن جو اشتہار مجھے دیکھنے پڑے!
دیدنی
بہت نہیں ہے نئی طرزِ پیرہن سے گلہ
مجھے تو اِس سے فقط ایک ہی شکایت ہے
بٹن وہاں ہے ضرورت نہیں بٹن کی جہاں
وہاں نہیں ہے جہاں پر بڑی ضرورت ہے
الحذر
ملتی نہیں نجات پھر اِس سے تمام عمر
اچھی نہیں یہ چیز دہن میں دھنسی ہوئی
انگلش کی چوسنی سے ضروری ہے اجتناب
“چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی”
کے ایل سہگل کے نام
چارہ جوئی کہ ضروت ہے بنی آدم کی
یہ بھی ایجاد کرے گی ہمیں معلوم نہ تھا
گھاس کا ذائقہ سبزی میں چلا آیا ہے
کھاد برباد کرے گی ہمیں معلوم نہ تھا
جنگل
تماری بھینس کیسے ہے کہ جب لاٹھی ہماری ہے
اب اِس لاٹھی کی زد میں جو بھی آئے سو ہمارا ہے
مذمت کاریوں سے تم ہمارا کیا بگاڑو گے
تمہارے ووٹ کیا ہوتے ہیں جب ویٹو ہمارے ہے
حُسنِ اِتفاق
ہر شکایت کی تلافی ہو رہی ہے دمبدم
کیسی انجانی سی لذت مِل رہی ہے فون سے
ڈوبتے ہی جا رہے ہیں موجِ موسیقی میں ہم
ہوگیا ہے رابطہ قائم کسی خاتون سے
یا الہی
اب اِس سے کوئی بڑھ کے بھی ہوسکتی ہے تکلیف
جائے نہ ادھر دھیان تو پھر دھیان کدھر جائے
ملتا ہے اگر گوشت تو اچھا نہیں ملتا
“اب تو ہی بتا تیرا مسلمان کدھر جائے”
داخلی برآمد
اُجڑا سا وہ نگر کہ ہڑپہ ہے جس کا نام
اُس قریہِء شکستہ وشہرِ خراب سے
عِبرت کی اِک چھٹانک برآمد نہ ہوسکی
کلچر نِکل پڑا ہے منوں کے حِساب سے
ایک بیرا دوسرے سے
اتنے سادہ لوگ میں نے آج تک نہیں دیکھے
چائے پینے کے لئے ہوٹل میں کیسے آگئے
کاغذوں کو بھی بچارے خوردنی سمجھا کئے
پیسٹری کے ساتھ اُس کا پیرہن بھی کھا گئے
اِسے کیا کہیے
روح پرور تھے دُعاؤں کے مقدس زمزمے
ہر حسیں صورت جوابِ آفتاب وماہ تھی
ایک رومانی اور اسلامی سا منظر تھا وہاں
دوستو اِک فلم کی کَل رسمِ بِسم اللہ تھی
ہوئے تم دوست
اِس طرح کر رہا ہے حقِ دوستی ادا
اُس کا خلوص ہے مجھے حیراں کئے ہوئے
مدت سے ہے اناج کا دُشمن بنا ہوا
“مُدت ہوئی ہے یار کو مہماں کئے ہوئے”
فقیر آئے اور بد دُعا کر چلے
تیری خواہش ہے اے میرے دُشمن
عین جنگل میں مُجھ کو شام پڑے
لے مری بد دُعا بھی سُنتا جا
جا تُجھے سی- ڈی – اے سے کام پڑے
تجرید پناہ، علامت مآب
ہمارے شیوۂِ تجرید سے بِدکتا ہے
عجیب شے ہے یہ تفہیمِ شعر سے عاری
علامتوں کے معانی سمجھ نہیں سکتا
بہت غبی ہے، بڑا بے شعور ہے قاری!
ووٹر کی شکایت
غضب ہے آپ کا عملہ بڑی سُستی سے بُھگتاتا ہے لوگوں کو
حضور احساس اُن کی کاہلی کا آپ نے اُن کو دلانا ہے
گزارش ہے ہمارے ووٹ لے کر ہم کو فارغ کیجئے جلدی
ہمیں اس سلسلے میں دوسرے پولنگ سٹیشن پر بھی جانا ہے
کچھ کہاں سب
اک غبارستان برپا کر گئی ہیں موٹریں
گرد کی موجیں اُٹھیں اور ایک طوفاں ہوگئیں
راہرو جتنے تھے سب آنکھوں سے اوجھل ہوگئے
“خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں”
بُوفے
توانائی ہے اور پھرتی ہے جس کے دست و بازو میں
پلیٹ اُس کی ہے، چمچہ اُس کا ہے، ڈونگا اُسی کا ہے
یہ بُوفے ہے یہاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو خود بڑھ کر اُٹھا لے ہاتھ میں مُرغا اُسی کا ہے
دا نندہ
بہ طُلاب اُستاد میداد پند
نباید کزیں نکتہ غافل شوند
کہ در شاہنامہ بفرمود عطار
“بنی آدم اعضاے یکدیگرند”
فی الفور
ابھی ڈیپو سے آجاتی ہے چینی
گوالا گھر سے اپنے چل پڑا ہے
حضور اب چائے پی کر جائیے گا
ملازم لکڑیاں لینے گیا ہے
تسمہ پا
اِن خدا کے بندوں نے، جانے کن زمانوں سے
ہر کنارِ دریا پر چوکڑی جمائی ہے
خضر کا لڑکپن بھی اِن کے سامنے گزرا
ٹول ٹیکس والوں نے کتنی عمر پائی ہے
سرِ راہے
اک عطائی کر رہا تھا ایک مجمع سے خطاب
یاد ہے بس ایک ٹکڑا مجھ کو اُس تقریر کا
بات کیا بانگِ درا میں شیخ سعدی نے کہی!
“صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا”
بندوبست دوامی
ہر اِک چیز فانی ہے مٹ جائے گی
ہے یارا کسے اِس کی تردید کا
مگر پھر بھی باقی رہے گی جو شے
وہ ہے محکمہ ضبطِ تولید کا
وارث خان
اے کاش نہ دیتا مرے اجداد کو دھوکا
وہ دشمنِ دیرینہ وہ مردُود کہیں کا
بے دخل کیا دانہِء گندم نے وگرنہ
میں صاحبِ میراث تھا فردوسِ بریں کا
جمالو
نکل آئی ہے اِک ترکیب آخر
ذرا سا غور کرنے سوچنے سے
کمر باریک ہوگی ڈائیٹنگ سے
اور ابرو موچنے سے نوچنے سے
خوشحال گھرانا
شعبہِء ضبط ولادت کا یہ مقصد ہے فقط
دل گرفتہ، غمزدہ، آزردہ جاں کوئی نہ ہو
“پڑئیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیمار دار
اور اگر مرجائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو”
اٹل
اب یہی ہے فیصلہ مجموعہ چھاپیں گے ضرور
چیز دُنیا سے چھپانے کی کہاں ہے شاعری
غم نہیں ہے ایک بھی نسخہ اگر بِکتا نہیں
بر تراز اندیشنہِء سُود و زیاں ہے شاعری
لوک لاج
لوگ تو رہتے ہیں ہر لمحے ٹوہ میں ایسی باتوں کی
پیار محبت کے ہیں دشمن دل کے ایسے کالے ہیں
دیکھیئے کچھ محتاط ہی رہیئے اس جاسوس زمانے سے
میں بھی بچوں والی ہوں اور آپ بھی بچوں والے ہیں
انگلش
کبھی پھر گفتگو ہوگی کہ یہ سوغاتِ افرنگی
عموماً آدمی کی ذہنیت کیسی بناتی ہے
ابھی اتنا کہے دیتا ہوں انگریزی کے بارے میں
کچھ ایسی ڈھیٹ ہے کمبخت آتی ہے نہ جاتی ہے
پڑھو فارسی
فارسی سے کس قدر رکھتی ہے گہرا رابطہ
تیل کی سیال نعمت اور اس کی سیل بھی
کشورِ ایران اپنا وہ برادر ملک ہے
بولتا ہے فارسی بھی، بیچتا ہے تیل بھی
وسعتِ اطلاق
معنیِ تازہ بہ تازہ کی ضمانت ٹھہرا
کسی مضمون کا غالب سے ادا ہوجانا
آج ٹُونٹی کی لبِ خشک سے شُوں شُوں سُن کر
“باور آیا ہمیں پانی کا ہَوا ہوجانا”
حریفِ سُخن
تجھے ہے شوق بہت مجھ سے بیت بازی کا
یہ سوچ لے مرے پندار سے اُلجھتے ہوئے
شکست ترا مقدر ہے بے خبر کہ مجھے
ہیں شعر یاد بہت لاریوں میں لکھے ہوئے
سرشت
جنت سے نکالا ہمیں گندم کی طلب نے
گوندھی ہوئی گیہوں میں کہانی ہے ہماری
روٹی سے ہمیں رغبتِ دیرینہ ہے انور
یہ نان کومٹ منٹ پُرانی ہے ہماری
خروسِ بے خروش
اے راہرو گزرتی ہوئی ویگنوں میں دیکھ
انساں کی با وقاریاں با اختیاریاں
کیا اِس میں جُھوٹ ہے کہ اِسی ایک رُوٹ پر
مُرغا بنی ہوئی ہیں ہزاروں سواریاں
اے برقی رَو
پنکھے کی رُکی نبض چلانے کے لئے آ
کمرے کا بُجھا بلب جلانے کے لئے آ
تمہیدِ جدائی ہے اگرچہ ترا ملنا
“آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لئے آ”
ہوچُکی ترقی
اپوا کی پُر خلوص مساعی کے با وجود
اب تک ہے اک رویہِء پسماندگی یہاں
انور مجھے تو فکرِ ثقافت نے آ لیا
با پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
بر سرِ خویش
کارِ آساں نیست پُشتِ طشت را آراستن
از چُنیں صورت پریشانیم وحیرانیم ما
حسرتِ ما دیدنی باشد کہ پیشِ آئِنہ
بر سرِ بے مُوےِ خود ہم شانہ گر دانیم ما
ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے
اِک اسم ہے کہ جس کا مسمی کہیں نہیں
ہر گوشہ ہم نے دیکھ لیا ہے سپیس* کا
ڈھونڈا اُسے بہت ہے پہ عنقا نہیں مِلا
ڈیلینگ کلرک ہوگا پرندوں کے دیس کا
* SPACE
کلرک شاعر
کام کی کثرت سے گھبرایا تو اُس کے ذہن میں
کروٹیں لینے لگی ہیں شاعری کی مُمکِنات
اِک ذرا سی میز پر ہیں فائلوں کے چار ڈھیر
فاعلاتن، فاعلاتن، فاعلاتن، فاعلات
فن کار
اے بندۂِ مزدور نہ کر اِتنی مشقت
کاندھے پہ تھکن لاد کے کیوں شام کو گھر آئے
جاکر کسی دفتر میں تُو صاحب کا ہُنر دیکھ
بیکار بھی بیٹھے تو وہ مصروف نظر آئے
جسٹ نو پرابلم
تیل کا مشکل نہیں ہے مسئلہ
وہ ہمیں ایران سے مِل جائے گا
کار بھی جاپان سے آجائے گی
“کار سازِ ما بہ فکرِ کارِ ما”
زمیں جُنبد….
بدلا ہے نہ بدلے گا یہ مزدور کا انداز
سو بار بدلنے کو بدل جائے زمانہ
ہو کام دہاڑی پہ تو سُستی میں ہے بے مثل
ٹھیکے پہ ہو گر کام تو پُھرتی میں یگانہ
محروم کی محرومیاں
کس قدر بے روغنی کاٹی انہوں نے زندگی
کون سمجھے یہ حقیقت غور فرمائے بغیر
توبہ توبہ رفتگانِ دہر کی محرومیاں
کتنی نسلیں مَرگئی ہیں ڈالڈا کھائے بغیر
ٹُھمریہ
لاگا چسکا موہے اِنگریجی کا
میں تو اِنگلس میں ہی لب کھولوں رے
لاگے لاج موہے اِس بھاشا سے
توسے اُردو میں، میں نہیں بولوں رے
بڑ بولا
کل اِک بچوں کی مجلس میں کہا اِک شوخ بچے نے
ہماری تاک میں دشمن بڑے ہشیار بیٹھے ہیں
عزیزو، ساتھیو منصُوبہ بندی کے زمانے میں
“غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دوچار بیٹھے ہیں”
افسر اپنے نائب سے
تیری کوتاہی سے شاید بچ گیا ہو کوئی ایک
ورنہ جو کاغذ بھی ہے انبارِ خاکستر میں ہے
لا اِدھر جلدی اسے بھی داخلِ دفتر کروں
پیش کر غافل کوئی فائل اگر دفتر میں ہے
اشتہاری مُجرم
نصیبوں میں یہ دَور بھی دیکھنا تھا
خدا جانے دُنیا کو کیا ہوگیا ہے
کہ ماں کی محبت بھی خالص نہیں اب
“جہاں مامتا ہے وہاں ڈالڈا ہے”
الحمد للہ کہ اخبار میں اس قطعہ کی اشاعت کے بعد یہ نا معقول اشتہار دیکھنے میں نہیں آیا
بظاہر
آفت کو اور شر کو نہ رکھو جُدا جُدا
دیکھو اِنہیں ملا کے شرافت کہا کرو
ہر اِک لچر سی چیز کو کلچر کا نام دو
عُریاں کثافتوں کو ثقافت کہا کرو
خیر سے
آپ نے صورتِ احوال اگر پُوچھی ہے
ہم بڑی موج میں ہیں آپ کو بتلاتے ہیں
ایسی برکت ہے کبھی گھر نہیں رہتا خالی
کچھ نہ ہو گھر میں تو مہمان چلے آتے ہیں
فطرت
تلون مزاجی ہے اپنا شعار
ہر اِک شے ہمیں بور کر جائے گی
حکومت فرشتوں کی لے آئیے
“طبیعت کوئی دن میں بھر جائی گی”
قومی بجٹ 1979ء
خلائی لیب* کے گرنے سے پہلے
حوادث پیش کتنے آگئے ہیں
اچانک اِک بجٹ آکر گرا ہے
کروڑوں لوگ نیچے آگئے ہیں!
* اُن دنوں بجٹ کے اعلان سے پہلے یہ وحشتناک خبر عام تھی کہ سکائی لیب دُنیا کے کسی بھی حصے پر گر کر اسے تباہ کرسکتی ہے.
بے قائمیِ ہوش وحواس
لوگ کہتے تھے یمن ہے وہ گُہر کا لیکن
اُس کو دیکھا تو وہ موتی کا بدخشاں نِکلا
صرف محفل میں تھا انور کا بجانا فرما
اِک وہی شخص تھا جو مرد کا میداں نکلا
پانچواں فرشتہ
جب یہ عزرائیل سے حق نے کہا روزِ ازل
ہر تنِ زندہ میں اپنا سرد خنجر گھونپ دے
بول اُٹھا ہاتف خداوندا مجھے ہر مرگ پر
مصرعۂِ تاریخ دینے کا وظیفہ سونپ دے
شانہ بہ شانہ
چھوڑ دینا چاہیے خلوت نشینی کا خیال
وقت بدلا ہے تو ہم کو بھی بدلنا چاہیے
یہ بھی کیا مَردوں کی صورت گھر میں ہی بیٹھے رہیں
عورتوں کی طرح باہر بھی نلکنا چاہیے
صرف 12 روپے کلو
سیکھ لیموں سے بہا افزائیاں
سیکھ ادرک سے گرانی کے رمُوز
اے ٹماٹر تُو بھی اپنی قدر جان
“نرخ بالا کُن کہ ارزانی ہنوز”
خود آگاہی
لوگ نہیں سخن شناس ورنہ حقیقتہً مرا
مغزِ کلام اور ہے طرزِ کلام اور ہے
صاحبِ صدر پڑھ چکیں تو میں سناؤں گا غزل
اوروں کا ہے مقام اور میرا مقام اور ہے
من ویزداں
در آں ریختم چوں برنج وشکر من
چہ شیرینیِ بے نظیر آفریدم
من آنم کہ افزودہ ام لذتش را
تو شِیر آفریدی و کھیر آفریدم
ہتک
کل قصائی سے کہا اِک مفلسِ بیمار نے
آدھ پاؤ گوشت دیجے مجھ کو یخنی کے لئے
گُھور کر دیکھا اُسے قصاب نے کچھ اس طرح
جیسے اُس نے چھیچھڑے مانگے ہوں بلی کے لئے
با خبر
اُن کے بارے میں ہے اَپ ٹو ڈیٹ اپنی آگہی
کون سے تھے جن کے ہم زخمِ جُدائی سہہ گئے
شکر ہے نسوار کی ڈِبیا پہ آئینہ بھی ہے
دیکھ لیتے ہیں کہ کتنے دانت باقی رہ گئے
نقشِ فریادی
طرزِ لباسِ تازہ ہے اِک شکلِ احتجاج
فیشن کے اہتمام سے کیا کچھ عیاں نہیں
یہ لڑکیوں کو شکوہ ہے کیوں لڑکیاں ہیں ہم
لڑکوں کو یہ گلہ ہے وہ کیوں لڑکیاں نہیں
شب زندہ دار
پھر بھی وہ چیختے ہی رہے حسبِ قاعدہ
سونے کی اُن کو دی ہیں دوائیں تمام رات
بچوں کے باپ میں ہی کہا ہے ریاض نے
“جاگیں تمام رات جگائیں تمام رات”
عاشقِ صادق
ہر چیز سے لڑ سکتا ہوں میں آپ کی خاطر
کیا شے ہیں یہ آفاتِ سماوی و زمینی
بس اِتنی دُعا کیجئے کل ابر نہ برسے
پھر میرا ملاقات کو آنا ہے یقینی
اے بسا آرزو
روک دیتے ہیں اچانک مرے حالات مجھے
میری خواہش کبھی ہوتی بھی ہے پوری کوئی
خود کُشی کرنے کا جس روز تہیہ کر لوں
کام پڑ جاتا ہے اُس روز ضروری کوئی
حجام سے ایک علم دوست کا التماس
جہاں میں دھوم مچی ہے تری مہارت کی
تُجھی کو ڈھونڈ رہا تھا میں ایک مدت سے
کچھ اس ہنر سے بنا آج تو قلم میری
جسے دوات بھی کہہ لیں بڑی سہولت سے
پراپر چینل
کلرکوں سے آگے بھی افسر ہیں کتنے
جو بے انتہا صاحبِ غور بھی ہیں
ابھی چند میزوں سے گزری ہے فائل
“مقاماتِ آہ وفغاں اور بھی ہیں”
عرضِ ہُنر
کام کرنا ہو تو پھر کیجے ذرا ترکیب سے
کچھ نہ کچھ ہر بات میں درکار ہے ذوقِ ہُنر
صرف تُھوڑا سا ملاوٹ کا قرینہ چاہئیے
چائے کی پتی سے کٹ سکتا ہے بندے کا جگر
جویندہ یا بندہ
رہتی ہے اِسی تاک میں اپنی یہ کمیٹی*
سڑکوں کی کُھدائی کا ملے کوئی بہانہ
شاید یہ کمیٹی کو خبر دی ہے کسی نے
ہے دفن اِسی شہر میں قارون کا خزانہ
* بلدیہ جو اَب ماشاء اللہ کارپوریشن ہے.
گوگو
اے حُسنِ رہگزر یہ جسارت معاف ہو
دیدار کا تھا شوق مجھے، میں ٹھہر گیا
اِذنِ سخن ملے تو میں اِک بات پوچھ لوں
چشمہ لگا کے آپ کا چہرہ کدھر گیا
حلال و حرام
شعرِ ذوقِ خوش بیاں جس وقت یاد آجائے ہے
میرا ذوقِ شعر کچھ ترمیم بھی فرمائے ہے
مُرغ چوری کا بوقتِ ذبح زیرِ پائے ہے
اُس پہ پھر ال”