قصورواقعہ
زینب کا قاتل ابھی تک پکڑا نہیں گیا ،پنجاب حکومت نے کہا ہے کہ چار افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے ،حکومت کو شبہہ ہے کہ انہی چار افراد میں سے کوئی ایک زینب کا قاتل ہو سکتا ہے۔ادھر درندہ قاتل ابھی روپوش ہے ،قصور میں دوسرے روز بھی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا ۔اب وہاں قصور میں رینجرز کو تعینات کر دیا گیا ہے ،اس لئے میڈیا رپورٹس کے مطابق مظاہرین گھروں کو لوٹنا شروع ہو چکے ہیں ۔زینب کے قاتل کی گرفتاری کے بارے میں آج بہت افواہیں گرم رہیں۔احمد رضا قصوری ٹی وی پر تشریف لائے تھے اور فرمایا تھا کہ انہیں چیف جسٹس نے بتایا ہے کہ زینب کا قاتل گرفتار ہو گیا ہے جو کہ زینب کا قریبی رشتہ دار ہے ۔لیکن سپریم کورٹ کی طرف سے اس بات کی تصدیق نہیں کی گئی اور نہ ہی چیف جسٹس نے اس بات کی تصدیق کی ہے ۔ادھر آئی جی پنجاب نے گزشتہ روز میڈیا کو بتایا کہ پولیس نے 272 افراد کو حراست میں لیا ہے جن سے پوچھ گچھ جاری ہے ۔ادھر میڈیا پر یہ بھی کہا گیا کہ ملٹری انٹیلی جنس نے ایک شخص کو گرفتار کیا ہے جس کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ زینب کا قاتل ہے ۔ملٹری انٹیلی جنس نے اس کی تصدیق نہیں کی ۔گزشتہ روز آٹھ سالہ ملیحہ جس کی چار جنوری کو لاش ملی تھی ،اس کے قاتل کو شیخوپورہ پولیس نے ہلاک کردیا ہے ،مبینہ قاتل کانام شہزادہ عارف راجہ تھا ،کچھ میڈیا رپورٹس کے مطابق شہزادہ عارف راجہ کو اس کے دوستوں نے فائرنگ کرکے ہلاک کیا ،اور روشنی کا فائدہ اٹھا کر پولیس کو چغمہ دیکر فرار ہو گئے ۔اسی طرح گزشتہ روز سرگودھا کے علاقے تصور آباد میں پندرہ سالہ لڑکی کی لاش ملی ،پولیس کے مطابق پندرہ سالہ لڑکی کے قاتل دو ملزموں کو گرفتار کیا گیا ہے ،ملزموں نے جرم کا اعتراف کرلیا ہے ۔اسی طرح گزشتہ روز قصور کے علاقے ڈھولن میں ایک گیارہ سالہ لڑکے کی لاش گنے کے کھیت سے ملی ہے ،اس معصوم کو بھی جنسی درندگی کے بعد قتل کیا گیا ۔شارق دو دن پہلے لاپتہ ہوا تھا اور اب اس کی لاش ملی ہے ۔گزشتہ روز زینب کے قتل کی پوسٹ مارٹم رپورٹ جاری کردی گئی ہے ۔پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زینب کی موت گلہ گھٹنے سے ہوئی ۔رپورٹ کے مطابق جب سے لاش ملی ہے ،اس سے تین دن پہلے زینب کو قتل کیا گیا تھا ۔معصوم زینب جار جنوری کو اغواٗ ہوئی تھی ،وہ تین دن زندہ رہی ۔ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ زینب کی فرینزک رپورٹ آنے میں تین ماہ لگ سکتے ہیں ۔زینب کے قاتل کی گرفتاری پر ایک کروڑ انعام رکھا گیا ہے ۔خادم اعلی پنجاب کے مطابق متاثرین کو تیس لاکھ روپیئے دیئے جائیں گے ۔اب قصور پولیس حکام کہہ رہے ہیں کہ جس طرح جنسی تشدد کرکے بچوں کو قتل کیا جارہا ہے ،یہ افسوسناک ہے ،دو سو پولیس حکام اس حوالے سے تفتیش کررہے ہیں ،قصور کے دو کلومیٹر کے علاقے میں تیرہ بچیاں جنسی درندگی کانشانہ بنیں ،دو سو پولیس حکام تفتیش کررہے ہیں ،لیکن ملزم ہاتھ نہیں لگ رہے ،یہ بھی اپنی جگہ ایک بہت بڑا سانحہ ہے ۔۔۔۔سی سی ٹی وی کیمرہ اگر اچھی کوالٹی کا ہوتا تو ملزم اب تک پکڑا جاچکا ہوتا ،لیکن میڈیا رپورٹ کے مطابق کیونکہ سی سی ٹی وی کیمرہ کی کوالٹی اچھی نہیں تھی ،اس لئے ملزم کی شناخت نہیں ہو پائی ۔گزشتہ روز بھی زینب کے قتل پر پورے پاکستان کے مختلف شہروں میں مظاہرے ہوتے رہے ۔کراچی،اسلام آباد وغیرہ میں مظاہرے ہوئے ۔زینب کے قتل کے بعد اب لوگ کھل کر جنسی تشدد اور درندگی کی بات کررہے ہیں ،پاکستان کے شوبز اسٹارز بھی اس حوالے سے احتجاج کرتے نظر آئے ۔کراچی میں ماہرہ خان ،ساحر لودھی وغیرہ احتجاج کا ھصہ تھے ۔پاکستان کے معروف شوبز اسٹار شہزاد رائے جو خود کافی عرصے سے چائلڈ رائیٹس پر بات کررہے ہیں اور کام کررہے ہیں ،کراچی میں انہوں نے اس حوالے سے پریس کا نفرس کی ،جس میں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہر پانچواں بچہ جنسی درندگی کا شکار ہے ،بچوں پر جو جنسی تشدد میں ملوث ہوتے ہیں وہ گھر کے لوگ یا رشتہ دار پڑوسی ہوتے ہیں ،ان کا کہنا تھا کہ زینب تو چلی گئی ،ان بچوں کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے جو ہر روز اس جہنم سے گزرتے ہیں ،جن کے ساتھ ہر روز جنسی تشدد ہوتا ہے ۔یہ بچے ماں باپ کو اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے بارے میں بتاتے ہیں ،تو ماں باپ انہیں چپ کرادیتے ہیں ،وہ بچے زندہ لاش ہیں ،ان کے بارے میں بھی سوچنے کی ضرورت ہے ۔ان کا کہنا تھا سرکاری اور بجی اسکولوں کے نصاب میں شامل کیا جائے کہ گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ کیا ہوتا ہے ،اسی طرح انہیں یہ جنسی تعلیم بچپن سے دی جائے تاکہ وہ کسی کی درندگی کا نشانہ نہ بن سکیں ۔۔ان کا کہنا تھا کہ جب دو ہزار چھ اور سات میں انہوں نے یہ باتیں کی کہ بچوں کو ان کی باڈی کے بارے میں بتایا جانا چاہیئے ،انہیں بتانا چاہیئے کہ اجنبی کون ہوتے ہیں اور رشتہ داروں یا پڑوسیوں ،ملازمین کا بیڈ اور گڈ ٹچ کیا ہے ۔شہزاد رائے کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے یہ باتیں کی تو معاشررے کے کچھ عناصر اور میڈیا نے ان کی مخالفت کی تھی ۔،میڈیا میں یہ کہا گیا تھا کہ یہ جنسی تعلیم ہمارے کلچر کے خلاف ہے ۔جنسی تعلیم کو اس وقت بھی نصاب کا حصہ نہیں بنایا گیا ،امید ہے حکومت اب جنسی تعلیم کو نصاب کا ھصہ بنائے گی ۔اس طرح کے اقدامات نہ کئے گئے تو معصوم بچوں کو جنسی درندگی کا نشانہ بنایا جاتا رہے گا ۔اس کے علاوہ سوشل میڈیا اور کچھ نیوز چینلز پر گزشتہ روز جنسی تعلیم پرپرمغز گفتگو چلتی رہی ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔