زندہ قومیں اورباضمیر ملت اپنی تاریخ کو کبھی بھی پس پشت نہیں ڈالتیں ۔ وہ ہر آن اپنے ماضی کو نگاہ رکھے ہوئے ہوتی ہیں۔ یہی ماضی کے جھروکے اس کے مستقبل کے فانوس بن جاتے ہیں۔شیعہ قوم کی تاریخ مظلومیت سے عبارت ہے ۔ شہادت سے آغاز ہوتی ہےاور ہر زمانہ میں اسی شہادت کا تسلسل بر قرارہا ہے۔ چودہ صدی پر مشتمل تاریخ کا ہر وقفہ اہل بیت کے چاہنے والوں کی مظلومیت میں گزرا ہے۔ عزاداری ہو یا مقدسات عزا کا تحفظ، شہادت کے بغیر نامکمل نظر آتاہے۔ عزاداری کے تعلق سے برصغیر میںجانے کتنے عزادار سرخروئے حق ہوئے اور اسی طرح ائمہ معصومین علیہم السلام کے مقدس مقامات کے تحفظ میں بے پناہ دلاوراپنی جان کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔ گذشتہ برس اسی محافظ گروہ کا سردار قاسم سلیمانی بھی اپنی شہادت سے سرخرو ہوگیا۔
قاسم سلیمانی ایک ایرانی نژاد سپہ سالار تھے ۔ابتدائے عمر میں آپ نے اپنے ملک میں ہی خدمات انجام دیں ۔ انقلاب اسلامی ایران میں آپ کے خدمات قابل ذکر ہیں ۔ اسی طرح بعد کے زمانوں میں بھی اپنے آبائی وطن ’کرمان ‘میں شر پسند عناصر سے نبرد آزمائی میں مشغول رہے ۔ صدام کی جانب سے ایران پر مسلط کردہ جنگ میں آپ کے نمایاں خدمات اپنی مثال آپ ہیں۔ یہی تمام وجوہات باعث بنیں کہ آپ ایرانی فوج اورایرانی حکمران کے دل میں بس گئے ۔ جب ملکی سطح پر آپ کے اعتماد اور بہادری نے دلوں کو جیت لیا تو حکومت ایران نے آپ بیرون ملک خدمات پر بھی مامور کردیا۔
بیرون ممالک تحفظات کا سلسلہ کافی اہم ہے۔ لبنان کی ۳۳؍روزہ جنگ میں آپ شریک رہے ۔ وہاں فوجی خدمات انجام دیں ۔ اس کے بعد سب سے اہم کردار ’داعش ‘کو نیست و نابود کرنےمیں ہے۔دولت اسلامیہ عراق و شام نے جب شام میں اپناعفریتی پنجہ گھاڑدیا اور متعدد مقامات پر قبضہ جمالیا تو بشارالاسد کی حکومت میں شانہ بشانہ رہ کر ملک سے دہشت گرد عناصر کو کمزور کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہتے۔ شام میں بشارالاسد کو حکومتی استحکام پہونچانے میںآپ کا کلیدی کردار رہا ہے۔ جب یہی داعش شام سے عراق کی طرف تجاوز کرگئی تو وہاں حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی کے حکم پر رضاکارانہ فورس ’حشد الشعبی‘کے ساتھ مل کرآپ دشمن سے مقابلہ کرتے رہے ۔ جوانوں کو ٹریننگ دینا اور انہیں دشمن کے مقابلہ میں آمادہ کرنے میں آپ نے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں چھوڑا۔
لبنان ہو ، شام ہو یا پھر عراق ہر جگہ آپ نے داعش کے مقابلہ میں ان ممالک کی بھرپورفوجی مدد کی ہے اور ان کے شانہ بشانہ کھڑے رہے کیوں کہ قاسم سلیمانی کا نظریہ تھا کہ ان ممالک سے امریکہ کی فوجیں جگہ چھوڑدیں اور پھر یہ تینوں ممالک ایران کے ساتھ مل کر اتحاد قائم کرلیں ۔ اس طرح ایک اسلامی ممالک یونین کا نظریہ پیش کرنے والے شخص کا نام قاسم سلیمانی قرار پایا۔ یہ نظریہ امریکہ اور اسرائیل کے لیے وبال جان تھا۔ چوں کہ اسرائیل ہر آن’ گریٹر اسرائیل‘کے خواب کو پورا کرنے میں صرف کررہا ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ لبنان، شام ، عراق سمیت اطراف کے تمام ممالک ’گریٹر اسرائیل‘کے نقشہ میں آتے ہیں ۔ اس لیے یا تو یہ ممالک ان کے سامنے تسلیم ہوجائیں یا پھر جنگ کے آمادہ رہیں۔ اسی وجہ سے ان علاقوں میں ایک طویل مدت سے خانہ جنگی رہی ہے۔ فلسطین یا حماس کے حالات ہمیشہ سے خون آلود رہے ہیں ۔ اس کا سبب بھی ’عظیم تر اسرائیل‘ہے۔اردن ،مصر اور دیگر قریبی ممالک اس لیے سکون کے سانس لے رہے ہیں کہ وہاں اسرائیل سے مقابلہ کی کوئی تحریک نہیں اٹھتی اور اب تو حالات بالکل بدل چکے ہیں۔ یو۔ اے ۔ ای سمیت مزیدتین ممالک نے اسرائیل سے ملکی تعلقات بحال کرلیے ہیںاور قاسم سلیمانی سمیت محسن فخری زادہ بھی جام شہادت نوش فرماکرراہی خلد ہوچکے ہیں ، اس لیے ان کی جرأتیں جوان ہوتی نظر آرہی ہیں۔ مگرکب…؟
بہرکیف…!اللہ کا وعدہ پوراہوکررہے گا اور ظالم اپنے انجام کو پہونچے گا اور مظلوم کا خو ن ناحق ضرور رنگ لائے گا۔ دیر یا سویر مگر حق فتحیاب ہوکر رہے گا۔