2008 کی سویر جب میں پوچھتا پاچھتا یہاں پہنچا تو سفیدی میں لتھڑی یہ عمارت انارکلی کامزار توکہیں سےنہیں لگی۔ ایک پل کو گمان گزرا کہ کسی مغالطے میں لاہور چھاؤنی سے ایک صوبیدار اور چھ جوانوں پر مشتمل ایک ’ورکنگ پارٹی‘ یہاں سے گزری ہے اور برسوں کی آزمودہ سکھلائی کے انوسار ہر کھڑی چیز کو چونا اور چلتی چیز کو سلیوٹ پھیر گئی ہے۔
لوئر مال روڈ پر اسلام پورہ لاہور میں واقع یہ پنجاب سول سیکریٹیریٹ کی عمارت تھی۔ میں یہاں شعیب منصور کا سپریم عشق۔2 انارکلی دیکھ کے آیا تھا۔
شعیب منصور کے ہم پرانے پرستار ہیں۔
آپ وہ پارس پتھرہیں کہ جس چیزکو چُھولیں سونابن جاتی ہے۔ کچھ یہی عالم سپریم عشق سیریزکےدوسرےمیوزک ویڈیوکاہے۔
پہلاکمال شبنم مجیدکےکومل سُروں کاجن میں لپٹی گانےکےانترےمیں مخمل میں ٹاٹ کےپیوند کی ماننداٹکی سپریم چائےکی مشہوری کی کڑوی گولی
عشق محبت ’اپنا پن‘
بغیربدمزہ ہوئےہم نےنگل لی۔
لنک
دوسرا کانوں میں شہد گھولتا مہابلی اور شہزادے کا رشکِ فارسی لہجہ
قسم بدولت هند عظیم این تو نخواهد شد
قسم به جمال انار کلی این چنین خواهد شد
اور پھر ویڈیوکے اختتام کی طرف تاریخ کے جھروکوں سے جھانکتا مزار کا مختصر تعارف۔ ہمیں پہلی بار پتہ چلا کہ داستانوں میں جس انارکلی کاذکر آتاہے
لنک
اس کا ایک مزار بھی ہے، وہ بھی اپنے لاہور میں، گردشِ دوراں کے سبب جہاں اب کلرکوں، فائلوں اور ابابیلوں کا بسیرا ہے۔ شعیب منصور سے ہی روایت ہے کہ شام ہوتے ہی مزار عشق کی روشنی میں نہا جاتا ہے مگر وہ منظر دیکھنےکے لیے صاحبِ نظر کا دِل والا ہونا ضروری ہے۔
2008 کی اس دوپہر ہم اپنےاندر کےتاریخ دان کو مار دل ہاتھوں میں لیے کشاں کشاں یہاں چلے آئے تھے کہ بیرونی عمارت پر سفیدی کا لیپ اور مزار کے اندر فائلوں کا قبرستان دیکھ کر سارا عشقیہ تاثر فی الفور جھاگ کی طرح بیٹھ گیا اور پھر ہم خود بیٹھ گئے۔
ہمارے بیٹھنے کی وجہ مزار کے ایک کونے میں ایک جھروکے کے ساتھ احتیاط سے رکھا سنگِ مرمر کا تعویذ تھا۔ تعویذ پر سنگ تراشی کی لڑی میں پرویا خطاطی کا کام اس قدر نفیس تھا کہ بجائے اس کےکہ ہم یہ گتھی سلجھاتے کہ صاحبِ مزار کی قبر مرکز سے ہٹ کر ایک کھڑکی کے نیچے کیا کررہی ہے
ہم بے اختیارسے ہوکر اس لوحِ سنگ کا جائزہ لینےقبر کےپہلو میں بیٹھ گئے۔
صاحبو ہم پنجاب سیکریٹیریٹ کے گنبد تلے ایک طرف کو کھسکی قبر کے اس تعویذ کی طرف پلٹ کے آتے ہیں ذرا ایک نظر انارکلی کی کہانی پر ڈالتے چلیں۔
انارکلی کی داستان ہم تک پہنچانے والے جانے مانے لیکھک امتیاز علی تاج ہیں۔ 1922 میں لکھے اس ڈرامے انارکلی کا پردہ اٹھتا ہے تو ہم خود کو سولہویں صدی کے دربارِ اکبری میں پاتے ہیں۔
وہی جانے پہچانے کردار، اکبرِاعظم، شہزادہ سلیم اور کنیزوں کا جُھرمٹ انارکلی، ثریا، دل آرام اور دوسرے عبدالرحمٰن چغتائی کے برش نے امیتازعلی تاج کےلفظوں کو تصویری قالب میں ڈھالا۔ اینا سوورووا کے الفاظ میں ہم یہاں عشوہ و ناز سے لیس دربارِ اکبری کی مغنیہ کو دیکھ رہے ہیں کسی رومانوی کھیل کی ہیروئن کو نہیں۔
امتیاز علی تاج کے کھیل کو دوام بخشا کے آصف کے شاہکار مغلِ اعظم نے۔ مغلِ اعظم کےحاصلِ فلم سین میں ایک شیش محل ہے، جس کےلاکھ آئینوں سےمنعکس ہوتی قتالۂ عالم مدھوبالاکی سوا لاکھ شبیہیں اورہر شبیہہ میں کنیز کی جنبشِ ابروسےبندھے صاحبِ عالم
اوربغاوت کی بُوپاتےایک جواربھاٹےکو آنکھوں میں سموئےمہابلی
آپ خوددیکھ لیجیے
صاحب یہاں ایک پل کوسانس لینےکوجوٹھہرجائیں تونوشاد کی زبانی ایک کہانی کی خبرلائیں۔ مغلِ اعظم میں فلمائی یہی سچوئیشن انارکلی کےایک گانےمیں فلمائی جاچکی تھی
محبت میں ایسےیہ قدم ڈگمگائے
زمانہ یہ سمجھاکہ ہم پی کےآئے
نوشاد کےاسرارپرکہ سچوئیشن بدل دیجیےکہ گانے کی انفرادیت جاتی رہے گی، کے آصف بولے کہ میں یہاں شیش محل کا سیٹ لگارہا ہوں جو پہلے کسی نے دیکھا نہ سنا، میں تو اس کی چکاچوند میں نکل جاؤں گا آپ اپنا کچھ دیکھ لیجیے۔نوشاد صاحب کہتے ہیں کہ وہ شکیل بدایونی کو ساتھ لے کے کمرے میں بند ہوئےتو سورج غروب ہورہا تھا۔
رات بھرکم وبیش ستر بہتر مکھڑے کہنے کے بعد بھی بات نہ بنی تو یکبارگی نوشاد صاحب کو بچپن میں سنُے ایک بھولے بسرے پُوربی بھاشا کےگیت کے بول یاد آئے
پریم کیا کا چوری کری
شکیل صاحب نے قلم سنبھالا اور نوشاد نے ہارمونیم۔ جب وہ گانا مکمل کرکےکمرے سے باہرنکلے تو باہر دن طلوع ہورہا تھا
پیار کیا کوئی چوری نہیں کی
چھُپ چھُپ آہیں بھرنا کیا
پیار کیا تو ڈرنا کیا
اور صاحبواپنی طرف کےسلیولائیڈپردےپر انورکمال پاشاکی انارکلی میں فلمایاگیا جونغمہ اورمطربہ اوجِ کمال کوپہنچےوہ میڈم کے علاوہ اورکون ہوسکتاتھا۔ رشید عطرے کی دُھن کی رمِ جھِم پھوار پر قتیل شفائی کے لفظوں کے مانجھے پر ڈور پلاتی کھنچ کے پیٹا کھاتی نورجہاں کی تان
سدا ہوں اپنے پیار کی انارکلی سےہماراکچھ کچھ تعارف ہوچلاہے۔ اکبرکےدربارکی خوبرو کنیز، شہزادہ سلیم پر جس کی التفات بھری اداؤں کاعکس شیش محل کےآئینوں میں دیکھاتومہابلی نےانارکی کلی کودیوارمیں چنوا دیا۔صاحب گئےوقتوں کےبادشاہ بہت ظالم ہواکرتےتھے، اگردیوار میں نہ چنواتےتو ہاتھی کے پاؤں تلے رندوا ڈالتے۔
یہاں بیچ کہانی ہمارےسروں پرامتیازعلی تاج ایک بم پھاڑتےہیں۔ جس ڈرامےکاابھی ہم نےلطف لیااسی کےدیباچے میں لکھتےہیں کہ انہوں نےیہ کہانی بچپن سےسنی روایت پرترتیب دی ہےاور اس کا معلوم تاریخ سےکوئی تعلق نہیں۔ جہاں مہابلی اورشہزادہ سلیم تاریخی شخصیات ہیں انارکلی محض ایک افسانوی کردار ہے تو پھر پنجاب سیکریٹیریٹ میں سر اُٹھائے کھڑا مزار کس کا ہے!
اس معمے کے کچھ اشارے ہمیں اس سنگِ مرمرکے تعویذ سے ملتے ہیں جو مزار کے ایک کونے میں کھڑکی کی روشنی میں جگمگاتاہےاور جس کا ذکر ہم نےکچھ اوپر تھریڈ کے آغاز میں کیاتھا۔
لاہور کے تاریخ شناس سید لطیف بتاتے ہیں کہ سنگ مرمر ایک ثابت و سالم ٹکڑے سے تراشی گئی یہ لوحِ سنگ بقول ایک برطانوی اورینٹلسٹ ایڈورڈ ایسٹوِک بجا طور پردنیا کے سنگ تراشی کے اعلٰی نمونوں میں سے ایک ہے۔
یہ خوبصورت تعویذ اوپر اور اطراف میں اللہ تعالیٰ کے ننانوے ناموں کی خطاطی سے مزین ہے۔
برکےلمبےرخ دونوں اطراف کونظربھردیکھیں تو فارسی کا ایک شعر نظر پڑتا ہے
تا قیامت شکرگویم کردگارخویش را
آہ گرمن بازبینم روئے یارخویش را
اس شعر کی اردو تضمین شعیب منصور کےمیوزک ویڈیو سےہی ہمیں ملتی ہے
تیرا چہرہ پھر اگر میں دیکھ لوں بس ایک بار
شکر کرتے کرتے باقی زندگی کو دوں گزار
قبر کے تعویذ کے ایک طرف جہاں آپ اس درد بھرے شعر کا دوسرا مصرعہ پڑھنا شروع کرتے ہیں ساتھ ہی تخلص میں پروئے دستخط کی مانند شاعر کا نام نظر پڑتا ہے
مجنوں سلیم اکبر
اور ابھی جبکہ حیرت سے ایک ٹُک کُھلی آنکھ یہ منظر دیکھ ہی رہی ہوتی ہے دوسری آنکھ کو اسی لوحِ مزار کے سرہانے دو تاریخیں نظر پڑتی ہیں
۱۰۰۸ ہجری بمطابق 1599 عیسوی
۱۰۲۴ ہجری بمطابق 1615 عیسوی
تاریخِ لاہور میں سید لطیف ہی ہمیں بتاتےہیں کہ گوروں کے دور میں یہ مقبرہ جب گرجا گھر میں تبدیل کیا گیا تو بیرونی عمارت پر سفیدی کرنے کے ساتھ مزار کے عین قلب میں قبرکشائی کی گئی اور صاحب مزار کی ہڈیوں کو کونے کے ایک مینار کی طرف کھڑی کے نیچے منتقل کردیا گیا اور یوں ہماری لوحِ سنگ وہاں پہنچ گئی جہاں وہ آج کے آنے والوں کو نظر آتی ہے۔
لیجیے صاحب ہماری افسانوی ہیروئن کا ایک جیتا جاگتا مقبرہ ہے اور قبر میں دفن ہڈیاں بھی جسکی لوحِ سنگ دو تاریخوں کا پتہ دیتی ہے اور سونے پر سہاگہ اسی لوحِ مزار پر کندہ ایک محبت بھرا شعر جس پر ایک مجنوں شہزادے کے دستخط جگمگا رہے ہیں۔ شہزادہ سلیم، مغل شہنشاہ جہانگیر مغل ایک اہتمام کےساتھ تزکیں اورپادشاہ نامےمرتب کرتےتھے۔ کون ہےیہ انارکلی جس کےذکرسےمغل روزنامچےیکسرخالی ہیں! شاہ و شاہزادےبھرےپُرےحرم رکھنےکےساتھ کنیزوں اورلونڈیوں سےچھیڑخانی اورچھیڑخانیوں سے بڑھ کرکچھ اوربھی روا رکھتےتھےاور یہ بات معیوب نہ تھی۔
پھرانارکلی سےیہ امتیازی سلوک کیوں!
اس کا کچھ کچھ سراغ ہمیں اسوقت سے ملتا ہے جب انارکلی کی کتھا پہلے پہل شہرلاہور کی گلیوں اور چوباروں میں گونجی۔ ولیم فنچ ایک انگریز تاجر تھا جس نے 1583 سے 1619 کے درمیان ہندوستان میں اپنی اوّل اوّل کی یاتراؤں کا تذکرہ کیاہے۔ یہ وہ پہلی کتاب ہے جو انارکلی کی کہانی کہتی ہے۔
1611 میں جبکہ انارکلی کامزار تکمیل کےمراحل میں ہوگا فنچ لاہور میں تھااور گلی محلوں میں اس کہانی کےچرچےکہ اکبرِ اعظم کے حرم میں شہزادےدانیال کی ماں کا لقب انارکلی تھا۔ شاہزادہ سلیم سےجب اس کے تعلقات کی خبر شاہ کےکانوں تک پہنچی تو اس نے اپنی ملکہ انارکلی کو زندہ دیوار میں چنوادیا۔
شہزادےنےتب عہدکیاتھا کہ اپنی محبوبہ کےشایانِ شان ایک مقبرہ تعمیرکروائےگا، جسکی تکمیل اب جبکہ وہ شہنشاہ جہانگیر ہےہورہی ہے۔
شاہی محل کی حرم سرامیں شہزادےکےاپنی سوتیلی ماں سے تعلقات کی خبرمیں سنسنی توہے اورلاہور سےگزرےبعدکےچندایک راہواروں نےفنچ کی کہانی اسی پیرائےمیں دوہرائی بھی ہے مگر اس میں دو جھول ہیں۔ مزار پر پہلا سنہ جو کہ ممکنہ سنِ وفات ہے 1599عیسوی ہے۔ شہزادے دانیال کی والدہ تین سال قبل 1596 میں گزرگئی تھیں۔ دوسرے ایک جوان شاہزادے کا خود سے پندرہ برس بڑی ملکہ پر مائل بہ التفات ہونا کچھ کچھ بعید از حقیقت معلوم پڑتا ہے۔
محمدباقرلاہورکےماضی کوکھنگالتےحال سےملاتےہمیں بتاتےہیں کہ اس مقبرےمیں دراصل جہانگیرکی محبوب بیوی صاحبِ جمال دفن ہے۔ ان کےمطابق مقبرےکی تعمیرسےبہت پہلےیہ علاقہ انارکےباغوں کی بہتات کی مناسبت سےانارکلی کہلاتاتھا۔ صاحبِ جمال کامقبرہ بھی تعمیرکےبعدانارکلی کےمقبرےکےنام سےمشہورہوگیا۔
لاہور کی گلی کوچوں کی روایتی تاریخ کا انسائیکلوپیڈیا ہمارے آپ کے مجید شیخ جو ہر داستان کو اپنے طرزِ بیان کے چسکے سے مزید چٹپٹا کردیتے ہیں اول تو انارکلی کے مقبرے کے بارے میں خاموش ہیں اور ایک آدھ جگہ جہاں ذکر کیا ہے تو اسے صاحبِ جمال کا مقبرہ ہی بتاتے ہیں۔
صاحبو 1596 میں سلیم کی زندگی میں آئی صاحبِ جمال شہزادے کی پہلی بیوی نہیں تھی۔ یک نہ دو، پوری بیس بیگمات کے ایک بھرے پُرے حرم میں کسی ایک بادشاہ بیگم کی زُلفِ گرہ گیر کا اسیر ہوجانا شاہانہ مزاج سے میل نہیں کھاتا۔
لاہور کی تاریخ دان اینا سوورووا تو یہاں تک کہتی ہیں کہ سترہویں صدی کے مغل دربار میں ایک مغل شہزادے کا شاہی حرم کی ملکہ کی محبت میں خود کو مجنوں سلیم کہہ کر مخاطب کرنا انتہائی معیوب بات تھی اور قابلِ دست اندازیِ پادشاہ و مورخ دونوں تھیں۔
نوراحمد چشتی کی تحقیقاتِ چشتی اور کنہیالال کی تاریخِ لاہور دونوں ایک اور کہانی سناتی ہیں۔ نادرہ بیگم یا پھر شرف النساء کے نام سے شہنشاہِ اکبر کی دلربا کنیز نے مہابلی سے انارکلی کا لقب پایا۔ اکبر انارکلی کے ذوق وجمال اور وہ بھی جو اس سے کچھ آگے کی جنس ہے کا دلدادہ تھا۔
شہنشاہ جب دکن کی سمت کسی مہم جوئی پر تھا انارکلی نے مختصرعلالت کے بعد بقضائے الٰہی انتقال فرمایا اور اس کی یاد میں اکبر بادشاہ نے ایک شاندار مقبرہ بنوایا۔
اسی کہانی میں سید لطیف اتنا فرق کرتے ہیں کہ نادرہ بیگم دربارِ اکبری کی مغنیہ تو تھی مگر اس کے تعلقات شاہ سے نہیں بلکہ پسرِ شاہ (مراد اس سے شہزادہ سلیم ہیں) سے استوار ہوئے جس کی پاداش میں انارکلی اکبر کے عتاب کا شکار ہوکے دیوار میں چُن دی گئی اور یہ سن تھا 1599۔ جب ہمارا مجنوں سلیم شہنشاہ بنا تو اس نے اپنی محبوبہ کے شایانِ شان ایک مزار بنوایا جو 1615 عیسوی میں پایۂ تکمیل کو پہنچا۔
صاحبو لوئر مال سے متصل اسلام پورہ کی بھول بھلیوں میں جہاں پنجاب سیکریٹیریٹ ہے وہاں ایک مقبرے میں فائلوں کے انبار کے پہلومیں ایک نفیس لوحِ سنگ سے ڈھکی ایک قبر ہے۔ یہاں انارکلی محوِ استراحت ہے۔ وہ اکبر کی محبوبہ تھی یا سلیم کی ہم یقین سے نہیں کہ سکتے مگر جب وہ اس جہانِ فانی سے گزر گئی تو اس کی جدائی سے دل گرفتہ عاشق نے یہ شعر کہا جو آج بھی قبر کے تعویذ پر جگمگا رہا ہے
تا قیامت شکرگویم کردگارخویش را
آہ گرمن بازبینم روئے یارخویش را
تیرا چہرہ پھر اگر میں دیکھ لوں بس ایک بار
شکر کرتے کرتے باقی زندگی کو دوں گزار
For my readers who would like to read this story in English they can access it on the pages of MANI JUNCTION