ڈاکٹر محمد عمر نے اپنی کتاب ’ہندوستانی کا مسلمانوں پر اثر’ میں قصائیوں کو ان ہندو اقوام میں سے بتایا جو کہ پوری کی پوری مسلمان ہوگئیں ۔
حقیقت میں ہندو معاشرے میں قصائیوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے ۔ اس لیے ہندو معاشرے میں قصائی ناپید تھے ۔ میکلیکن کا کہنا ہے کہ یہ مختلف نسلی گروہ جن میں راجپوت اور دوسرے لوگ شامل ہیں مسلمان ہونے کے بعد قصائی کا پیشہ اختیار کیا ۔ وہ قصاب اور قصائی میں تمیز کرتا ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ قصاب اور قصائی کو گڈ مد کیا جاتا اور قصائی کپاس صاف کرنے والے ہیں ۔ لیکن کے اس ساتھ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ بعض اوقات ان کے درمیان تفریق نہیں ہوتی ہے ۔ وہ قصائیوں میں مختلف نسلوں جن میں عربی (ایک جاٹ قبیلہ) ، بھٹی ، بھٹہ کھوکھر ، گورہا ، تہیم ، تہیم انصاری اور سوہل اور بھی نسلی گروپ شامل ہیں ۔ ان میں باکری بکرے کا گوشت بیچتے ہیں اور ہندوؤں سے بھی معاملہ کرتے ہیں ۔ ایپسن کا کہنا ہے کہ قصاب محض پیشہ ہے اور اس پیشہ سے زیادہ تر تیلی وابتہ ہیں ۔ کچھ قصاب نے ۱۸۸۱ء کی مردم شماری میں اپنے کو جٹ بتایا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قصائی کا پیشہ اختیار کرنے والے مختلف نسلی گروہ ہیں ۔ لیکن یہ نہیں بھولیں یہ نیچ پیشہ سمجھا جاتا ہے اور نیچ ذاتیں جو مسلمان ہوئیں تو انہوں نے اپنے پرانے پیشہ کو چھوڑ کر قصائی کا پیشہ اختیار کیا ۔ ایپسن کی بات زیادہ صحیح ہے ۔
بعد کی مردم شماری میں قصائیوں نے اپنی ذات قصائی بتائی اور ۱۹۲۱ء تک مردم شماری میں بھی انہوں نے اپنی ذات قصائی لکھوائی ۔ مگر ۱۹۳۱ء کی مردم شماری میں انہوں اپنی ذات قریشی لکھوائی ۔ ان میں دو طبقے ہیں ایک چھوٹے قصائی اور دوسرے بڑے قصائی ۔ چھوٹے قصائی بکرے یا بھیڑوں کا گوشت فروخت کرتے ہیں ۔ یہ سماجی درجہ میں بڑے قصائیوں سے ان درجہ کم ہے ۔ بڑے قصائی بھینس یا گایوں کا گوشت فروخت کرتے ہیں اور ان کا سماجی رتبہ بلند ہے ۔ مگر میرا مشاہدہ ہے چھوٹا گوشت فروخت کرنے والے سیاہ رنگ کے ہیں اور بڑے کے قصائی عموماً صاف رنگت کے ہیں ۔ ان کی عورتوں کے رنگ بھی صاف ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ بڑے کے قصائی تیلوں میں سے ہیں اور انہوں اس پیشہ کو اپنا لیا ہے ۔ تیلی بھی بکریاں کبھی نہیں پالتے وہ زیادہ تر بھینسیں یا گایوں کو پالتے ہے ۔ یہ میرا مشاہدہ ہے ہوسکتا ہے میں غلط ہوں ۔ دونوں قسم کے قصائیوں میں سے بہت سے قصائیوں نے اب مرغی کا گوشت فروخت کرنا شروع کردیا ہے ۔ یہی کام اب تیلی بھی کر رہے ہیں ۔
(ترتیب و تہذیب ۔ عبدالمعین انصاری)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔