1979 کے سخت ترین جاڑے کی ایک اتنی ہی سرد اور اداس شام تھی۔ یوگوسلاویہ کے دورافتادہ اور پسماندہ گاوں میں ایک قصاب بخار میں پھنک رہا تھا۔ پریشانی اس کے چہرے پہ عیاں تھی ۔ کسی نہ کسی طرح ہمت جمع کرکےاس نے گوشت تو بنا لیا تھا۔ مگر اسے ریستوران تک پہنچانا عذاب لگ رہا تھا۔ اتنے میں اس کی 11 سالہ بیٹی سکول سے لوٹی۔ باپ کو پریشان دیکھ کر ماجرہ سمجھ گئی۔ برفباری میں گوشت سے لدی بھرکم ریڑھی کھینچ کر ریستوران تک چھوڑ آئی۔وہ مڈل سکول میں گاوں کے سکول میں اول آئی۔ تب امریکہ میں ہائی سکول میں وظیفے کا امتحان منعقد ہوا ۔ وہ اس میں منتخب ہونے والے چند طلبہ میں سے ایک تھی۔ قصاب کی بیٹی کو پڑھنے اور محنت کرنے کا جنون تھا۔ جو بالآخر اسے ہارورڈ یونیورسٹی کے کینیڈی سکول میں لے گیا۔ چند برس کی محنت شاقہ کے نتیجےمیں وہ امور خارجہ میں ماہر سمجھی جانے لگی۔ امریکہ میں اپنے ملک کی پہلی خاتون سفیر مقرر ہوئی۔ وزارت خارجہ کا مشکل فریضہ انتہائی خوبصورتی سے نبھایا ۔ اسی خاتون کو چند ماہ قبل ساری دنیا نے ستائش بھری نظروں سے FIFA ورلڈ کپ کے فائنل میں اپنی ٹیم کا دیوانہ وار جذبہ بڑھاتے دیکھا۔ وہ عام سٹینڈ میں اپنے ہم وطنوں کے درمیان ڈبوں والی سرخ T-shirt زیب تن کئے نعرے بلند کرتی نظر آئی۔ یہ کولنڈا گریبر ہے۔ کروشیا کی منتخب صدر۔ جسے 2 ارب سے زائد ٹی وی سے چپکے ناظرین ستائش بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ وہ اکانومی کلاس میں خود ٹکٹ خرید کر پہنچی۔ VIP سہولیات شکریہ سے واپس کردیں ۔ اس دورانیہ میں اپنی تنخواہ واپس کردی۔
آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ کروشیا کی آبادی محض چالیس لاکھ ہے۔ اسکا ورلڈ کپ کے فائنل میں پہنچ جانا کسی معجزے سے کم نہیں ۔ 50 سالہ کولنڈا اپنے ملک کے تمام میچوں میں موجود رہی۔ اس دوران اس نے NATO کے سربراہ اجلاس میں بھی شرکت کی۔ مگر راتوں رات واپس ماسکو پہنچ گئی۔ میچ کے وقفہ میں وہ اپنے مدمقابل فرانسیسی ٹیم کے کمرے میں اچانک جا وارد ہوئی۔ اس نے ان کا بھی حوصلہ بڑھایا۔ کروشیا بہتر ٹیم ہونے کے باوجود تجربہ کار فرانس کی ٹیم سے شکست کھا گئی ۔ کولنڈا سب کھلاڑیوں سے بغلگیر ہوئی۔ مگر جب کپتان موڈرچ سے ملی تو دونوں پھوٹ پھوٹ کر رودیئے۔ چشم فلک بھی اس منظر کی تاب نہ لاسکا۔ بے تحاشہ برسا۔ جوانسال موڈرچ جسے Golden ball award یعنی دنیا کے بہترین کھلاڑی کے اعزاز سے نوازا گیا بولا ۔ ماں ۔ میں نے آج تجھے ساری دنیا کے سامنے شرمسار کردیا۔ کولنڈا نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولی۔ میرے بچے ۔ تم مٹھی بھر جوانوں نے دنیا کے دل جیت لئے ہیں ۔ آج تم ہار کر بھی فتح یاب ہو ۔ میرے ملک کے لئے عزت کا یہ مقام ایک دھات سے بنے کپ کو تھامنے سے بدرجہا بہتر ہے ۔ اس نے تیز بارش میں چھتری واپس کردی اور بولی میرے بچے بارش میں نہا رہے ہیں ۔ میں بھی ان کے ساتھ مسرور ہوں۔ کولنڈا نے کروشیا کو ترقی یافتہ ممالک میں شامل کرنے کی قسم اٹھا رکھی۔ اس نے وزیر خارجہ کی حیثیت سے اسے یورپین یونین کا رکن بنوایا۔ جس سے سے روزگار اور تجارت کے بے پناہ مواقع میسر آئے۔ NATOکی پہلی مرتبہ خاتون اسسٹنٹ سیکریٹری منتخب ہوئی۔ آج وہ پوٹن اور میکرون کے بیچ کھڑی بلند وبالا نظر آئی۔ اپنے گرد نگاہ دوڑائیں تو ہم غلاموں کی مانند ارب پتی خانوادوں اور ان کے بعد ان کی اولاد کی چوکھٹ کو چومتے نظر آتے ہیں ۔ ہماری بصارت اور بصیرت سے محروم آنکھ گلے میں پڑے طوق اور پاوں میں بندھی زنجیروں کو محسوس ہی نہیں کر پاتی۔ کیا ہم بھی کسی عام آدمی کو غیر معمولی ذہانت ۔اخلاص اور بلند اخلاق کی بنیاد پر اپنا رہبر چنیں گے۔ یقین مانیں ۔۔۔ہمیں بھی چند ایسی قصاب کی بیٹیوں کی ضرورت ہے۔۔۔ جو ہماری بھی قسمت کو بدل دیں ۔ انشاءاللہ وہ سویرا جلد طلوع ہو گا۔
بقول ساحر لدھیانوی
جب دھرتی کروٹ بدلے گی۔
جب قید سے قیدی چھوٹیں گے
جب پاپ گھروندے پھوٹیں گے۔
جب ظلم کے بندھن پھوٹیں گے۔
اس صبح کو ہم ہی لائیں گے ۔
وہ صبح ہمیں سے آئے گی۔
منحوس سماجی ڈھانچوں میں جب ظلم نہ پالے جائیں گے ۔ جب ہاتھ نہ باندھے جائیں گے جب سر نہ اچھالے جائیں گے ۔ جیلوں کے بنا جب دنیا کی سرکار چلائی جائے گی
سنسار کے سارے محنت کش کھیتوں سے
ملوں سے نکلیں گے ۔
بے گھر بے در بے کس انسان تاریک بلوں سے نکلیں گے۔
دنیا امن اور خوشحالی کے پھولوں سے سجائی جائے گی ۔ اس صبح کو ہم ہی لائیں گے وہ صبح ہمیں سے آئے گی۔
“