اُس نے اپنے ماضی میں لیے گئے قرض کو اتارنے کیلئے ہزار جتن کیے مگر ناکام رہا، اب وہ پورا دن خود کو کوستا رہتا اور ملامت زدہ رہتا کہ اُس نے ایسا ہیچ کام کیا ہی کیوں تھا جس نے اس کی تمام جمع پونجی ختم کر دی، اب اسے زیادہ سے زیادہ پیسے چاہییں تھے مگر اُس کے پاس نہ تو کرنے کو کوئی دھندہ تھا اور نہ ہی وہ ڈھنگ کا ہنر جانتا تھا جس سے قرض اتارے، کیونکہ اس نے بچپن سے اب تک والدین کی متاع پر عیاشی کی تھی مگر والدین کے اس دارِ فانی سے کوچ کرتے ہی اس نے تمام جائیداد اور روپیہ پیسہ دوستوں میں اور جوئے میں اڑا دیا اب یک نہ شُد دو شُد والا معاملہ تھا ایک تو آئے روز قرض خواہ اس کے دروازے پہ آ دھمکتے دوسرا اس پر فاقوں کی نوبت آ چکی تھی اب شعیب شب بھر گھر سے غائب رہنے لگا تھا اور دن بھر پریشان رہتا، گھر والے بھی اُس پر نفرین بھیجتے کہ اُس نے ان کی ہنسی خوشی زندگی کو اجیرن بنا دیا اُس کی بیوی نے ایک کوٹھی پر کام ڈھونڈ لیا اور وہ دوائیوں کا خرچہ اور بچوں کی سکول کی فیس انہیں پیسوں سے جو کام کے نتیجے میں ملتے تھے ادا کرتی اور وہاں سے بچا ہوا کھانا لے کر آتی اور بچوں کا پیٹ پالتی، شعیب کی صحت بھی چنداں بہتر نہ رہی تھی اور وہ نحیف و نزار نظر آنے لگا تھا اور مدقوق سا دکھائی دیتا، اب قرض داروں نے شعیب کا جینا دو بھر کر دیا اور اس کیلئے ان سے بچ نکلنے کی کوئی راہ باقی نہ بچی، آخر کار وہ ایک دن ایک حتمی فیصلے پر پہنچا اور اپنے چھوٹے بیٹے شہروز سے جو ابھی بمشکل چھ، سات سال کا تھا کہ بیٹا چلو آج بازار چلتے ہیں شہروز نے استفسار کیا کہ ابا جان آپ کے پاس تو ایک رتی بھی نہیں ہے پھر بازار کاہے کو چلیں؟ شعیب بولا کہ بیٹا ایک کام ڈھونڈنے جانا ہے دل کیا تمہیں ساتھ لے جاؤں کیونکہ تم چھوٹے ہو اور اس وجہ سے پیارے بھی بہت ہو تمہیں تو پتہ ہے نا کہ باقی بہن بھائیوں کی نسبت تم مجھے زیادہ عزیز ہو یہ سب باتیں سُن کر شعیب کی بیوی کا بھی دل پسیج گیا اور اُس نے شہروز کو ہنسی خوشی تیار کر کے شعیب کے ساتھ بازار بھیج دیا، بازار میں جاتے ہی شعیب نے شہروز کو پہلے گرم گرم جلیبیاں کھلائیں، اُس کے بعد سموسے اور پھر جوس کا پلوایا، شہروز پھر لب گویا ہوا کہ بابا آج بڑے پیسے آ گئے خیر تو ہے؟؟ شعیب نے کہا کہ بیٹا کچھ دنوں سے آپ کیلئے بچا کے رکھے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔ابھی دونوں باپ بیٹا کے دوران یہی گفت و شنید جاری تھی کہ تین افراد آئے انہوں نے شعیب کو ایک طرف لے جا کر سرگوشی کے انداز میں کوئی بات کی اور ان کی بات سننے کے بعد شعیب، شہروز کے پاس آیا اور کہا کہ بیٹا ان لوگوں کے ساتھ چلو یہ بھی ہمارے گھر کی طرف جا رہے ہیں تمہیں گھر چھوڑتے جائیں گے مجھے ایک کام یاد آ گیا ہے میں وہ کر کے آ رہا ہوں شہروز نے دہائی دی کہ ابا جان انہیں تو ہم جانتے ہی نہیں پھر کیوں آپ مجھے ان اجنبیوں کے ساتھ بھیجنے پہ تُل گئے ہیں، شعیب نے کہا کہ بیٹا یہ میری پُرانی جان پہچان والے ہیں ،تُم گھبراؤ نہیں بلا جھجھک ان کے ساتھ براجمان ہو جاؤ، شعیب نے پھر عندیہ دیا کہ ابو ہم نے ان لوگوں کو نہ تو آپ کے ساتھ کبھی دیکھا اور نہ ہی اپنے گھر، اب کی بار شعیب نے کرخت لہجہ اپناتے ہوئے کہا کہ شہروز حد ہوتی ہے تمہیں ان لوگوں کی بابت میرے اوپر اعتبار نہیں ہے میں جو کہہ رہا ہوں کہ چلے جاؤ تو چلے جاؤ نا، شہروز نہ چاہتے ہوئے بھی ان لوگوں کے ساتھ گاڑی میں سوار ہو گیا اور وہ سب روانہ ہو گئے، شام کے وقت شعیب گھر آیا تو بہت خوش تھا اور فاتحانہ انداز میں بیوی سے بولا کہ آج سارا قرض اتار دیا ہے اللہ کا شکر ہے، بیوی نے کہا کہ یہ بتاؤ میرا شہروز کہاں ہے؟ شعیب نے اجنبی بنتے ہوئے اداکاری کرتے ہوئے پوچھا کہ شہروز ابھی تک گھر نہیں پہنچا؟ سب یک زبان ہو کر اور ششدر ہو کر بولے کہ "نہیں "شعیب نے بڑی بےبدلی سے کہا کہ "لگتا ہے وہ لوگ شہروز کو لے گئے "بیگم بولی کون لوگ؟ شعیب نے پھر بے فکری سے کہا کہ پتہ نہیں کون تھے؟ کل پیسے دیے تھے اور آج اسے لے بھی گئے یہی کہا کہ گھر چھوڑ دیں گے اسے میں نے کہا کہ چلو کرایہ بچ جائے گا ہمدرد لوگ ہیں اور با اعتبار بھی، یہ کہہ کر شعیب باہر کی طرف چل دیا مگر دور جا کر وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگا، اسے خود سے کراہت ہو رہی تھی ،ادھر شعیب کی بیوی حقیقت جان چکی تھی پر سوائے کوسنے کے موقع پر کیا کہتی؟ مگر دن رات روتی بھی رہتی اور کام بھی کرتی، آخر کار یاداشت کھو بیٹھی اور گلی میں گزرنے والے ہر بندے سے پوچھتی شہروز کو کیوں نہیں لے آئے؟ شہروز کہاں ہے؟ ایک بار تو اس سے ملوا دو، ادھر شعیب کی بیٹے کی جدائی میں رو رو کر بینائی جاتی رہی اب وہ ہمہ وقت خود کو کوستا ہی رہتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“