::: " قاری کی اساس کا { ردعمل} انتقادات کا نظریہ: ادبی تنقید کی اچھوتی اور پیچیدہ بساط " :::
قاری کی اساس تنقید ۱۹۶۰ کی دہائی میں اے آر رچرڈ کی جذباتی مباحث سے شروع ہوئی۔ جس نے ساختیے کے روایتی تصوارات سے ایک مخصوص ذہنی میکانیت کو پاکر بصری اور قرات کے عمل کے امتزاج سے اس نئے تنقیدی نظرئیے کو فروغ دیا۔ جس کا روایتی نقاد پہلے بیانیہ، پلاٹ، کردار ۔ اسلوب اور ساخت کے حوالے سے کسی نہ کسی طور پرکرتے آئے تھے کیونکہ متن انفرادی قاری کو " تخلیقیت" کے حوالے سے ادبی متن کا مطالعہ کرتے آئے تھے ۔ قاری کی اساس تنقید ادبی متن اور کاموں میں زبان کی اہمیت دیتی ھےاور قاری سے یہ توقع کرتی ہے کہ وہ متن کی معنویت کو اپنے طور ہر پالے۔ جس میں بہر طور قاری کے تجربات بھی شامل ہوتے ہیں۔ یوں ان میں کئی تنقیدی مزاج در آتے ہیں لیکن متن فرد کے ذہن کا حصہ نہیں ہوتا مگر وہ انفرادی سطح پر متن کی قرات کرتا ہے۔ اس کو بعض ناقدین نے موضوعی تنقید بھی کہا جو معنئی کے جوہر پر حاوی ہو جاتی ہے۔ اور معنیاتی اور ساختیاتی نظرئیے میں فعال کردار ادا کرتی ہے۔ جو مخصوص ادبی و ثقافتی رموزیات کی صورت میں ابھرتے ہیں اور معنویت کو خلق کرتے ہیں ساتھ ھی موضوعیت کا عنصر قرات اور تشریح کی نئی دریافتیں ہوتی ہیں۔ قاری کی اساس تنقید متن کے تفسیر اور تشریح کے سلسلے میں قاری کی رائے اور ردعمل کا نظریہ ہے۔ جس کو سب سے زیادہ نفسیاتی، عمرانیاتی، بشریاتی، ثانیثیت اور ساختیاتی تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ اور تخلیق کار اور مصنف اپنے قاری کے جوابی تنقیدی نقطہ نظر اور ردعمل کو بھی مختلف الجہت تناظر اور رسائیوں کے تحت پرکھتا ہے۔ اس میں متن کو قاری سے علحیدہ رکھا ہی نہیں جاتا بلکہ قاری کی اساس نقد میں قاری اپنے فکری، موضوعی اور معروضی عقائد کی وضاحت اور تفسیر کرتا ہے۔ اوربعض دفعہ یہ بھی ہوتا اس میں قاری کے فکریات کو لکھنے والے کی سوچوں میں مکمل طور پر منسلک نہیں کیا جاتا بلکہ یہ اس کا منفی اور مثبت ردعمل ہوتا ہے جس میں قاری مجہول اور معروضی طور پر متن کی تشریح اور تلخیص/ تجرید کرتا ہے۔ جو ادبی احوال میں ہی کسی متن کی حرکیات سے معنی کی حرکیات سے معنی اور مفاہیم اخذ کرتا ہے۔
میرے ہاتھوں میں امریکی ٹمپل یونیورسٹی کی پروفیسر جیں پی ٹومپکن کی ایک کتاب ہے جو مضامین کا مجموعہ ہے۔جو انھوں نے ترتیب دیا ہے۔ مضامین کا مجموعہ کا نام " قاری کی اساس تنقید، ہیت پسندی سے پس ساختیات" ہے جس میں بارہ/۱۲ مضامین کا گل دستہ پیش کیا گیا ہے۔ یہ کتاب ۱۹۸۰ میں جان ہاپکنز یونیورسٹی پریس بالٹی مور، لندن سے شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب میں نے ۱۹۸۱ میں برکلے لونیورسٹی، کیلے فورینا، امریکہ ، کے کتاب گھر سے خریدی تھی اس موضوع پر راقم السطور نے اپنی کتاب " ساختیات: تاریخ، نظریہ اور تنقید" {۱۹۹۹} میں بھی لکھا ہے۔ کتاب کے آخر میں اس موضوع پر کتابیات کی طویل فہرست اور مصنفین کے تعارفات بھی درج کئے گئے ہیں۔ اس کتاب میں ان موضوعات کو شامل کیا گیا ھے:
۱۔ مصنف، مقرر، قاری اور نقلی قاری {واکر گبن}
۲۔ بیانیہ کار کا مطالعہ { جیراڈ پرنس}
۳۔ شعری ساخت کا بیان۔ بودیلیر کی " یس چیٹ" کی دو رسائیاں {مائیکل ریفٹائر }
۴۔ تنقید اور حمیت کا تجربہ { جارج پولیٹ}
۵۔ قاری کا طریقہ کار: ایک مظہریاتی رسائی { وافنگ اسر}
۶۔ ادب میں قاری: اثر انداز اسلوبیات { اسٹنلیے فش}
۷۔ ادبی اہلیت { جانیھتن کلر}
۸۔ اتحاد۔۔ شناخت ۔۔۔ متن ۔۔۔ ذات ۔۔ { نارمن این ہالینڈ}
۹۔ علمیاتی ذمہ داری، ردعمل کا مطالعہ {ڈیوڈ بلائچ}
۱۰۔ " ویورنم" {VARIORUM} کی تشریح { اسٹینلے فش}
۱۱۔ ذات کی تشریح، کارٹیشن موضوعات {والٹر بین مائیکل}
۱۲۔ قاری کی تاریخ: تبدیل ہوتی ہوئی ادبی ردعمل کی صورت { جیں بی ٹامپکن}
*** اختتام بحث:***
===========
قارئین کے ردعمل کے اصول نے قاری کو ایک فعال ایجنٹ کے طور پر تسلیم کیا ہے جو ادبی تنقید کے "حقیقی وجود" کی طرف اشارہ کرتا ہے اور تشریح کے ذریعہ اس کے مطالیب ، معنئی اور مفاہیم سے آگاہی حاصل کرتا ہے۔ قاری کی اساس تنقید یا ردعمل کا دعوی ہے کہ ادب کو ایک فنکارانہ فن/ آرٹ کے طور پر دیکھا جانا چاہئے جس میں ہر قارئین نے اپنے، ممکنہ طور پر منفرد، متن سے متعلقہ کارکردگی اور زہنی فکری میکانیت پیدا کی ہے. یہ رسمی طور پر نظریات اور نظریہ کے نظریات کی مجموعی طور پر مخالفت کرتا ہے
قاری کی اساس تنقید کا نظریہ ہے جس میں قارئین اور طالب علموں کو فعال ہونا ضروری جانا جاتا ہے۔ جو اپنے طریقوں سے قاری کے طریقیات یا مناجیات سے متن کو تخلیق اور تحلیل کرنا پڑتا ہے، اس فکر نے نے 19 صدی میں اہمیت حاصل کی جس میں موضوعی رسائی کے تحت ایک معروض کا فکری انتقادی آفاق تشکیل پاتا ہے اور اعتماد کے بعد متن کا مرکوز تجزیہ کرتے ہوئے ایک فکری نکتہ تلاش کیا جاتا ہے :::
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔