قرارداد مقاصد ایک اور زاویے سے:
" قرارداد مقاصد میں جو اصولی غلطیاں ہیں وہ نہ صرف اقلیتوں کے حوالے سے ہیں بلکہ سب سے زیادہ نقصان اس نے مسلمان اکثریت کا کیا ہے۔
وہ کیسے؟
وہ اس طرح کے قرارداد مقاصد میں قانون سازی کو قرآن سنت کے ماتحت کردیا گیا یہ جانے بغیر کہ قرآن کریم تو ایک متعین کتاب ہے مگر سنت نبوی ایک وسیع المعانی مضمون ہے اور مسلمانوں کا ہر فرقہ سنت نبوی کا ایک پورا الگ catalogue لیے پھرتا ہے جو کہ اکثر ایک دوسرے سے متصادم ہے۔
پھر ہوا کیا ؟
پھر ہوا یہ کہ قرارداد مقاصد پاس ہونے کے باوجود پاکستان میں متفقہ اسلامی قوانین نہ بن سکے کیونکہ کوئی فرقہ دوسرے فرقے کی تشریح ماننے کو تیار ہی نہیں تھا اور جب ان سے کہا جاتا کہ چلیں پھر قرآن کریم کو ہی بنیاد بنالیں تو علماء طوفان اٹھا دیتے۔
پھر وہ وقت آیا کہ مولانا مودودی صاحب جو علماء کی پارلیمانی کمیٹی کے کنوینر تھے انہیں آن ریکارڈ تسلیم کرنا پڑا کہ سنت کی ان diverse تشریحات کی وجہ سے یہاں متفقہ اسلامی قوانین بن ہی نہیں سکتے۔
اور جب ان سے سوال کیا گیا کہ آپ لوگوں نے پھر قرار داد مقاصد کی بتی کے پیچھے قوم کو کیوں لگا دیا تو ان کا جواب یہ تھا:
وہ لوگ جو علماء کے باہمی اختلافات کو بنیاد بنا کر اسلامی قوانین روکنا چاہتے ہیں وہ بد نیت ہیں۔
یا میرے اللہ،
اقلیتوں کو جو اس سے نقصان ہوا وہ شاید اس نقصان سے چھوٹا ہے جو اس سے مسلمان اکثریت کو ہوا۔
اگر یہ نہ ہوتی تو ہمارا سسٹم یا سیکولر ہوتا اور یا قرآنی۔
اور دونوں ہی اس موجود غیر انسانی نظام سے بہتر ہوتے جس کی روح میں استحصالی ملائیت گھسی ہوئی ہے۔ "
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔