تحریک پاکستان میں خواتین کی شمولیت اور ان کے کردار پر فاطمہ جناح سے فاطمہ صغریٰ تک بیشمار ایسے نام ہیں جو نصابی و غیر نصابی کتب میں با آسانی مل جائیں گے۔ ان کی جرات اور حوصلہ پر ہزار ہا تحریریں بھی دستیاب ہیں، جسکی بڑی وجہ اس موضوع پر ریاستی توجہ اور سر پرستی ہو سکتی ہے، لیکن بٹوارے اور اس کے بعد کے سیاسی، سماجی، معاشی اور معاشرتی حالات عمومی طور پر کیسے رہے، اور خصوصا خواتین کا مقام کہاں تھا اس پر بمشکل کچھ مل پائے گا۔
اسی طرح سیاسی موضوعات پر شائع ہونے والے رسائل، کتب اور اخبارات میں بیگم نصرت بھٹو اور بعد میں بے نظیر بھٹو پر بہت کچھ پڑھنے اور جانچنے کو مل سکتا ہے لیکن جنرل ضیا کے مارشلائی دور میں عوام الناس کن ٹوٹتی بگڑتی اقدار سے نمٹ رہے تھے اس پر سیر حاصل کام اب بھی باقی ہے۔ ضیائی حکومت کے سیاہ دور کو اتنا ضرور دستاویز کیا گیا ہے کہ لوگوں کو سر عام کوڑے مارے جاتے تھے۔ ریکارڈ کی تصاویر اور مضامین سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں بڑھ چڑھ کر مظالم پر آواز بھی اٹھاتی رہیں، صحافیوں پر تشدد کے واقعات، مرد حضرات کے ساتھ ساتھ خواتین کی مختلف جلسے جلوسوں میں شرکت، پولیس لاٹھی چارج کا سامنا جیسی معلومات تو شاید بآسانی دستاب ہوں۔۔ مگر خواتین کو کوڑے پڑنے ، ان کے ساتھ سماجی سطح پر روا رکھے سلوک کے لئے اخبارات کو شاید چھانٹنا پڑے گا۔
اس تاریک دور میں روشنی کی تمنا کرنے والوں کے لئے اسے قلمبند کرنا کتنا دشوار اور تکلیف دہ ہو سکتا ہے اس کا اندازہ سعیدہ گزدر کی کتاب طوق و دار کا موسم سے ہوتا ہے۔ عوام) خاص طور پر عورت( کی آزادی، پردہ، چادر، اس کے حقوق، ملازمت کرنے اور باہر نکلنے کے اختیار، سیاست میں اسکا عمل دخل، اس کے جسم اور حسن، چلنے پھرنے، لکھنے پڑھنے، گانے ناچنے، غرض ہر انسانی ضرورت اور جذبے کے اظہار پر پابندی کی کوشش ایک حقارت آمیز رویہ، جنت سے نکالے جانے کی ازلی مجرم عورت بقول ان کے انکا موضوع ٹھہرا۔ اس زمانے میں بھی کچھ لوگوں کی رگ حمیت یوں پھڑکی کہ وہ ہر اخلاقی پستی اور معاشرے میں پھیلنے والی بے راہ روی کا ذمہ دار عورت کو ٹھہراتے گئے۔ خود سعیدہ کے مطابق مرد اور عورت کے درمیان اجنبیت، دشمنی، اور دوری کی دیوار، دو انسانوں کے لئے تنہائی کا جہنم، ہر بات فحاشی، ہر عمل عریانی، چلنا پھرنا دو بھر معلوم ہونے لگا۔
انیس سو تراسی میں چھپی اس کتاب کا نام فیض احمد فیض کے شعر ۔۔
یہی جنوںکا، یہی طوق و دار کا موسم ؛
یہی ہے جبر، یہی اختیار کا موسم
سے مستعار لیا گیا ہے۔ کتاب نثر کے بجائے شاعری کی ہے کیونکہ سعیدہ کے مطابق جو ہو رہا تھا اسے بیان کرنا ان کے بس میں نہ تھا سوائے بلا ارداہ اظہار کی مجبوری کے۔ "میں نے کبھی شاعری کرنے کا دعویٰ نہیں کیا۔ بس یہ ہوا کہ پچھلے چند برسوں میں جو کچھ ہوا ہے اس نے مجھے کبھی کبھی جذباتی اور ذہنی دیوانگی کی اس حد تک پہنچا دیا کہ آنسووں کو روکنے کی کوشش میں اندر سے تڑپ تڑپ کر میں بہت روئی اور ایسی کیفیت میں اپنے آپ کو نثر کے ڈسپلن میں لانا مشکل ہو گیا۔"
اور بلا شبہ ان نظموں میں فنکاری نہیں مگر ایک تاریخ ضرور مرتب ہوئی، مستقبل کے مورخ کومدنظر رکھ کر حال احوال کو سامنے رکھا۔ چند ایک واقعات کا تذکرہ بھی ہے۔ مثلا ایک نومولود کو "مسجد کے سائے میں" سنگسار کیا گیا، جس پر سعیدہ نے رونگٹے کھڑے کر دینے والا بین لکھ ڈالا۔
چھوٹا سا بچہ
وہ ننھا فرشتہ
بے بس، بے گھر
چلنے سے مجبور
اٹھنے سے معذور
آنکھیں موندے
مٹھی تانے
چونچ برابر منہ کھولے
چادر میں لپٹا
نہ جانے کون اور کب
کس مجبوری میں
آس اور مایوسی میں
چھوڑ گیا تھا
مسجد کے سائے میں
خدا کے گھر سے
کوئی تو نکلے گا
بے بسی، بے کسی کی اس گٹھری کو
ہاتھوں میں تھامے گا
سینے سے لگائے گا
انگلی پکڑ کے
جینے کا ڈھنگ سکھائے گا
اور نہیں تو
بیس قدم پر تھانہ ہے
قانون اور انصاف کے رکھوالے آئیں گے
ہلتی ڈولتی گردن کو تھامیں گے
بہلائیں گے پھسلائیں گے
کوئی گھر بھی ڈھونڈ لیں گے
وہ نکلے
پیشانی پر سجدوں کے نشان سجائے
کلمہ پڑھتے، درود گنگناتے
انگلیوں پر تسبیح کے دانے گھماتے
غصہ میں منہ سے جھاگ اگلتے
نفرت میں تھر تھر کانپتے
چادر میں لپٹی یہ روح شیطانی
معصومیت کے بھیس میں بلا ناگہانی
کون جانے
سفید چادر کے اندر نوکیلے دانتوں والا
سینگوں اور خونی پنجوں والا
اک شیطان چھپا ہے
ہماری نمازوں کو
عبادت اور طہارت کو
آلودہ کرنے
کوئی چھوڑ گیا ہے۔
آو اس سے پہلے کہ یہ عفریت
چادر سے نکلے
جیون کا امرت پیئے
اور ہمارے سینوں پر مونگ دلے
اسے کچل دیں ۔
لیکن دیکھو دور سے
پاس جاو گے
رحم اور ہمدردی کے
طلسم میں گھر جاو گے
مار نہ پاو گے
"دور سے؟ لیکن کیسے؟"
تسبیح کو کلائی میں اٹکا کر
انگلیوں میں پتھر تھام کر
بولے
"ایسے!"
ایک ننھا سا گدگدا ہاتھ
باہر نکلا
مٹھی کھلی ہاتھ نیچے گرا
ہاں!
ایسے ۔۔ ایسے ۔۔ ایسے ۔۔
ایک ساتھ
بہت سے پتھر
اس چھوٹے سے بچے پر
ننھے فرستے پر
برستے رہے
چادر کے اندر
بے آواز، بے صدا
نہ ہلا، نہ جلا
نہ جانے کب
اس دنیا سے چلا گیا
فرشتوں نے
معصوم بے زبان روح کو
اس کے حضور پیش کیا
نرمی اور محبت سے
اٹھا لیا جھک کر
اور گلگلے گالوں کو
تھپتھپا کے پوچھا
اتنی بھی کیا جلدی تھی
ابھی ابھی تو آنکھ کھلی تھی
روشن روشن اور چمکیلی
کیوں لے آئے؟ جینے دیتے
ہنسنے اور کھیلنے دیتے
دنیا میں کچھ اجالا پھیلنے دیتے
فرشتوں نے ہاتھ باندھے
اے خدا، اے رب العالمین
تیری دنیا میں
مسکرانے اجالا پھیلانے والوں کو
نیکی اور محبت کو
پاکیزگی اور معصومیت کو
تیرے نام لیوا اور تیرے بندے
سنگسار کر دیتے ہیں
مسجد کے سائے میں ۔۔
سعیدہ گزدر کی باقی نظموں کے موضوعات بھی ایسے ہی سنگین، سنجیدہ وپیچیدہ ہیں۔ پشاور جیل میں پانچ عورتوں کو زنا کے جرم میں بیس بیس کوڑے مارے گئے، بہاول نگر میں برقعہ پہنا کر ایک بیوہ کو بھی پانچ ہزار کے تماش بینوں میں کوڑے مارے گئے۔ ایسے ہی ایک اور الزام میں ساہیوال کی ایک غریب اور اندھی لڑکی کو کوڑوں کی سزا دی گئی تو سعیدہ گزدر کے قلم سے ان سب کا خون باری باری قطرہ قطرہ رسا۔۔ ان کا منظوم اظہار طویل ہے اس لئے چند سطریں ملاحظہ ہوں۔
چاروں طرف پہرے ہیں
سوچ پر، محبت پر
تازیانے اور کوڑے
ہنسنے مسکرانے پر!
خوف کی اس تنہائی میں
بے بسی محرومی میں
سب ہی دشمن لگتے ہیں۔
نہ جانے کب
ہاتھ پاوں باندھ کر
عدالت کے کٹہرے میں
کھڑا کر دیں
"تم پر الزام ہے محبت کا
جسم و جاں نچھاور کرنے کا
ایک ایسے شخص پر
جو قانون اور مذہب کی رو سے
تمہارا رکھوالا اور مالک نہیں
تمھارے جسم کا، روح کا، دل کا
حقدار نہیں۔"
لیکن میں نے اپنی مرضی سے
محبت کے ہاتھوں بڑی مجبوری اور لاچاری سے
سب کچھ اسے سونپا ہے۔
اس کے میٹھے بول میں
پیار اور ہمدردی میں
درد اور زخموں سے چور
کچلی ہوئی یہ روح اور دل
کچھ سنبھلنے لگے
عزت اور انسانیت کی
آرزو کرنے لگے۔
وہ پہلے والا کون تھا
میں نے کب جانا تھا
نکاح کے دو بول پڑھے
دام کھرے طے ہوئے
اور میں اس کی مرضی پر
آنکھ کے اشارے پر
ہاتھوں کی جنبش پر
سر جھکائے
حکم مانتی رہی
ذلت کی اذیت میں جلتی رہی
اف کرنے سے بھی ڈرتی رہی۔
"وہ تمہارا شوہر تھا
نگہباں، مجازی خدا تھا۔
ظلم اور جبر کرنے کا
اپنی مرضی تم پر تھونپنے کا
ہر اختیار رکھتا تھا۔
لہذا یہ عدالت
شرع اور انصاف کی روشنی میں
بدکاری کے جرم میں
تمہیں!
بیس کوڑوں کی
سزا سناتی ہے۔"
۸۰ کے حال میں رہ کر لکھی ان تحریروں میں موضوعات اور بھی بہت سے ہیں، لیکن سب میں منطقی سوال ایک ہے۔ کہ وہ کون سے خدا ہیں جو ہمارے سروں پر مسلط ہیں اور ہمیں ایک دوسرے کے قریب جانے اور ایک دوسرے کو سمجھنے سے روک رہے ہیں؟ بنیادی، ذاتی تعلقات کو انہوں نے عالمگیریت سے جوڑا اور سیاسی و مذہبی دوغلے پن کا پردہ خوب چاک کیا۔
اظہار پر قدغن کا اندازہ اس سے کیجئے کہ ان کی نظم "بیس کوڑے" کو ایک اخبار کے ایڈیٹر نے چھاپنے سے معذرت کرتے کہا تھا، "مجھے بیس کوڑے مار لیجیئے۔ مگر یہ نظم ۔۔ آخر کس طرح چھاپوں؟" ۔۔
اس کے باوجود کئی اخبارات ایسے تھے جو بے دھڑک چھاپتے تھے کہ قانون شہادت پر اعتراض کرنے والے واجب القتل ہیں۔ کتاب کے آغاز ہی میں وہ لکھتی ہیں، اخلاقی ہیراپھیری نے مظلوموں اور معصوموں کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے اور مجرم انصاف کی کرسی پر بیٹھے ہیں۔ انسانی رشتے رحم و ہمدردی کے تمام بندھن اور مہلتیں بے دردی سے قتل ہو رہی ہیں۔
اپنی سیاسی تربیت اور بصیرت کی بدولت وہ اسی نکتے پر پہنچی ہیں کہ محبت اور آزادی دو لازم و ملزوم جذبے ہیں۔ ایک آزاد شخص ہی محبت کرنے کے قابل ہے۔ ایک خوف زدہ، بزدل اور بے بس شخص کس طرح اس پاکیزہ جذبے کی تاب لا سکتا ہے؟ ہاں جس لمحے وہ غلامی کے خلاف سوچنے لگتا ہے، اپنے اور دوسروں کے حالات بدلنے کی ٹھان لیتا ہے، اسی لمحہ وہ محبت کرنے کے لائق ایک آزاد اور سچے انسان کا روپ دھار لیتا ہے۔
اسی محبت، آزادی کی آرزو اور سب کچھ بدل ڈالنے کی خواہش نے گھٹن کے احساس کو بڑھایا۔ سعیدہ گزدر نے خود سے پوچھا، کہیں برداشت کرنا اپنی عادت تو نہیں بن گئی؟ پھر وضاحت کرتے ہوئے تحریک دیتی ہیں کہ ۔۔
"اس خیال نے مجھے چونکا دیا۔ اس خطرناک صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے میرے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے کہ جو کچھ گزر رہی ہے اس کا اظہار جسطرح بھی ممکن ہو کروں۔ نظم میں، نثر میں، آزاد نثری شاعری میں۔۔ بس کسی بھی طرح، کسی بھی ڈھنگ سے۔ اپنے بنیادی اور انسانی حق کو ڈھال بنا لوں بچاو کے لئے تاکہ آنے والی نسلوں کو معلوم ہو سکے کہ بے بسی کے باوجود میری نسل کی عورتیں اور مرد کس آگ میں جلے ہیں۔"
٭٭٭
http://www.adbiduniya.com/2017/02/wajid-ali-syed-on-saeeda-gazdar.html