قانون کی حکمرانی خوشحالی کی ضمانت ہے
آسٹریلیا میں ہمارے ایک دوست کا اپنی بیگم سے جھگڑا ہوگیا ۔ اس جھگڑے میں شدت آئی تو معاملہ خاندانی تنازعات family dispute کے ادارے تک جا پہنچا ۔ انہوں نے خاتون کو اپنی حفاظت میں لے لیا ۔ اس وقت تک ان صاحب کو اپنی غلطی کا اندازہ ہو چکا تھا ۔ وہ چاہتے تھے کہ معاملہ رفع دفع ہو جائے اور وہ بیگم کو منا کر گھر لے آئیں جو اس وقت حکومت کی فراہم کردہ عارضی رہائش گا ہ میں رہائش پذیر تھیں ۔ بیگم کو منانے کے لئے ان سے بات کرنا ضروری تھا جب کہ ان صاحب کی اپنی ہی بیگم تک رسائی نا ممکن بنا دی گئی تھی ۔
اتفاق سے اس ادارے میں ہمارے ایک پاکستانی دوست اہم عہدے پر فائز تھے ۔ اپنے دوست کی درخواست پر میں نے اس افسر دوست سے کہا کہ ان میاں بیوی کی ملاقات ہی کر وا دیں تاکہ ان کے درمیان صلح ہو جائے ۔ ہمارے یہ افسر دوست انتہائی ایماندار، سچے اور کھرے انسان ہیں ۔ انہوں نے ہماری بات غور سے سنی اور کچھ کرنے کا وعدہ کرکے چلے گئے ۔ اگلے دن انہوں نے فون کیا اور بتایا ’’ معاملہ پیچیدہ ہے ۔ اپنے دوست کو کہیں کہ انتظار کریں ‘‘۔ بالآخر معاملہ کورٹ تک پہنچا ۔ وہاں میاں بیوی کی ملاقات ہوئی اور ان کے درمیان صلح ہو گئی۔ کافی دنوں کے بعد اس سرکاری افسر دوست سے ملاقات ہوئی تو میں نے اس کیس کے بارے میں دریافت کیا ۔ اس وقت بھی ہمارے اس ذمہ دار دوست نے کیس کی تفصیلات میں جانے سے گریز کیا کیونکہ وہ قانوناَ اس کے پابند تھے ۔ تاہم انہوں نے یہ ضرور بتایا کہ انہوں نے اس فائل کا مطالعہ کیا تھا اور متعلقہ افسر سے بھی بات ہو ئی تھی جو ہمارے دوست کا ماتحت ہے ۔ لیکن قانوناَ میرے یہ دوست نہ مجھے یہ تفصیلات بتا سکتے تھے اور نہ کوئی سفارش کر سکتے تھے ۔ انہوں نے مزید کہا ’’ اگر یہ کیس میرے پاس ہوتا تو بھی میں آپ کے دوست کی مدد نہیں کر سکتا تھا کیونکہ میں صرٖ ف وہی کر سکتا تھا جس کی قانون اجازت دیتا ہے ۔ اس سے ذرا بھی اوپر نیچے نہیں کر سکتا تھا ۔‘‘ آسٹریلیا میں کوئی سرکاری افسر اپنی حد سے ذرا بھی تجاوز نہیں کر سکتا ورنہ نہ صرف اسے نوکری سے ہاتھ دھونے پڑیں گے بلکہ اس کا ریکارڈ ہمیشہ کے لئے خراب ہو جائے گا ۔ کیونکہ یہاں سرکاری عمال کی نہیں بلکہ قانون کی عمل داری ہے ۔ سرکاری عمال کی حیثیت قانون کی مشینری چلانے والے پرزے سے زیادہ نہیں ہے ۔
اسی طرح ہمارے ایک عزیز کا پروموشن ہوا تو وہ اپنے آفس کے باس بن گئے ۔ کسی نے ان سے پوچھا ’’ ماتحتوں پر کس قدر اختیارات حاصل ہیں ۔ ‘‘ انہوں نے بتایا ’’میرے ماتحت اپنا کام کرتے ہیں اور میں اپنا ۔ ہم ایک دوسرے کے کام میں مداخلت نہیں کرتے ۔ ہاں کسی کو مدد درکار ہو تو مجھے اپنا کام چھوڑ کر اس کی مدد کرنی پڑتی ہے ۔ اس کے علاوہ مجھے ان پر کوئی اختیارات یا برتری حاصل نہیں ہے ۔ سب کو یکساں حقوق حاصل ہیں جو بلا کسی تاخیر اور رکاوٹ کے انہیں مل جاتے ہیں ۔ ہم سب کولیگ ہیں اور مل جل کر کام کرتے ہیں ۔ یہاں آقا اور غلا م کا تصور نہیں ہے بلکہ ہر شخص کو یکساں عزت اور احترام حاصل ہے۔
آسٹریلیا میں نظامِ کار کی ایک اور مثال پیش کرتا چلوں ۔ گاڑی کے حادثے اور انشورنس کلیم کے سلسلے میں ایک مرتبہ مجھے پولیس میں رپورٹ درج کروانا پڑی ۔ دراصل سڑک پر کھڑی میری گاڑی سے کوئی ایکسیڈنٹ کرکے بھاگ گیا تھا۔ اس کیس کی پیش رفت معلوم کرنے میں پولیس اسٹیشن گیا تو کا ؤنٹر پر پولیس انچارج خود موجود تھا ۔ کیس کا حوالہ نمبر دیکھ کر اس نے کمپیوٹر پر چیک کیا اور مجھے بتایا ’’ کیس کی انکوائری جاری ہے جلد ہی پولیس آپ سے رابطہ کرے گی ‘‘۔ میں نے پوچھا ’’ کیا آپ نے ایکسیڈنٹ کرنے والے کا پتہ چلا لیا ہے ‘‘۔ آفیسر کہنے لگا ’’ اس کیس کا انچارج آفیسر کانسٹیبل جارج ہے جو ابھی یہاں نہیں ہے وہی کیس کی تفصیلات بتا سکتا ہے ۔ ‘‘ میں نے کہا ’’ لیکن آپ یہاں کے انچارج ہیں ، آپ ہی بتا دیں ‘‘۔ آفیسر کہنے لگا ’’ بے شک میں انچارج ہوں لیکن میں کسی دسرے کے کیس میں نہ تو مداخلت کر سکتا ہوں اور نہ اس پر کوئی بات کر سکتا ہوں ۔ یہ میرے دائرہ اختیار سے باہر ہے ۔ میں آپ کا پیغام جارج کو دے دوں گا اور وہ آتے ہی آپ سے رابطہ کرے گا ‘‘۔ یہ آسٹریلیا میں پولیس اور دوسرے اداروں کا طریقِ کار ہے ۔ اگر کیس کا انچارج کوئی کانسٹیبل ہے تو اس کیس کے بارے میں میڈیا کے سوالات کے جواب بھی وہی دے گا ۔ کوئی افسر اس کے کام میں مداخلت نہیں کرتا چاہے وہ کتنا ہی سینئر کیوں نہ ہو ۔
ان واقعات سے قارئین کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ آسٹریلیا اور اس جیسے دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں قانون کی حکمرانی ہے۔ یہاں سرکاری اور نجی اداروں میں افسران کو اتنے ہی اختیارات حاصل ہوتے ہیں جو قانون میں درج ہیں ۔ نہ اس سے کم اور نہ اس سے زیادہ ۔ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں ۔ کمزور سے کمزور شخص کو بھی قانون کی سرپرستی اور تحفظ حاصل ہے اور طاقت ور سے طاقت ور بھی قانون سے مبرا نہیں ہے ۔ یہاں کسی شخص کو اپنا حق حاصل کرنے کے لئے کہیں جانے ، شورو غوغا کرنے اور فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ حقوق اسے اپنے دفتر اور اپنے گھر کے اندر حاصل ہیں ۔ صاحبان اختیاریہ حقوق بروقت ادا کرکے کوئی احسان بھی نہیں کرتے کیونکہ یہ قانونی حقوق ہیں جو ہر صورت میں ادا کرنے پڑتے ہیں ۔ مثلاَ ہر ہفتے جمعرات والے دن ملازمین کے اکاؤنٹ میں ان کی تنخواہ جمع کرا دی جاتی ہے ۔ اس میں تاخیر کا کوئی تصور ہی نہیں ہے ۔ اسی طرح جو تنخواہ حکومت نے مقرر کر رکھی ہے اس سے کم نہیں دی جا سکتی ۔ اس کے علاوہ قانون کے مطابق الاؤنسز اور دیگر واجبات بھی لازمی ادا کرنے پڑتے ہیں ۔
آسٹریلیا کے مقابلے میں وطنِ عزیز پاکستان میں قانون کا وجود صرف کتابوں میں نظر آتا ہے ۔ قانون کا یہ وجود زمین پر کہیں نظر نہیں آتا ۔ قانون کی غیر موجودگی یا اس کی غیر عمل داری کی وجہ سے ایک خلا پیدا ہو گیا ہے جسے غیر قانونی طاقتوں نے پر کیا ہوا ہے ۔ وہاں کتابی قانون کے بجائے طاقت کا قانون نافذ ہے ۔ یہ طاقت مال و دولت اور جاہ حشمت کی بھی ہوسکتی ہے اور اختیارات کی بھی۔ سرکاری کرسی کے ناجائز استعمال کی بھی ہو سکتی ہے اور غنڈہ گردی کی بھی ۔ زبان درازی کی بھی ہو سکتی ہے اور دست درازی کی بھی ۔ طاقت کے اس قانون کے نتیجے میں کمزور شخص کیڑے مکوڑے کی طرح پس کر رہ جاتا ہے ۔ اس کے جائز اور قانونی حقوق بھی اسے حاصل نہیں ہوتے ۔ وہ عام آدمی سے غلام اور بعض اوقات حیوان بنا دیا جاتا ہے ۔ اس کا نہ کوئی پرسانِ حال ہوتا ہے اور نہ قانون کی مدد اسے حاصل ہوتی ہے۔ اپنے حقوق حاصل کرنے بلکہ زندہ رہنے کے لئے اسی طاقتور کے پاؤں کی خاک بننا پڑتا ہے ۔
دوسری طرف سرکاری افسر ، پولیس افسر ، سیاستدان، آجر ، حکمران اور غنڈے ان کمزور انسانوں کے آقا بلکہ خدا بنے نظر آتے ہیں ۔ وہ ان غریبوں اور کمزوروں کی جانوں اور عزتوں سے کھیلتے ہیں اور ان کی بے بسی پر قہقہے لگاتے ہیں ۔ سرکاری افسر ماتحتوں سے ذاتی کا م کرواتے ہیں ، انہیں بات بات پر ذلیل کرتے ہیں اور ان کی اجرت اور رخصت روک کر انہیں اپنے پاؤں چاٹنے پر مجبور کرتے ہیں ۔ ان کے جائز کام اور حقوق سلب کرکے انہیں اپنے در کے چکر لگواتے ہیں، رشوت اور سفارش طلب کرتے ہیں۔ اس طرح وہ ان کی عزت نفس تباہ کرتے ہیں ۔
اس طرح کمزور شخص پست سے پست اور طاقت ور بلند سے بلند ہوتا چلا جاتا ہے ۔ کم زور کو اپنی تنخواہ اور پنشن لینے کے لئے کمیشن دینا پڑتا ہے ۔ چھٹی لینی ہو تو حق سمجھ کر نہیں بھیک سمجھ کر گڑگڑانا پڑتا ہے ۔ اپنی زمین کا فرد لینے کے لئے پٹواری ، ایف آئی آر کٹوانے کے لئے محرر ، کیریکٹر سرٹیفیکیٹ لینے کے لئے تھانیدار ، ٹرین کا ٹکٹ لینے کے لئے کلرک ، بیرونِ ملک جانے والوں کو کسٹم ، ائرلائن اور امیگیریشن والوں کو ، حتیٰ کہ سکول میں داخلے کے لئے اساتذہ کو رشوت دینی پڑتی ہے ۔ عوامی دفاتر میں صرٖف نوٹوں کا قانون چلتا ہے اور اسمبلی میں لوٹوں کا ۔اس نظام میں نہ تو ٹیکس دینا پڑتا ہے اور نہ غیر قانونی آمدنی پر کوئی روک ٹوک ہے ۔ لہذا امیر امیر تر اور طاقت ور بے لگام ہوتا جا رہا ہے ۔ صاحبانِ اقتدار کی باز پرس کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔ یہ سب لوگ قانون سے بالاترہیں ۔
سرکاری افسر قانون کا حلف اٹھاتا ہے اور قائدِ اعظم کی تصویر کے سائے میں اس قانون کی دھجیاں بکھیرتا ہے۔ سیاست دان عوام کا ووٹ لے کر اسمبلی میں جاتا ہے اور اپنے اور اپنے طبقے کے مفادات میں جت جاتا ہے اسے عوام تو درکنار خدا کا بھی خوف نہیں ہوتا ۔ زمین دار ، صنعت کار اور بڑے کاروباری بھی اسی اشرافیہ کا حصہ ہیں جو قانون سے بالاتر ہیں ۔ جو اپنے کاشتکاروں اور ملازمین کا خون چوس کر اور ملک کی معیشت کو ٹیکس سے محروم رکھ کر اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں ۔ وہ ملک کو تباہ کر رہے ہیں اورغریبوں کا جینا اجیرن کئے ہوئے ہیں ۔ باقی رہ گئے عام عوام تو اس قانون سے ماورا معاشرے میں ان کی حیثیت حقیر کیڑے کی سی ہے ۔ ان کی نہ کوئی شنوائی ہے اور نہ کو ئی پرسانِ حال ہے ۔ کیونکہ اس معاشرے میں جس کی لاٹھی اسی کی بھینس ہے ۔ یہی پاکستان کا المیہ ہے کہ یہاں قانون بالا دست نہیں بلکہ بے بس ہے ۔
ان تمام مسائل کا حل اور کنجی قانون پر عمل درآمد ہے ۔ اگر افراد اور ادارے قانون کے مطابق اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہ کراپنے فرائض منصبی ادا کریں ۔ قانون ہر شخص کو یکساں نظر سے دیکھے ۔ مجرم کو سزا ملے اور شریف شہریوں کو تحفظ حاصل ہو ۔ قانون پر عمل درآمد ہو تو معاشرے میں خود بخود انصاف بھی آ جائے گا ۔ اس سے ٹیکس سسٹم بہتر ہوگا اور ملک کی معیشت مضبوط سے مضبوط ہو تی چلی جائے گی ۔ قانون کے راستے پر چل کر ملک تیزی سے ترقی کر سکتا ہے۔ اس سے عوام خوشحال، مطمئن اور پر اعتماد ہوں گے۔ وہ پہلے سے بڑھ کر محنت کریں گے اور اپنی اپنے کنبے اپنے ملک کی ترقی میں زیادہ فعال کردار ادا کریں گے ۔ اس سے پاکستان دنیا کی صفوں میں نمایاں اور باوقار مقام حاصل کرپائے گا ۔ کاش وہ دن جلد آئے ۔
[email protected]
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔