چھے روز ہ دھرنے کے بعدمچھ میں ہزارہ برادری کے گیارہ کان کنوں کی لاشوں کو بالآخر دفنانے کا فیصلہ کرلیا گیا۔مقتولین کے لواحقین نے حکومت کے وزرا اور نمایندگان کے وعدوں پر یقین کر لیا اور وزیر اعظم کی آمد کے مطالبے سے دستبردار ہوتے ہوئے اپنا احتجاج ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔
اس کے ساتھ ہی کراچی، لاہور، اسلام آبا د اور دیگر شہروں کے دھرنے بھی اُٹھا لیے گئے۔گیارہ بے گناہ انسانوں کے قتلِ ناحق کا یہ اندوہ ناک واقعہ جہاں لواحقین کے لیے صدمے اور دُکھ کا باعث بنا وہاں پورے ملک کی سیاست اور معاشرت میں وجہ نزاع اور فرقہ ورانہ کشیدگی کا سبب بھی بنا۔ جو بذاتِ خود انتہائی افسوس سناک امر ہے۔ایسے واقعات صرف پاکستان جیسے معاشروں کا المیہ ہیں۔ ورنہ جن ملکوں میں قانون کی عمل داری ہوتی ہے اور قانون سختی سے عمل پیراہوتا ہے وہاں یہ صرف پولیس کا مسئلہ ہوتا اور کسی کو اس میں مداخلت کرنے، احتجاج کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔حتیٰ کہ لواحقین کو اپنا وکیل کرنے کی بھی ضرورت نہ ہوتی کیونکہ یہ ریاست کے خلاف جرم سمجھا جاتا۔ریاست تندہی سے اس کی پیروی کرتی حتی کہ قاتلوں کو کیفرِ کردار تک پہنچاتی۔
وطنِ عزیز میں قانون چونکہ مجرموں اور زور آوروں کے لیے موم کی ناک ہے، پولیس نااہل ہے اور عدالتیں فوری اور سستا انصاف دینے سے معذور ہیں اس لیے مجرم آزاد اور دندناتے پھرتے ہیں۔مظلوموں اور بے بسوں کی کہیں داد رسی نہیں۔ کہیں وہ یہ ناانصافیاں تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کرنے پر مجبور ہیں۔ کہیں رشوت اور سفارش سے انصاف حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کہیں مچھ کی طرح لاشیں سڑک پر رکھ کر احتجاج کرنے پر مجبور ہیں۔ کئی لوگوں کو جب انصاف نہیں ملتا تو تو وہ قانون اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں اور انتقام کی راہ اختیار کرتے ہیں جو مزید قانون شکنی کی شکل میں سامنے آتا ہے۔اس سے بھی زیادہ تباہ کن صورتِ حال وہ ہوتی ہے جب یہ قانون شکن عناصر جتھوں کی شکل اختیار کر کے مجموعی امنِ عامہ اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں۔
ادھر ملک دشمن قوتیں اور مفاد پرست سیاست دان ایسے لوگوں کو اپنے مذموم مقاصد کاآلہ کار بنانے کے لیے تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ وہ ایسے جتھوں کی مدد سے ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے۔ جس سے ملک میں انتشار، بدامنی اور خوف و ہراس میں اضافہ ہو جاتا ہے۔یہی صورتِ حال اس وقت پاکستان خصوصاََ بلوچستان میں ہے۔ بنیادی مسئلہ امن و امان کا ہے جو پولیس اور دیگر قوانین نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے۔ان کی اہلیت کا امتحان ہے۔ ان کی کارکردگی کی آزمائش ہے۔ حکومت اور دیگر سیاست دانوں کی نیت، ارادے اور کوششوں پر سوالیہ نشان ہے۔ کیا یہ لوگ اپنا فرض بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں۔کیا پولیس اتنی بااختیار اور قوی ہے کہ وہ بلا خوف و خطر مجرموں پر ہاتھ ڈال سکیں۔ کیا ہماری عدالتیں اس قابل ہیں کہ وہ بلاتاخیر مبنی بر انصاف فیصلے سنا کر مجرموں کی بیخ کنی کر سکیں۔ کیا ہمارے سیاست دان ان اداروں کو اتنا مضبوط بننے دے رہے ہیں کہ وہ آزادی سے کام کرتے ہوئے ان مجرموں پر ہاتھ ڈا ل سکیں۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ مجرم ان سیاست دانوں کے زیرِ سایہ پرورش پارہے ہوں اور وہ انہیں اپنے ذاتی، گروہی اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہوں۔بد قسمتی سے حالات و واقعات اسی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔ ہمارے نام نہاد رہنما اور سیاسی جماعتیں حصولِ اقتدار اور دوامِ اقتدار کے لیے ان اداروں کے مضبوط اور بااختیار بننے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ عوام کو مٹھی میں رکھنے، انہیں بے بس کر کے اپنے آگے جھکنے اور ان کے ووٹ ہتھیانے کے لیے وہ ان اداروں کو کمزور اوربے بس رکھنا چاہتے ہیں۔ بصورت دیگرلوگوں کو گھر بیٹھے سستا اور فوری انصاف ملنے لگا تو ایم این اے اور ایم پی ایز کا دروازہ کون کھٹکھٹائے گا۔ پولیس اگر بے گناہوں کو تنگ نہیں کرے گی اورمجرموں پر بلا تخصیص ہاتھ ڈالنے کے قابل ہو جائے گی تو سیاست دانوں کو لوگوں کو مٹھی میں رکھنا مشکل ہو گا۔غریب عوام ان وڈیروں، سرمایہ داروں اور مل مالکان کروڑ پتیوں کو چھوڑ کر اپنے میں سے عوامی نمائندے چن سکتے ہیں۔سیاست دان ایسا کبھی نہیں ہونے دیں گے۔
یہی وجہ ہے قیام پاکستان سے لے کر اب تک ان اداروں کو مضبوط نہیں ہونے دیا گیا۔ پولیس اور عدالتوں کو با اختیار نہیں بننے دیا گیا۔قانون کی بالا دستی قائم نہیں ہونے دی گئی۔ یہ مشکل کام نہیں تھا۔لیکن اربابِ اختیار کی ترجیحات کا حصہ تھا، نہ ہے۔یوں بے چارے عوام دندناتے مجرموں،ظالم پولیس، ناکارہ عدالتی نظام اور بے حس حکمرانوں کے درمیان پس رہے ہیں۔ اس کی واضح مثال ان سیاست دانوں کا دہشت گردی کے خلاف متفقہ قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد نہ ہونے دینا ہے۔یہ پلان سانحہ پشاور کے بعد تمام سیاسی جماعتوں اور اہم قومی ادروں کی رضامندی سے بنایا گیا تھا۔ اس کا سب بڑا اور اہم فیصلہ یہ تھا کہ دہشت گردی کے مقدمے فوجی عدالت میں نمٹائے جائیں گے۔ تاکہ خطر ناک دہشت گردوں کے بلا خوف و خطر اور بلا تاخیر فیصلے سنائے جا سکیں۔ اس متفقہ منصوبے کے مثبت نتائج سامنے آئے اور پاکستان کے طول و عرض میں ہونے والی کئی سالوں کی مسلسل دہشت گردی کے واقعات تقریباََ ختم ہو گئے۔ لیکن بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کے پرداختہ کچھ بلوچ علیحدگی پسند اور کچھ انتہا پسند فرقہ وارانہ تنظیمیں بلوچستان میں اب بھی دہشت گردی میں مصروف ہیں۔
ہزارہ برادری کے ان کان کنوں کے قتل عام کا حالیہ واقعہ انہی کی کارستانی ہے۔ یہ اتنے طاقت ور اور مسلح ہیں کہ پولیس کے لیے ان پر ہاتھ ڈالنا محال ہے۔ اگر یہ پکڑے جائیں تو متعلقہ پولیس آفیسر حتیٰ کہ جج کی جان کو بھی خطرہ درپیش ہوتاہے۔اس وجہ سے فوج اور فوجی عدالتیں ان کی بیخ کنی کے لیے ناگزیر ہیں۔ مگر مولانا فضل الرحمان سمیت متعدد سیاست دانوں کی مداخلت اور مخالفت کی وجہ سے فوجی عدالتوں سے یہ اختیار لے لیا گیا ہے۔ جس کا براہ راست فائدہ ان دہشت گردوں کو ہوا اور وہ پہلے سے زیادہ فعال ہو گئے ہیں۔ورنہ اب تک ان کا قلع قمع ہو چکا ہوتا۔مانا کہ فوجی عدالتیں مستقل حل نہیں ہیں۔جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے، دیر پا حل متعلقہ اداروں کو مضبوط اور با اختیار بنانا ہے۔ تاہم معروضی اور موجودہ حالات کے تناظر میں اس مسئلے کا حل نیشنل ایکشن پلان پر عمل در آمد میں پوشیدہ ہے۔ جو ان سیاست دانوں کی ہٹ دھرمی اور خود غرضی کی وجہ سے معطل ہے۔ نہ جانے انہیں ایسے مجرموں اور دہشت گردوں سے کیا ہمدردی ہے کہ وہ ان کے حقوق کے لیے سرگرم عمل ہیں جب کہ بے گناہوں کا خون انہیں نظر نہیں آتا۔ اگر کہیں نظر آتا بھی ہے تو اپنی سیاست چمکانے کے لیے۔
جہاں کہیں کیمرہ اور رپورٹرز نظر آتے ہیں وہیں ان کو عوام کا درد جاگتا ہے اور جہاں اصل ضرورت ہوتی ہے وہاں سے یہ بے حس بلکہ سفاک بن کر گزر جاتے ہیں۔کرونا کی وبا میں جلسے منعقد کرنا ان کی سفاکیت کا مظہر ہے۔ہزارہ برادری کے ان مظلوموں کے دھرنے کو جس طرح حکومت نے ہٹ دھرمی اوراپوزیشن نے سیاست کی نذر کیا ہے وہ قابلِ مذمت ہے۔ ان کے کسی بھی عمل سے عوام کی درد آشنائی ہویدا نہیں ہے۔ جب تک ملک میں قانون کی عمل داری قائم نہیں ہوتی یہی ہوتا رہے گا۔