ایک آٹو ورکشاپ میں کھڑی ڈائی ہاٹسو Mira پر میری نظر پڑی جس کی چھت اور ونڈ سکرین کو کافی نقصان پہنچا تھا۔ قریب سے دیکھا تو کہیں کہیں خون کے دھبے نظر آئے۔ میں نے ازراہ تجسس ورکشاپ انچارج سے پوچھا تو انکشاف ہوا کہ حادثہ کسی سڑک پر چلتے ہوئے نہیں بلکہ گھر کے ڈرائیو وے میں پارک گاڑی کے ساتھ پیش آیا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ کسی نئی ہاؤسنگ سوسائٹی میں پڑوس کے زیر تعمیر مکان کے فرسٹ فلور کی بیرونی دیوار کا پلستر ہورہا تھا۔ متاثرہ گاڑی کے مالک نے اپنی دوسری کار پورچ سے ذرا باہر کھڑی کی تھی۔ کام کے دوران scaffolding (پھٹے بانس سے بنا ورک پلیٹ فارم) ٹوٹا جس کے نتیجے میں مزدور اور ٹوٹے ہوئے پھٹے نیچے کھڑی گاڑی پر آگرے۔ گرنے سے پہلے مزدور کا سر مکان کے آہنی جنگلے سے ٹکرا کر زخمی ہوا جبکہ گاڑی پر گرنے سے اس کی کہنی اور پسلیاں بھی فریکچر ہوگئیں۔ زخمی کو ٹھیکیدار اپنی سوزوکی وین میں ہسپتال لے گیا۔
دوسری طرف 15 لاکھ کی قیمتی گاڑی کا بھاری نقصان ہوچکا تھا مگر اس کا ہرجانہ کون دیتا؟ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ متاثرہ گاڑی کی صرف 3T انشورنس ہوئی ہے جس میں چوری اور مکمل نقصان کی صورت میں کچھ رقم مل سکتی ہے لیکن مرمت کیلئے کچھ نہیں ملے گا۔ اور یہاں پاکستانی انشورنس والے اس گاڑی کو ٹوٹل Loss ماننے کو تیار ہی نہیں ہوں گے۔ جس مزدور کی غلطی سے یہ حادثہ ہوا اس میں تو یہ نقصان پورا کرنے کی سکت نہیں۔ ٹھیکیدار زخمی کو ہسپتال پہنچا کر غائب ہوچکا تھا۔ جب پڑوسی مالک مکان سے شکوہ کیا تو اس نے بھی یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ میں تو اس کا ذمہ دار نہیں۔ سوچیں اگر اس وقت گاڑی کے بجائے گھر کا کوئی فرد نیچے کھڑا ہوتا تو اس کی جان جاسکتی تھی۔ اس لئے اللہ کا شکر ادا کریں اور سمجھیں کہ صدقہ نکل گیا۔ کہنے کا مقصد یہ کہ نااہل جاہل کنسٹرکشن ورکرز کی غفلت سے ایک مزدور شدید زخمی ہوا اور پڑوسی کو لاکھوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑ گیا۔ اب اگر وہ ان پر مقدمہ بھی دائر کرے تو عدالت کے دھکے کھانے کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔
یہاں ہر روز ایسے درجنوں واقعات ہوتے ہیں۔ کہیں کوئی مزدور بلندی سے گر کر ہلاک یا مفلوج ہوجاتا ہے، کسی فیکٹری میں الیکٹریشن کرنٹ لگنے سے مرتا ہے تو کہیں کیٹرنگ، ریستوران میں فوڈ سیفٹی نظر انداز کرنے سے لوگ فوڈ پوائزننگ کا شکار ہوکر ہسپتال پہنچتے ہیں۔
ایسے واقعات کو "نصیب کا لکھا" اور "اللہ کی مرضی" کہہ کر دبا دیا جاتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ نااہل سفارشی بیوروکریٹس قوانین پر عملدرآمد کروانے میں بری طرح ناکام ہیں جس کی وجہ سے ایسے حادثات و واقعات میں ہر روز بھاری جانی و مالی نقصان ہوتا ہے۔ ان میں سے اکثر واقعات نہ کبھی اخبار میں رپورٹ ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کے کوئی اعداد و شمار مرتب کئے جاتے ہیں۔
پاکستان میں بھی بنیادی سیفٹی قوانین تو موجود ہیں مگر صرف کتابوں کی حد تک۔ ماسوائے چند بڑی کمپنیوں کے ان پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ہو یا اینٹی انکروچمنٹ یونٹ، سول ڈیفنس ہو یا فوڈ اتھارٹی، ماحولیاتی انسکپٹر ہوں یا ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی، ہر شعبے میں نااہل ترین سفارشی افسر تعینات ہیں۔ یہ لوگ سال میں محض 2 سے 3 بار چھاپہ مار کاروائی کرتے ہیں جس میں صرف جرمانے کرکے اپنے ڈیپارٹمنٹ کا ریوینیو اکھٹا کیا جاتا ہے۔ اس "کریک ڈاؤن" کے چند ہی روز بعد پھر سب ویسے ہی الٹ پلٹ ہوجاتا ہے۔
اب ذرا سوچیں اگر ان قوانین کی enforcement کیلئے تمام سرکاری اداروں کی تنظیم نو کرکے ان کو مکمل طور پر فعال کیا جائے تو اس سے سیکنڑوں ہزاروں براہ راست ملازمتیں تو ملیں گی، اس کے ساتھ قانون کا سخت نفاذ لاکھوں کی تعداد میں indirect روزگار کے مواقع بھی پیدا کرسکتا ہے۔
لاکھوں نوجوانوں کو consultancy کی صورت میں یہ روزگار مل سکتا ہے۔ ریستورانوں میں فوڈ سیفٹی کنسلٹنٹ، تعمیرات کے شعبے میں بلڈنگ لاز اور کنسٹرکشن سیفٹی آفیسر، فیکٹریوں، ماس پروڈکشن یونٹس میں Environmental اور ورک سیفٹی (OSHA) کنسلٹنٹس، ٹرانسپورٹ انڈسٹری میں ڈرائیونگ سیفٹی انسٹرکٹر اور گاڑیوں کے پرائیویٹ سیفٹی انسپکٹر سمیت بہت سے شعبوں میں کنسلٹنسی سروسز فراہم کی جاسکتی ہیں۔ مگر یہ صرف اسی صورت ممکن ہے جب قانون شکنی کرنے پر سزا اور جرمانوں کا ڈر ہو ورنہ ایسے کنسلٹنٹس کی سروس لینے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوگی۔ صرف انٹرمیڈیٹ کی ڈگری رکھنے والے نوجوان بھی مختلف مختصر دورانیئے کے ٹریننگ کورس ڈپلومہ وغیرہ کرکے کنسلٹنٹ بننے لائق ہوسکتے ہیں۔ اگرچہ ایسا کرنے سے کاروباری افراد کے اخراجات میں کچھ اضافہ ہوگا مگر اس کے بدلے حکومت انہیں ٹیکس چھوٹ اور بجلی کے بلوں وغیرہ میں رعایت دے تو اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہوگا۔ سفیٹی اور ماحولیات کے قوانین پر عمل نہ کرنے سے بظاہر کچھ پیسے تو بچ جاتے ہیں لیکن اس کی سماجی اور ماحولیاتی قیمت (Social and Environmental Costs) سب کو ادا کرنا پڑتی ہے۔ اس کے برعکس قوانین پر عمل کروانے سے جو ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے اور جانی و مالی نقصان میں کمی آئے گی، اس سے ملکی معیشت بھی مضبوط ہوگی اور معاشرے میں امن اور تحفظ کا احساس بھی بڑھے گا۔