قانونِ اتمامِ حجت اور اس کے اطلاقات
چند نمایاں اعتراضات کا جائزہ
قسط 9
۔۔۔۔
55) رسولوں کی یہ بعثت اور یہ دنیاوی عذاب اپنے وقت کے بڑے شہروں، جیسے دارالحکومت وغیرہ میں آتے تھے۔ ہر ہر شہر میں یہ واقعہ پیش نہیں آیا۔ اس پر دلیل یہ آیت ہے:
وَمَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرَىٰ حَتَّىٰ يَبْعَثَ فِي أُمِّهَا رَسُولًا يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا وَمَا كُنَّا مُهْلِكِي الْقُرَىٰ إِلَّا وَأَهْلُهَا ظَالِمُونَ (سورہ القصص، آیت 59)
حقیقت یہ ہے کہ تیرا پروردگار اِن بستیوں کو ہلاک کرنے والا نہیں تھا، جب تک اِن کے مرکز میں کسی رسول کو نہ بھیج لے جو ہماری آیتیں اِنھیں پڑھ کر سنا دے۔ اِس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم بستیوں کو اُسی وقت ہلاک کرتے ہیں، جب اُن کے لوگ اپنے اوپر ظلم ڈھانے والے بن جاتے ہیں۔
چنانچہ قرآن مجید میں جہاں ایسے مواقع بیان میں 'قریہ' کا لفظ بھی آیا ہے تو اس سے مراد بڑی بستی، یا بڑا شہر ہی ہوگا، کیونکہ قریہ کا لفظ بڑے شہروں کے لیے معروف ہے۔
6) ہر رسول اپنی دعوت کے نتیجے میں درج ذیل مراحل سے گزرا:
انذار
انذار ِعام
آیت
اتمامِ حجت
ہجرت و براءت
جزا و سزا
چونکہ قانون اتمام حجت پر ہونے والے اعتراضات اور اشکالات کا محل 'جزا و سزا' کا آخری مرحلہ ہے، اس لیے ہم باقی مراحل کی تفصیل میں نہیں جائیں گے۔ ان کی تفصیل، غامدی صاحب کی کتاب، 'میزان'، ان کے دیگر مضامین اور خطبات سے معلوم کی جا سکتی ہے۔
'جزا و سزا' کے آخری مرحلے کے بارے میں جناب غامدی صاحب اپنی کتاب، 'میزان' میں لکھتے ہیں:
"یہ آخری مرحلہ ہے ۔ اِس میں آسمان کی عدالت زمین پر قائم ہوتی ہے ،خدا کی دینونت کا ظہور ہوتا ہے اور پیغمبر کی قوم کے لیے ایک قیامت صغریٰ برپا ہو جاتی ہے۔"
اس قیامت صغرٰی میں روز جزا ہی کی طرح مومنین کو کامیابی، اور ان کے مخالفین اور منکرین کو ذلت و رسوائی اور تباہی و بربادی کا عذاب دیا جاتا ہے۔ اسی لیے قرآن میں خدا کے منکرین کے لیے اس فیصلے کو عذاب سے تعبیر کیا گیا ہے، اور ہم جانتے ہیں کہ عذاب صرف خدا ہی نازل کر سکتا ہے۔
حضرت محمد ﷺ بھی اصطلاحی معنی میں رسول تھے اور آپؐ کی قوم کو بھی اس ضابطہء الہی سے کوئی استثنا نہیں تھا۔ قرآن مجید میں بار بار آپ کی قوم کو اس دنیاوی عذاب سے خبردار کیا گیا تھا۔ مثلاً، سورہ القمر میں گزشتہ رسولوں کی قوموں پر ان کے انکار کے بعد آنے والے دنیاوی عذاب کی سرگزشت ایک ایک کر کے بیان کرنے کے بعد اللہ تعالی نے محمد رسول اللہ ﷺ کے منکرین کو مخاطب کر کے فرمایا:
أَكُفَّارُكُمْ خَيْرٌ مِّنْ أُولَـٰئِكُمْ أَمْ لَكُم بَرَاءَةٌ فِي الزُّبُرِ (سورہ القمر 54: 43)
(قریش کے لوگو، پھر) تمھارے یہ منکرین کیا اُن سے کچھ بہتر ہیں یا صحیفوں میں تمھارے لیے کوئی معافی لکھی ہوئی ہے؟
تاہم، ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے منکرین پر گزشتہ امتوں کے منکرین کی طرح کسی قدرتی آفت کا عذاب نازل نہیں ہوا۔ اس دفعہ عذاب صحابہ کے ہاتھوں ان پر نازل ہوا:
قاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّـهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِينَ (سورہ التوبہ آیت 14)
ان سے لڑو، اللہ تمھارے ہاتھوں سے اُن کو سزا دے گا اور اُنھیں ذلیل و خوار کرے گا اور تمھیں اُن پر غلبہ عطا فرمائے گا اور مومنوں کے ایک گروہ کے کلیجے (اِس سے) ٹھنڈے کرے گا۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔
“