قانونِ اتمامِ حجت اور اس کے اطلاقات
چند نمایاں اعتراضات کا جائزہ
قسط 8
۔۔۔۔
نبی اور رسول میں فرق
چند اشکالات کا جائزہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں اسماعیلؑ کے بارے میں ایک اشکال پیش کیا جاتا ہے کہ قرآن مجید میں اسماعیلؑ کو بھی رسول کہا گیا ہے:
وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِسْمَاعِيلَ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُولًا نَّبِيًّا (سورہ مریم، 19:54)
اور اِس کتاب میں اسمٰعیل کا ذکر کرو۔ وہ وعدے کا سچا اور رسول نبی تھا۔
لیکن اسماعیلؑ کے بارے میں انذار سے جزا و سزا تک ان سب مراحل کا ذکر نہیں ملتا، جو رسولوں کی سرگزشت میں ہم پاتے ہیں۔ معلوم ہونا چاہیے کہ اسماعیلؑ کی سرگزشت کا تفصیلی تذکرہ قرآن مجید میں نہیں کیا گیا، جیسا کہ ابراہیمؑ کی دعوت کے بھی تمام مراحل کا ذکر نہیں کیا گیا، حالانکہ قرآن بیان کرتا ہے کہ دیگر رسولوں کی طرح ابراہیمؑ کے انذار کے بعد، ان کی منکر قوم پر بھی جزا و سزا کا آخری مرحلہ یعنی دنیاوی عذاب آیا تھا:
أَلَمْ يَأْتِهِمْ نَبَأُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَقَوْمِ إِبْرَاهِيمَ وَأَصْحَابِ مَدْيَنَ وَالْمُؤْتَفِكَاتِ أَتَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَـٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ (سورہ التوبہ، 9:70)
کیا اِنھیں اُن لوگوں کی خبر نہیں پہنچی جو اِن سے پہلے گزرے ۔۔۔ نوح کی قوم، عاد و ثمود، ابراہیم کی قوم، مدین والوں اور اُن بستیوں کی خبر جنھیں الٹ دیا گیا۔ اُن کے رسول اُن کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے۔سو ایسا نہ تھا کہ اللہ اُن پر ظلم کرتا، بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے رہے۔
لیکن ابراہیمؑ کے قوم پر عذاب کی تفصیل بیان نہیں ہوئی۔
اسماعیلؑ کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی قوم یعنی اس وقت کے عرب لوگ بلا حیل و حجت ان کی دعوت قبول کر کے ایمان لے آئے تھے، اس لیے عذاب کا سوال نہیں اٹھتا۔ اسماعیلؑ کی مخاطب قوم کے بلا حیل و حجت ایمان لانے کی ایک وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ ابراہیمؑ کی دعوت اور ان کے اتمام حجت کا شہرہ، فلسطین سے لے کر عرب اور سارے مشرقِ وسطی میں پھیلا ہوا تھا۔ چنانچہ جیسے ہی ان کے فرزند، اسماعیلؑ کی طرف سے دین کی دعوت ان کے سامنے آئی، انہوں نے قبول کر لی۔ نیز، اسماعیل ہی کی بدولت، زم زم کے چشمے کی وجہ اس بے آب و گیاہ صحرا میں سامان زندگی پیدا ہو گیا تھا، یہ بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے کہ عربوں کو اس معجزہ اور اس نعمت کی وجہ سے ایمان لانے کی مزید ترغیب ملی ہو۔ بہرحال وہ بلا حیل وحجت ایمان لے آئے اور سزا اور عذاب کے مراحل پیش نہیں آئے۔ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ اسماعیلؑ ساری زندگی اپنی قوم کے تزکیہ اور تطہیر میں مصروف رہے:
وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَكَانَ عِندَ رَبِّهِ مَرْضِيًّا (سورہ مریم،19:55)
وہ اپنے لوگوں کو نماز اور زکوٰۃ کی تلقین کرتا تھا اور اپنے رب کے نزدیک ایک پسندیدہ انسان تھا۔
دراصل، قرآن تاریخ بیان کرنے کی کتاب نہیں، اس کا مقصد، انذار و تذکیر ہے۔ اس نے عربوں کے لیے ان اقوام کی سرگزشت کو چنا، جن کی تاریخ اور مقاماتِ رہائش سے وہ واقف تھے اور اپنے اسفار کے دوران ان کے کھنڈرات اور آثار ان کے مشاہدہ میں آتے رہتے تھے۔ نیز، جن واقعات میں تذکیر کے پہلو زیادہ نمایاں تھے، ان کو اختیار کیا گیا۔ اسماعیلؑ کے قصے کی نوعیت محمد رسول اللہ ﷺ کو اپنی قوم کی طرف سے پیش آنے والے معاملات سے مختلف تھی، کیونکہ آپؐ کی قوم مخالفت اور مقابلے پر کھڑی ہو گئی تھی۔ اس لیے ان کو ان اقوام کے قصے تفصیل سے سنائے گئے جو اپنے انکار کی وجہ سے عذاب کا شکار ہوئے۔
اس پر یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ سورہ یونس میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ یونسؑ کے علاوہ کسی اور قوم نے ایمان قبول نہیں کیا:
فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِيمَانُهَا إِلَّا قَوْمَ يُونُسَ لَمَّا آمَنُوا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَىٰ حِينٍ (سورہ یونس، 10:98)
سو ایسا کیوں نہ ہوا کہ قوم یونس کے سوا کوئی اور بستی بھی ایمان لاتی، پھر اُس کا ایمان اُسے نفع دیتا۔ جب اُس بستی کے لوگ ایمان لے آئے تو ہم نے دنیا کی زندگی میں رسوائی کا عذاب اُن سے ٹال دیا تھا اور ایک مدت کے لیے اُن کو رہنے بسنے کا موقع دیا تھا۔
تو اسماعیلؑ کی قوم نے اگر ایمان قبول کیا تھا تو ان کا ذکر بھی آنا چاہیے تھا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ آیت یہ نہیں بتا رہی کہ کوئی قوم بھی ایمان نہیں لائی، آیت یہ بیان کر رہی ہے کہ کوئی قوم بھی ایسی نہ تھی جو اتمام حجت کے اس مرحلے پر ایمان لائی ہو، جب عذاب کا کوڑا ان کے سر پر منڈلانے لگا تھا۔ یعنی جس مرحلے پر اس وقت محمد رسول اللہ ﷺ کی قوم پہنچ گئی تھی۔ مذکورہ آیت میں کفارِ مکہ کی ترہیب کے لیے یہ بتایا جا رہا ہے، کہ اس مقام سے سوائے یونس کے کوئی قوم واپس نہیں آئی تو کیا تم بھی اس حد تک جانا چاہتے ہو، جس کے بعد تباہی یقینی ہو جاتی ہے۔
یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ تفسیری روایات میں جس اسلوب میں یونسؑ کی قوم پر عذاب آنے کا بیان پایا جاتا ہے اس سے یہ غلط تاثر پیدا ہوتا ہے کہ ان کی قوم نے عذاب کے آثار دیکھ کر ایمان قبول کیا۔ حالانکہ یہ معلوم ہے کہ ایسا ایمان خدا کے مسلّمہ اصول کی رو سے قابلِ قبول ہی نہیں، جو عذاب دیکھ کر یا کفر کے آخری نتیجے کے سامنے آنے کے بعد لایا جائے۔ موسیؑ کے دشمن، فرعون نے بھی عذاب دیکھ کر ایمان کا اعلان کر دیا تھا، لیکن اس کا ایمان خدا نے رد کر دیا تھا۔ قرآن کا بیان اس پر واضح دلیل ہے کہ انہوں نے پہلے ایمان لایا اور پھر آنے والا عذاب ٹلا، نہ کہ عذاب آ چکا تھا اور پھر وہ ایمان لائے تو ٹلا۔ قرآن کے الفاظ دیکھیے:
لَمَّا آمَنُوا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا
جب اُس بستی کے لوگ ایمان لے آئے تو ہم نے دنیا کی زندگی میں رسوائی کا عذاب اُن سے ٹال دیا تھا
بائیبل کا بیان بھی اس کی تصدیق کرتا ہے کہ یونسؑ نے اپنی قوم کو 400 روز کے بعد عذاب آنے کی وعید سنائی تھی، جس پر ان کی قوم نے آہ و زاری کی اور ایمان قبول کر لیا:
"اور یوناہ شہر میں داخل ہوا اور ایک دن کی راہ چلا۔ اس نے منادی کی اور کہا کہ چالیس روز کے بعد نینوا برباد کیا جائے گا۔ تب نینوا کے باشندوں نے خدا پ ایمان لا کر روزہ کی منادی کی اور ادنی اور اعلی سب نے ٹاٹ اوڑھا۔ (یوناہ، 3:4-6)
اس لیے درست اسلوب وہی ہے جو قرآن اور بائیبل میں بیان ہوا ہے کہ عذاب کی دھمکی ملنے کے بعد جب وہ ایمان لے آئے تو عذاب پلٹ گیا۔
چونکہ اسماعیلؑ کی قوم کے ایمان لانے کا معاملہ اس طرح پیش نہیں آیا جیسا یونسؑ کے قوم کے ساتھ پیش آیا، اس لیے ان کا ذکر اس آیت میں نہیں آیا۔
جاری۔۔۔۔۔۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔
“