قانونِ اتمامِ حجت اور اس کے اطلاقات
چند نمایاں اعتراضات کا جائزہ
قسط 7
۔۔۔۔
نبی اور رسول کا فرق
چند اشکالات کا فرق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بعض حضرات کو سورہ النساء کی آیات 163 تا 165 سے اشتباہ ہوا ہے، جس میں، بقول ان کے، تمام پیغمبروں کو پہلے انبیاء اور پھر رسول کہا گیا ہے اور اتمام حجت کا ضابطہ بھی ساتھ ہی بیان ہوا ہے، اس بنا 'رسول' کے بارے میں قرآنِ مجید سے اخذ کردہ اس خصوصی استعمال کا بیان کردہ اصول درست نہیں، نیز، اسی بنا پر وہ آیت 165 میں مذکور اتمامِ حجت سے دنیاوی نہیں بلکہ آخرت میں حجت کا تمام ہونا مراد لیتے ہیں۔ آیات ملاحظہ کیجیے:
إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَىٰ نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِن بَعْدِهِ وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَعِيسَىٰ وَأَيُّوبَ وَيُونُسَ وَهَارُونَ وَسُلَيْمَانَ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا﴿١٦٣﴾ وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَيْكَ مِن قَبْلُ وَرُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَيْكَ وَكَلَّمَ اللَّـهُ مُوسَىٰ تَكْلِيمًا ﴿١٦٤﴾ رُّسُلًا مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّـهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَكَانَ اللَّـهُ عَزِيزًا حَكِيمًا ﴿١٦٥﴾ (سورہ النساء، آیت 163-165)
اے محمدؐ! ہم نے تمہاری طرف اُسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح نوحؑ اور اس کے بعد کے پیغمبروں کی طرف بھیجی تھی ہم نے ابراہیمؑ، اسماعیلؑ، اسحاقؑ، یعقوبؑ اور اولاد یعقوبؑ، عیسیؑ، ایوبؑ، یونسؑ، ہارونؑ اور سلیمانؑ کی طرف وحی بھیجی ہم نے داؤدؑ کو زبور دی۔ ہم نے اُن رسولوں پر بھی وحی نازل کی جن کا ذکر ہم اِس سے پہلے تم سے کر چکے ہیں اور اُن رسولوں پر بھی جن کا ذکر تم سے نہیں کیا ہم نے موسیٰؑ سے اِس طرح گفتگو کی جس طرح گفتگو کی جاتی ہے۔ یہ سارے رسول خوش خبری دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجے گئے تھے تاکہ اُن کو مبعوث کر دینے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلہ میں کوئی حجت نہ رہے اور اللہ بہرحال غالب رہنے والا اور حکیم و دانا ہے۔"
ان آیات پر اگر تدبر کی نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ تو درست ہے کہ آیت 163 میں مذکور انبیا میں سے کچھ اصطلاحی انبیا ہیں اور کچھ اصطلاحی رسول ہیں، اور یہاں دونوں کو نبی کہا گیا یے لیکن یہ لفظی معنی کے اعتبار سے ہے۔ آگے دیکھیے کہ آیت 164 میں رسولوں کا ذکر الگ سے لایا گیا، جس کے بعد ہی اتمامِ حجت کا ذکر آتا ہے۔ رسولوں کا ذکر الگ ہونے کا قرینہ ' و' عاطفہ ہے، جو مغایرت کے لیے استعمال ہوا ہے۔ یہ 'و' انبیاء کے عموم سے رسولوں کے خصوص کی طرف واضح اشارہ کرتا ہے۔ اس 'و' کا عطف 'اوحینا' پر ہے، یعنی مراد یہ ہے کہ یہ وحی ہم نے تمام پیغمبروں پر کی اور یہی وحی ہم نے رسولوں پر بھی کی، اس سے رسولوں کی الگ حیثیت متعین ہو رہی ہے۔ اگر آیت 164 میں 'رسلاً' سے مراد گزشتہ آیت 163 میں مذکور انبیا ہی ہوتے تو حرف' و' لانے کی ضرورت نہیں تھی، جیسا کہ اس سے اگلی آیت 165 میں رسلًا دوبارہ لایا گیا تو حرف 'و' نہیں لایا گیا، کیونکہ یہ رسلًا، گزشتہ آیت 164 میں مذکور رسولوں ہی کو بیان کر رہا ہے۔
اب جب کہ یہ طے ہو جاتا ہے، رسولوں سے یہاں اصطلاحی رسول مراد ہیں تو آیت 165 میں، لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّـهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ (تاکہ لوگوں کے لیے اِن رسولوں کے بعد اللہ کے سامنے کوئی عذر پیش کرنے کے لیے باقی نہ رہے) میں مذکور اتمامِ حجت سے رسولوں کا اپنی اقوام پر دنیاوی اتمام حجت مراد لینے سے کوئی چیز مانع نہیں رہی۔ تاہم، اس سے آخرت کا اتمامِ حجت بھی مراد لینے سے معنی میں کوئی تضاد پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ آخرت میں بھی حجت اسی پر تمام ہو گی جس پر اس دنیا میں تمام ہوئی ہو گی۔
جاری ۔۔۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔