قانونِ اتمامِ حجت اور اس کے اطلاقات
چند نمایاں اعتراضات کا جائزہ
قسط 6
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نبی اور رسول میں فرق
مکتب فراہی کا نقطہ نظر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس بارے میں مکتبِ فراہی نے نبی اور رسول کی حیثیت متعین کرنے کی جو سعی کی ہے اور اس بارے میں قرآن مجید سے جو دلائل پیش کیے ہیں وہ قرآن فہمی کی عمدہ مثال اور اہل علم کی توجہ کے متقاضی ہیں۔ ملاحظہ کیجیے:
ہم قرآن میں دیکھتے ہیں کہ جن پیغمبروں کی دعوت و انذار کے نتیجے میں اسی دنیا میں حجت تمام ہونے اور اس کے نتیجے میں اسی دنیا میں جزا و سزا ملنے کا ذکر آتا ہے، وہاں قرآن مجید میں اہتمام کے ساتھ رسول کا لفظ استعمال ہوا ہے، اس کی مثالیں قرآن میں جگہ جگہ دیکھی جا سکتی ہیں۔ مثلاً، سورہ اعراف میں ہی میں یہ اہتمام دیکھا جا سکتا ہے۔ تاہم، ایسے ہی بیان کے موقع پر نبی کا لفظ اگر استعمال ہوا بھی ہے تو اس کے ساتھ 'ارسل' کا فعل استعمال ہوا ہے جو اسے رسول کے معنی میں متعین کر دیتا ہے، ارسل کا مطلب بھیجنا بھی ہے اور اس کا ایک استعمال رسول بنا کر بھیجنا بھی ہے مثلاً درج ذیل آیت دیکھیے:
وَكَمْ أَرْسَلْنَا مِن نَّبِيٍّ فِي الْأَوَّلِينَ وَمَا يَأْتِيهِم مِّن نَّبِيٍّ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ فَأَهْلَكْنَا أَشَدَّ مِنْهُم بَطْشًا وَمَضَىٰ مَثَلُ الْأَوَّلِينَ (سورہ زخرف، آیت 6-8)
ہم نے اگلوں میں بھی کتنے ہی نبی رسول بنا کر بھیجے. تاہم جو نبی بھی اُن کے پاس آتا، وہ اُس کا مذاق ہی اڑاتے تھے. پھر ہم نے اُن کو کہ (تمھارے) اِن (منکروں) سے کہیں زیادہ زور والے تھے، ہلاک کر ڈالا اور اگلوں کی مثالیں گزر چکی ہیں۔
'ارسل' کے فعل کے اس استعمال کی ایک مثال سورہ نحل کی درج ذیل آیت میں بھی دیکھی جا سکتی ہے جس میں آدمیوں کو رسول بنا کر بھیجنے کا مفہوم واضح ہے:
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِمْ (سورہ النحل، 16:43)
تم سے پہلے بھی ہم نے آدمیوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا تھا،
پھر دیکھیے کہ ارسل کا یہی فعل 'نذیر' کے لیے بھی استعمال ہوا ہے اور جس آیت میں یہ استعمال ہوا ہے، وہاں نذیر سے اصطلاحی معنی میں متعین طور پر رسول ہی مراد ہے، کیونکہ اس کے ساتھ ہی اس دنیاوی عذاب کا ذکر ہے جو رسولوں کی دعوت کے انکار کے آخری نتیجے میں لازمًا آتا ہے:
وَكَذَٰلِكَ مَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ فِي قَرْيَةٍ مِّن نَّذِيرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوهَا إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَىٰ أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَىٰ آثَارِهِم مُّقْتَدُونَ قَالَ أَوَلَوْ جِئْتُكُم بِأَهْدَىٰ مِمَّا وَجَدتُّمْ عَلَيْهِ آبَاءَكُمْ قَالُوا إِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُم بِهِ كَافِرُونَ فَانتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ (سورہ رخرف 23)
اِسی طرح، (اے پیغمبر)، ہم نے تم سے پہلے جس بستی میں بھی کوئی خبردار کرنے والا رسول بنا کر بھیجا ہے، اُس کے کھاتے پیتے لوگوں نے یہی کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک برتر طریقے پر پایا ہے اور ہم اُنھی کے نقش قدم پر چلتے رہیں گے۔ اُن کے خبردار کرنے والے نے کہا: کیا اِس کے باوجود بھی کہ میں اُس سے کہیں سیدھے راستے کی ہدایت تمھارے پاس لے کر آیا ہوں، جس پر تم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے؟ اُنھوں نے جواب دیا: تم لوگ جو کچھ بھی دے کر بھیجے گئے ہو، ہم اُس کو ماننے والے نہیں ہیں۔ (سو نوبت یہاں تک پہنچ گئی) تو ہم نے اُن سے (اُن کی اِس سرکشی کا) انتقام لیا۔ پھر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا۔
اس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید میں جہاں نبی کے ساتھ ارسل کا فعل آیا ہے، وہاں بھی نبی سے مراد رسول ہی ہے۔
جاری۔۔۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔
“