قانونِ اتمامِ حجت اور اس کے اطلاقات
چند نمایاں اعتراضات کا جائزہ
قسط 5
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صاحب کشاف اس پر لکھتے ہیں:
مِنْ رَسُولٍ وَلا نَبِيٍّ دليل بين على تغاير الرسول والنبي. وعن النبي صلى الله عليه وسلم أنه سئل عن الأنبياء فقال «مائة ألف وأربعة وعشرون ألفا» قيل فكم الرسول منهم؟ قال: «ثلاثمائة وثلاثة عشر جما غفيرا»
'من بنی و لا رسول'، نبی اور رسول کے مختلف ہونے کی واضح دلیل ہے کہ اور بنی کریم ﷺ سے روایت کیا گیا ہے کہ آپؐ سے انبیا کی تعداد کے بارے میں پوچھا گیا تو آپؐ نے فرمایا ،"ایک لاکھ چوبیس ہزار"۔ پھر پوچھا گیا، "ان میں رسول کتنے تھے؟" آپؐ نے فرمایا: "313 تھے۔"
اس فرق کو بیان کرتے ہوئے، صاحبِ کشاف نے دو آراء پیش کی ہیں: ایک یہ نبی عام ہے اور رسول خاص، مولانا مودودی نے بھی سورہ مریم کے حاشیہ 30 میں تسلیم کیا ہے کہ نبی اور رسول میں اصطلاحی طور پر فرق ہے اور یہ بھی کہ رسول خاص ہے اور نبی عام۔ صاحب کشاف اس عام و خاص کا تعین کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ رسول، صاحب کتاب و شریعت ہوتا ہے اور نبی کسی رسول کی کتاب اور شریعت کا متبع ہوتا ہے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ مسیحؑ رسول تھے، لیکن وہ شریعتِ موسوی کے متبع تھے۔ وہ تورات اور انجیل دونوں کے حامل تھے:
وَيُعَلِّمُهُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ (سورہ آل عمران، 3:48)
اور اللہ اُسے (یعنی مسیحؑ کو) قانون اورحکمت سکھائے گا، یعنی تورات وانجیل کی تعلیم دے گا۔
انجیل میں مسیحؑ کا واضح ارشاد موجود ہے کہ وہ تورات کو منسوخ کرنے نہیں، بلکہ اس کی تکمیل کرنے آئے تھے۔:
"یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسُوخ کرنے آیا ہُوں۔ منسُوخ کرنے نہیں بلکہ پُورا کرنے آیا ہُوں۔" (متی، 5:17)
اسی طرح محمد رسول اللہ ﷺ کو ابراہیمؑ کی پیروی کا حکم دیا گیا۔
ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (سورہ النحل، 16:123)
پھر (یہی وجہ ہے کہ ) ہم نے تمھاری طرف وحی کی کہ اِسی ابراہیم کے طریقے کی پیروی کرو، جو بالکل یک سو تھا اور مشرکوں میں سے نہیں تھا۔
اس لیے اس رائے کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
امام رازی نے تفسیر کبیر میں درج بالا اسی آیت کے تحت نبی اور رسول کا فرق بیان کرتے ہوئے ایک قول یہ نقل کیا ہے کہ 'رسول' کے پاس جبرائیل آتے ہیں اور اس سے خدا خطاب کرتا ہے اور اسے مبعوث کرتا ہے، جب کہ نبی پر الہام ہوتا اور اسے خواب میں بتایا جاتا ہے کہ وہ خدا کی طرف بندوں کی دینی رہنمائی کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ تاہم، ان بیان کردہ امتیازات کی کوئی نص یا دلیل، موجود نہیں ہے۔
جاری۔۔۔۔۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔
“