قانونِ اتمامِ حجت اور اس کے اطلاقات
چند نمایاں اعتراضات کا جائزہ
قسط 4
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
4) نبی اور رسول میں فرق:
اس تناظر میں نبی اور رسول کے فرق کو سمجھنا ضروری ہے۔ قرآن مجید کے حوالے سے ہم جانتے کی بعض پیغمبروں کی دعوت کے نتیجے میں وہ سب مراحل پیش نہیں آتے، جو بعض دیگر پیغمبروں کی دعوت کے نتیجے میں سامنے آتے ہیں۔ یہ حقیقت قرآن مجید سے ہی ثابت ہے کہ بعض پیغمبروں کی دعوت کے نتیجے میں ان کی قوموں کے انکار کی صورت میں اس طرح قیامتِ صغریٰ کا میدان نہیں لگایا گیا۔ منکرین پر استیصال کا ویسا عذاب نہیں آیا، جیسا کہ بعض دیگر پیغمبروں کے منکرین پر آیا ہے، مثلاً یوسف علیہ السلام، اور دیگر انبیا بنی اسرائیل۔ مکتب فراہی میں پیغمبروں کو پیش آنے والے اس معاملے کے فرق کو قرآن کی نصوص کی روشنی میں نبی اور رسول کے اصطلاحی فرق سے بیان کیا گیا ہے۔ یعنی رسول کے انذار کا اس آخری مرحلے تک پہنچتا ہے جس کے انکار کی صورت میں منکرین پر دنیاوی عذاب آنا لازمی ہے، جب کہ نبی کے انذار کے بعد ایسا ہونا ضروری نہیں۔
اس امتیاز کو کیسے سمجھا گیا؟
قرآن مجید میں نبی اور رسول کے مختلف استعمالات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اور رسول کا مصداق کبھی ایک ہی شخصیت ہوتی ہے، اس صورت میں نبی اور رسول کا لفظ، اپنے لفظی معنی میں استعمال ہوتا ہے، یعنی نبی، جس پر خبر، یعنی وحی الہی آتی ہے، اور رسول، یعنی خدا کی طرف سے بھیجا ہوا، مثلًا درج ذیل آیت میں تمام پیغمبروں کو لفظی معنی کے لحاظ سے انبیاء کہا گیا ہے:
كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّـهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ (سورہ البقرہ، 2:213)
لوگ ایک ہی امت تھے ۔ (اُن میں اختلاف پیدا ہوا) تو اللہ نے نبی بھیجے ، بشارت دیتے اور انذار کرتے ہوئے اور اُن کے ساتھ قول فیصل کی صورت میں اپنی کتاب نازل کی تاکہ لوگوں کے درمیان وہ اُن کے اختلافات کا فیصلہ کر دے.
جب کہ ایک دوسری آیت میں تمام پیغمبروں کو رسول کہا گیا ہے:
وَمَن يَكْفُرْ بِاللَّـهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا (سورہ النساء، آیت 136)
اور (جان رکھو کہ) جو اللہ اور اُس کے فرشتوں اور اُس کی کتابوں اور اُس کے رسولوں اور قیامت کے دن (اُس کے حضور میں پیشی )کے منکر ہوں، وہ بہت دور کی گمراہی میں جا پڑے ہیں۔
اسی معنی میں یہ لفظ فرشتوں کے لیے بھی استعمال ہوا ہے:
وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ (سورہ الانعام، آیت 61)
وہ اپنے بندوں پر پوری طرح حاوی ہے اور تم پر (اپنے) نگران مقرر رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جاتا ہے تو ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے ہی اُس کی روح قبض کرتے ہیں اور (اِس کام میں) کبھی کوتاہی نہیں کرتے۔
تاہم، قرآن مجید سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ نبی اور رسول اصلاً دو الگ مناصب ہیں، اس پر نص درج ذیل آیت ہے:
وَما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلا نَبِيٍّ إِلاَّ إِذا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنْسَخُ اللَّهُ ما يُلْقِي الشَّيْطانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آياتِهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (سورہ الحج، آیت 22:52)
ہم نے (اے پیغمبر)، تم سے پہلے جو رسول اور جو نبی بھی بھیجا ہے، اُس کے ساتھ یہی معاملہ پیش آیا کہ اُس نے جب بھی کوئی تمنا کی، شیطان اُس کی تمنا میں خلل انداز ہو گیا ہے۔ پھر شیطان کی اِس خلل اندازی کو اللہ مٹا دیتا ہے، پھر اللہ اپنی آیتوں کو قرار بخشتا ہے اور اللہ علیم و حکیم ہے۔
جاری۔۔۔۔۔۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔
“