قانونِ اتمامِ حجت اور اس کے اطلاقات
چند نمایاں اعتراضات کا جائزہ
قسط 37
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قانون اتمام حجت کو تسلیم نہ کرنے سے کیا فرق پڑتا ہے؟
…………….
اگر یہ سب ایسا نہیں، جیسا کہ قانون اتمام حجت کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے، تو قرآن مجید کے بہت سے احکام، رسول اللہ اور صحابہ کی سیاسی اور جنگی حکمت عملی پر بہت سے سوال کھڑے ہو جاتے ہیں جن کا کوئی شافی جواب دینا ممکن نہیں مثلًا:
1) تمام رسولوں کے منکرین اسی دنیا میں ختم کر دیئے گئے۔ اس استیصال کو خدا نے اپنی سنت کہا ہے۔ اور کہا ہے کہ خدا کی یہ سنت تبدیل نہیں ہو سکتی۔ پھر پورے قرآن میں محمد رسول اللہ ﷺ کے منکرین کو اسی دنیاوی عذاب سے بار بار ڈرایا گیا۔ پھر صحابہ سے کہا گیا کہ وہ عذاب تمہارے ہاتھوں س نازل ہوگا۔ اب اگر صحابہ کی تلواروں سے آنے والا عذاب وہ عذاب نہیں تھا وہ رسولوں کے منکرین پر آتا ہے ت تو بتایا جائے کہ خدا کی یہ غیر متبدل سنت محمد رسول اللہ کے منکرین کے حق میں کیسے بدل گئی، وہ دنیاوی عذاب ان کے منکرین پر کیوں نہ آیا؟
2) صحابہ کس بنیاد پر عرب کے مشرکین کو اسلام اور تلوار کے علاوہ کوئی اور انتخاب نہیں دیتے تھے جب کہ قرآن مجید کہتا ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔ جو ایمان لانا چاہے لائے، جو کافر ہونا چاہے ہو جائے۔ ان کا حساب آخرت میں کیا جائے گا:
3) وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرۚ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا وَإِن يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاءٍ كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوهَ ۚ بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَاءَتْ مُرْتَفَقًا (سورہ الکھف، 18:29)
اِن سے کہو، تمھارے پروردگار کی طرف سے یہی حق ہے۔ سو جس کا جی چاہے، ایمان لائے اور جس کا جی چاہے، انکار کر دے۔ ہم نے ظالموں کے لیے ایسی آگ تیار کر رکھی ہے جس کے سراپردے اُن کو اپنے گھیرے میں لے لیں گے۔ اگر وہ پانی کے لیے فریاد کریں گے تو اُن کی فریاد رسی اُس پانی سے کی جائے گی جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہو گا۔ وہ چہروں کو بھون ڈالے گا۔ کیا ہی برا پانی ہو گا اور کیا ہی برا ٹھکانا!
4) اور اگر یہ تلوار کا عذاب وہی عذاب تھا جو رسولوں کے براہ راست منکرین حق پر آتا ہے تو وہ عذاب خاص سنن الہیہ ہے، گزشتہ عزاب اپنے زمان و مکان کے ساتھ مخصوص تھے اور یہ عذاب بھی اپنے مکان و زمان کے ساتھ مخصوص ہوگا۔ اس عذاب کو بیان شریعت کیسے سمجھا جا سکتا ہے اور اس کی تعمیم کیسے کی جا سکتی ہے؟
5) یہ بتانا پڑے گا کیا وجہ ہے کہ ایک طرف قرآن مجید رسول اللہ ﷺ کو کہتا ہے کہ آپؐ کو ان منکرین پر داروغہ نہیں بنایا گیا کہ ان سے منوا کر ہی چھوڑنا ہے اور دوسری طرف یہ کہتا ہے ان کفار سے اس وقت تک برابر قتال کیے جاؤ جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں، نماز قائم کر کے اور زکوۃ ادا کر کے اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت نہ دے دیں؟
6) یہ بتابا پڑے گا کہ کیا وجہ تھی کہ صحابہ اس وقت بھی جنگ سے واپس نہ ہوئے جب رومی و ایرانی سرداروں نے انہیں صلح کی پشکش کی؟ جب کہ قرآن کہتا ہے:
وَإِن جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (سورہ الانفال 8:61)
یہ لوگ اگر صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی اِس کے لیے جھک جاؤ اور اللہ پر بھروسا رکھو۔ بے شک، وہ سننے والا، جاننے والا ہے۔
7) دوسرا یہ کہ صحابہ اس وقت جنگ سے کیوں رکنا چاہ رہے تھے جب عسکری تقاضوں کے مطابق جنگ کرنا ضروری تھا؟
8) اگر صحابہ نے روم و ایران پر جنگی مہمات اتمامِ حجت کے قانون کے تحت نہیں کیں تو روم و ایران کے محکوموں پر وہی سزا کیوں نافذ کی گئی جو عرب کے اہل کتاب پر نافذ کی گئی؟
9) قرآن مجید ایک جگہ کہتا ہے کہ کفار اگر صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی صلح کر لو، اور دوسری طرف کہتا ہے کہ کفار کے ساتھ تمام معاہدات ختم کر دو، بلکہ جنھوں نے معاہدات کے دوران کوئی خلاف ورزی نہیں کی، ان کے معاہدات کی مدت مکمل کرنے کے بعد انہیں بھی ختم کردو، اور آئندہ کوئی معاہدہ کرنا بھی نہیں، اور پھر ان سب کے ساتھ قتال کرو؟
بَرَاءَةٌ مِّنَ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ إِلَى الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِينَ (سورہ التوبہ،9:1)
اللہ اور اُس کے رسول کی طرف سے اُن مشرکوں کے لیے اعلان براء ت ہے جن سے تم نے معاہدے کیے تھے۔
إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِينَ ثُمَّ لَمْ يَنقُصُوكُمْ شَيْئًا وَلَمْ يُظَاهِرُوا عَلَيْكُمْ أَحَدًا فَأَتِمُّوا إِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلَىٰ مُدَّتِهِمْ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (سورہ التوبہ،9:2-5)
وہ مشرکین، البتہ (اِس اعلان براء ت سے) مستثنیٰ ہیں جن سے تم نے معاہدہ کیا، پھر اُس کو پورا کرنے میں اُنھوں نے تمھارے ساتھ کوئی کمی نہیں کی اور نہ تمھارے خلاف کسی کی مدد کی ہے۔ سو اُن کا معاہدہ اُن کی مدت تک پورا کرو، اِس لیے کہ اللہ اُن لوگوں کو پسند کرتا ہے جو (بد عہدی سے) بچنے والے ہوں۔
كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ عِندَ اللَّـهِ وَعِندَ رَسُولِهِ إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدتُّمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَمَا اسْتَقَامُوا لَكُمْ فَاسْتَقِيمُوا لَهُمْ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ (سورہ التوبہ 9:7)
اللہ اور اُس کے رسول کے ہاں اِن مشرکوں سے کوئی عہد کس طرح باقی رہ سکتا ہے؟ ہاں جن لوگوں سے تم نے مسجد حرام کے پاس (حدیبیہ میں) عہد کیا تھا، سو جب تک وہ تمھارے ساتھ سیدھے رہیں، تم بھی اُن کے ساتھ سیدھے رہو، اِس لیے کہ اللہ اُن لوگوں کو پسند کرتا ہے جو (بد عہدی سے) بچنے والے ہوں۔
اگر یہ کہا جائے کہ یہ مختلف حالتوں کے احکام ہیں۔ مسلمان اگر کمزور ہوں یا مسلمانوں کی سیاسی مصلحت کا تقاضا ہو تو صلح کر لی جائے، ورنہ اصل قتال ہے، تو کیا وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کفار مکہ کے ساتھ اس وقت صلح کی جب آپ سیاسی اور عسکری لحاظ سےان سے طاقت ور ہو چکے تھے، اسی وجہ سے حضرت عمر سمیت دیگر مسلمانوں کو دب کر صلح کرنا کھِل رہا تھا۔
قانون اتمامِ ججت کو تسلیم نہ کرنے والوں کو ایک عجیب مشکل یہ پیش آتی ہے کہ ایک طرف وہ اس قانون کا انکار بھی کرتے ہیں اور دوسری طرف اسی قانون کی بنیاد پر نہ صرف رسول اور صحابہ کی عسکری مہمات کے لیے بلکہ اس قانون کی تعمیم کرتے ہوئے، تمام مسلمانوں کے لیے اقدامی جنگوں کے لیے جواز بھی مہیا کرتے ہیں۔ یعنی جب روایتی فقہ میں یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ صحابہ نے روم و ایران کو پہلے دعوت اسلام دی، جس کے انکار پر جنگ مسلط کر دی، اور انہوں نے کفر یا شوکت کفر توڑنے کے لیے اقدام کیا تو درحقیقت وہ اتمام حجت کا قانون ہی بیان نہیں کر رہے ہوتے ہیں۔ بلکہ اسی بنیاد پر یعنی کفر یا شوکت کفر کے خاتمے کو جواز بنا کر ایک مسلم ریاست کے لیے اقدامی جنگ کا جواز بھی مہیا کرتے ہیں۔ قانون اتمام حجت کو نظرِ غائر نہ سمجھنے کی وجہ سے انہیں یہ باور کرنا پڑتا ہے کہ دینِ اسلام کی محض خبر پہنچا دینے سے اتمام حجت ہو جاتا ہے اور غیر مسلموں پر جنگ مسلط کرنے کا حق حاصل ہو جاتا ہے۔ اس تعبیر کی غیر معقولیت عیاں ہے اور بڑے خلجان کا باعث بھی ہے۔ لیکن اس ساری صورتِ حال کو قانون اتمام حجت کی روشنی میں سمجھا جائے تو تمام اشکالات حل ہو جاتے ہیں۔
جاری۔۔۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔
“