قانونِ اتمامِ حجت اور اس کے اطلاقات
چند نمایاں اعتراضات کا جائزہ
قسط 36
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روم و ایران پر صحابہ کی جنگی مہمات اور اتمام حجت:
۔۔۔۔۔۔۔
اس جنگ کی سیاسی عوام لے لحاظ سے تاویلات اور تشریحات بھی کی جا سکتی ہیں۔ لیکن ہم جنگ کے فریق صحابہ کے اپنے بیانات کو کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں جو ان کا نقطہ نظر بیان کر رہے ہیں۔ ان جنگوں کی سیاسی اور معروضی وجوہات بھی موجود تھیں، لیکن خود صحابہ اپنے ان جنگی اقدامات کے لیے جو نقطہ نظر رکھتے تھے، حجت و دلیل وہ ہے نہ کہ ہماری یا کسی اور کی تاویل۔ مولانا عمار خان ناصر صاحب نے اپنی کتاب، 'مطالعہ جہاد' میں لکھتے ہیں:
" سیدنا ابوبکر نے اہل روم کے خلاف جہاد میں شرکت کی ترغیب دینے کے لیے اہل یمن کو خط لکھا تو اس میں فرمایا:
ان اللہ کتب علی المومنین الجہاد وامرہم ان ینفروا خفافا وثقالا …. ولا یترک اہل عداوتہ حتی یدینوا الحق ویقروا بحکم الکتاب او یودوا الجزیۃ عن ید وہم صاغرون. (ازدی، فتوح الشام، ۵، ۶)
’’اللہ نے اہل ایمان پر جہاد فرض کیا ہے اور انھیں حکم دیا ہے کہ ہلکے ہوں یا بھاری، جہاد کے لیے نکلیں۔ اس دین کے دشمنوں کو اس وقت تک نہیں چھوڑا جا سکتا جب تک کہ وہ اس دین کی پیروی اختیار کر کے کتاب اللہ کے حکم پر راضی نہ ہو جائیں یا پھر مطیع بن ذلت اور پستی کی حالت میں جزیہ ادا کرنا قبول نہ کر لیں۔‘‘
"مسلمانوں کے لشکر نے ابو عبیدہ بن جراح کی قیادت میں شام کے علاقے اُردن کا محاصرہ کیا تو اہل روم کے ساتھ گفت وشنید کے دوران میں ان کی طرف سے یہ پیش کش کی گئی کہ وہ بلقاء اور اُردن کا کچھ علاقہ علاقہ اس شرط پر مسلمانوں کو دے دیتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ صلح کر لیں اور شام کے باقی علاقوں کو رومیوں سے چھیننے کی کوشش نہ کریں۔ اس کے جواب میں ابو عبیدہ نے ان سے کہا:
امرنا صلی اللہ علیہ وسلم فقال اذا اتیتم المشرکین فادعوہم الی الایمان باللہ وبرسولہ وبالاقرار بما جاء من عند اللہ عز وجل فمن آمن وصدق فہو اخوکم فی دینکم لہ ما لکم وعلیہ ما علیکم ومن ابی فاعرضوا علیہ الجزیۃ حتی یودونہا عن ید وہم صاغرون فان ابوا ان یومنوا او یودوا الجزیۃ فاقتلوہم وقاتلوہم. (ازدی، فتوح الشام، ۱۰۹)
’’ہمیں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ جب تم مشرکین کے پاس جاؤ تو انھیں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے اور جو کچھ اللہ کا رسول اللہ کی طرف سے لے کر آیا ہے، اس کا اقرار کرنے کی دعوت دو۔ پھر جو ایمان لے آئے اور تصدیق کر دے، وہ دین میں تمھارا بھائی ہے۔ اس کے حقوق وفرائض وہی ہیں جو تمھارے ہیں۔ اور جو انکار کرے تو اسے جزیہ ادا کرنے کے لیے کہو یہاں تک کہ وہ مطیع بن کر ذلت کی حالت میں جزیہ دینے پر آمادہ ہو جائیں۔ پھر اگر وہ ایمان لانے اور جزیہ دینے سے انکار کریں تو انھیں قتل کرو اور ان کے خلاف جنگ کرو۔"‘‘
اگر صحابہ نے یہ معاملہ اتمام حجت کی رو سے نہیں کیا، تو کیا وجہ ہے کہ وہ روم و ایران کے سپہ سالاروں کی طرف سے کسی صلح کی پیشکش کو قبول نہیں کیا، حالانکہ طاقت کے اعتبار سے صحابہ اپنے مقابل سے کئی گنا کمزور تھے، اور قرآن کا حکم بھی ان کے سامنے تھا کہ اگر دشمن صلح کی طرف مائل ہو تو صلح کر لو۔ پھر ہم دیکھتے ہیں یہ جنگیں انہون نے تب تک جاری رکھی تا آں کہ وہ ان سرحدون تک نہ پہچ گئے جن تک پہنچنے کی بشارت ان کو رسول اللہ ﷺ کی طرف ملی تھیں۔ پھر اس کی کیا وجہ ہے باوجود دشمن کو مغلوب کرنے اور ان سے زیادہ طاقت ور ہو جانے کے بعد اور ان کی طرف سے سازشوں اور شورشوں کے خطرے کے باوجود وہ ان مخصوص سرحدوں سے آگے بڑھنے کے لیے تیار نہ ہو رہے تھے۔ اگر یہ جنگ سیاسی طور پر لڑی جا رہی تھی تو وہ اس وقت کیوں رک رہے تھے، جب جنگی ضرورتین مزید جبگ کی متقاضی تھیں اور وہ مقابلے کی بہتر پوزیشن میں بھی تھے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عمر نے آخر کی جنگیں بامر مجبوری لڑیں تاکہ دشمن کی کمر توڑی جا سکے اور وہ حملے کرنے بند کردے۔
"عمرو بن العاص نے شاہِ مصر مقوقس کے نمائندوں سے کہا:
ان اللہ عز وجل بعث محمدا صلی اللہ علیہ وسلم بالحق وامرہ بہ وامرنا بہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم وادی الینا کل الذی امر بہ ثم مضی صلوات اللہ علیہ ورحمتہ وقد قضی الذی علیہ وترکنا علی الواضحۃ وکان مما امرنا بہ الاعذار الی الناس فنحن ندعوکم الی الاسلام فمن اجابنا الیہ فمثلنا ومن لم یجبنا عرضنا علیہ الجزیۃ وبذلنا لہ المنعۃ. (طبری، تاریخ الامم والملوک ۴/ ۱۰۷)
’’اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دین حق دے کر بھیجا اور ان کو اس کی پیروی پر مامور کیا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے تمام حکم ہم تک پہنچا دیے اور ہمیں ان کی پیروی کی تلقین کی۔ پھر آپ اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے بعد اللہ کے حضور تشریف لے گئے اور ہمیں ایک نہایت روشن راستے پر چھوڑ گئے۔ انھوں نے ہمیں جو حکم دیے، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ لوگوں پر اس طرح حجت قائم کر دیں کہ ان کے پاس عذر باقی نہ رہے۔ پس اب ہم تمھیں اسلام کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ جو اسے قبول کر لے گا، وہ ہمارا شریک بن جائے گا اور جو انکار کرے گا، ہم اسے یہ پیش کش کریں گے کہ وہ جزیہ ادا کرے اور (بدلے میں) اس کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہوگی۔"
اب وہ شواہد کے صحابہ باوجود جنگی تقاضوں کے جنگ روکنا چاہ رہے تھے، حالانکہ وہ اس وقت دشمن سے زیادہ طاقت ور ہو چکے تھے۔ مولانا عمار خان ناصر ہی کی کتاب سے اقتباس پیش ہیں:
قادسیہ، مدائن اور جلولاء کے معرکوں کے بعد ۱۶ ہجری میں جنوبی عراق کا علاقہ، جس کو عرب مورخین ’سواد‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں، مسلمانوں کے قبضے میں آ چکا تھا۔ سعد بن ابی وقاص نے مزید پیش قدمی کی اجازت چاہی تو سیدنا عمر نے انھیں اس سے روک دیا۔
وکتبوا الی عمر بفتح جلولاء وبنزول القعقاع حلوان واستاذنوہ فی اتباعہم فابی وقال لوددت ان بین السواد وبین الجبل سدا لا یخلصون الینا ولا نخلص الیہم حسبنا من الریف السواد انی آثرت سلامۃ المسلمین علی الانفال.(تاریخ الامم والملوک، ۴/ ۲۸)
’’انہوں نے سیدنا عمر کو خط لکھ کر جلولاء کے فتح ہونے کی خبر دی اور بتایا کہ قعقاع حلوان کے مقام پر مقیم ہیں۔ نیز انہوں نے دشمن کا پیچھا کرنے کی اجازت مانگی لیکن سیدنا عمر نے انکار کر دیا اور کہا کہ میری یہ خواہش ہے کہ سواد اور جبل کے علاقے کے درمیان کوئی ایسی رکاوٹ کھڑی ہو جائے جس کو عبور کر کے نہ وہ ہماری طرف آ سکیں اور نہ ہم ان کی طرف جا سکیں۔ ان شاداب خطوں میں سے ہمارے لیے سواد ہی کافی ہے۔ مجھے مال غنیمت کے مقابلے میں مسلمانوں کی سلامتی زیادہ عزیز ہے۔‘‘
" طبری لکھتے ہیں:
وقد قال عمر حسبنا لاہل البصرۃ سوادہم والاہواز وددت ان بیننا وبین فارس جبلا من نار لایصلون الینا منہ ولا نصل الیہم کما قال لاہل الکوفۃ وددت ان بینہم وبین الجبل جبلا من نار لایصلون الینا منہ ولا نصل الیہم. (تاریخ الامم والملوک ۴/ ۷۹)
’’سیدنا عمر نے کہا: ہم اہل بصرہ کے لیے سواد اور اہواز کا علاقہ کافی ہے۔ کاش ہمارے اور فارس کے علاقے کے درمیان آگ کا کوئی پہاڑ ہوتا ۔ نہ وہ ہم تک پہنچ پاتے اور نہ ہم ان تک پہنچ پاتے۔ اسی طرح آپ نے اہل کوفہ کے بارے میں کہا تھا کہ کاش ان کے اور جبل کے علاقے کے مابین آگ کا کوئی پہاڑ ہوتا۔ نہ وہ اس طرف آ سکتے اور نہ ہم ادھر جا سکتے۔‘‘
" فارس کے علاقے میں عام لشکر کشی کی اجازت سیدنا عمر نے ۱۷ ہجری میں احنف بن قیس کے اصرار اور تجویز پر دی۔"
یا امیر المومنین اخبرک انک نہیتنا عن الانسیاح فی البلاد وامرتنا بالاقتصار علی ما فی ایدینا وان ملک فارس حی بین اظہرہم وانہم لا یزالون یساجلوننا ما دام ملکہم فیہم ولم یجتمع ملکان فاتفقا حتی یخرج احدہما صاحبہ وقد رایت انا لم ناخذ شیئا بعد شئ الا بانبعاثہم وان ملکہم ہو الذی یبعثہم ولا یزال ہذا دابہم حتی تاذن لنا فلنسح فی بلادہم حتی نزیلہ عن فارس ونخرجہ من مملکتہ وعز امتہ فہنالک ینقطع رجاء اہل فارس ویضربون جاشا. (طبری،تاریخ الامم والملوک ۴/ ۸۹)
’’اے امیر المومنین! میں آپ کو اصل بات بتاتا ہوں۔ آپ نے ہمیں مملکت فارس میں دور تک گھسنے سے منع کر رکھا ہے اور ان علاقوں پر اکتفا کرنے کا حکم دیا ہے جو ہمارے قبضے میں ہیں، جبکہ اہل فارس کا بادشاہ زندہ سلامت ان کے مابین موجود ہے اور جب تک وہ رہے گا، اہل فارس ہمارے ساتھ آمادۂ پیکار رہیں گے۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ ایک سرزمین میں دو بادشاہ اتفاق سے رہیں۔ ان میں سے ایک کو لازماً دوسرے کو نکالنا پڑے گا۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہمیں اہل فارس کی بغاوتوں ہی کے نتیجے میں ایک کے بعد دوسرے علاقے پر قبضہ کرنا پڑا ہے اور ان تمام بغاوتوں کا سرچشمہ ان کا بادشاہ ہے۔ ان کا وتیرہ یہی رہے گا جب تک کہ آپ ہمیں اجازت نہیں دیتے کہ ہم ان کی مملکت میں گھس کر ان کے بادشاہ کو وہاں سے ہٹا دیں اور اس کی سلطنت اور سربلندی کی جگہ سے اس کو نکال دیں۔ اس صورت میں اہل فارس کی امیدیں ٹوٹ جائیں گی اور وہ پرسکون ہو جائیں گے۔‘‘
اسی طرح حضرت عمر باوجود ممکنہ شورشوں اور بغاوتوں کے باوجود مصر، افریقہ اور ہندوستان پر حملہ آور ہونے سے گریزاں رہے۔ نیز ترکوں اور اہل حبشہ سے بھی جنگ کرنے سے گریزاں رہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے لڑنے میں پہل کرنے سے منع فرمایا تھا۔
مولانا عمار خان ناصر لکھتے ہیں:
" مذکورہ پالیسی کی پابندی کے معاملے میں سب سے زیادہ سخت اور بے لچک رویہ سیدنا عمر کا تھا اور ان کی نسبت سے اس کی معنویت اس تناظر میں بالخصوص دو چند ہو جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض پیش گوئیوں کی بنا پر وہ اس بات سے اچھی طرح واقف تھے کہ ان کی وفات سے مسلمانوں کی قوت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا اور ان کی قوت وشدت اندر کا رخ کر کے مسلمانوں کے باہمی قتل وقتال کی شکل اختیار کر لے گی۔ ۱۵ ایک موقع پر انھوں نے فرمایا:
واللہ لا یفتح بعدی بلد فیکون فیہ کبیر نیل بل عسی ان یکون کلا علی المسلمین. (ابو یوسف، الخراج، ص ۲۶)
’’بخدا، میرے بعد کوئی علاقہ ایسا فتح نہیں ہوگا جس سے مسلمانوں کو کوئی بڑا فائدہ حاصل ہو، بلکہ الٹا اس بات کا خدشہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے لیے بوجھ بن جائے۔‘‘
اس سے ہم یہ نتیجہ نکالنے میں حق بجانب محسوس کرتے ہیں کہ حضرت عمر کے وقت تک وہ تمام علاقے مسلمانوں کے زیر نگیں آ گئے تھے، جہاں اتمام حجت کے نتیجے میں محکومی کی سزا کا نفاذ اللہ اور رسول کا منشا تھا۔ اس کے بعد جو علاقے فتح ہوئے، وہ سیاسی معاملات ہیں، ان کا اتمام حجت سے کوئی تعلق نہیں۔ اتمام حجت وہاں تک کارفرما تھا جہاں تک رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں پیغام وضاحت اور براہین کی اطلاع کے ساتھ پہنچ گیا۔ اور آپؐ نے ان علاقوں کے سربراہوں کو خطوط لکھ کر انہیں براہ راست مخاطب بنا کر معاملہ اور بھی واضح کر دیا۔ مولانا عمار ناصر خان کے الفاظ میں:
" رومی اور فارسی سلطنتوں کے خلاف جنگ کی اجازت حاصل ہونے کے باوجود وہ (عمر فاروق) ان کے تمام علاقوں پر قبضہ نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ ان کے پیش نظر اصلاً صرف شام اور عراق کے علاقے تھے اور وہ ان سے آگے بڑھنا نہیں چاہتے تھے۔"
جاری۔۔۔۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔