قانونِ اتمامِ حجت اور اس کے اطلاقات
چند نمایاں اعتراضات کا جائزہ
قسط 35
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روم و ایران پر پر اتمامِ حجت اور صحابہ کی جنگی مہمات:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روم و ایران پر اتمام حجت کے حوالے سے ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ "کیا قیصر و کسری اور دیگر اقوام پر بھی اتمامِ حجت کیا گیا؟ اگر ہاں تو کیسے؟ اور اگر نہیں تو پھر ان کے خلاف صحابۂ کرام کی جنگوں کو اتمامِ حجت کے "قانون" میں کیسے فٹ کیا جاسکتا ہے؟"
اس پر مکرر عرض ہے کہ ایک بار جب اتمام حجت تمام مراحل طے کر کے مکمل ہو جائے تو ہر دفعہ نئے سرے سے اس کا اعادہ ضروری نہیں ہوتا۔ بنی اسماعیل کا غلبہ جزیرہ عرب میں جب ہوگیا اور یہ بات اہل روم و ایران کے عمائدین اور عوام کے علم میں یہ بات تھی، روم و ایران کی خبریں عرب میں زیرِ بحث رہتی تھیں، جیسا کہ سورہ روم سے ظاہر ہوتا ہے، اور عرب میں ہونے والی یہ عظیم تبدیلی بھی ان کے علم میں تھی، اس لیے جب انہیں مخاطب کیا گیا تو وہ جان گئے تھے کہ کن بنیادوں پر مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ مولانا عمار خان ناصر اپنی کتاب مطالعہ جہاد میں لکھتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان خطوط کو ہمارے اہل سیرت بالعموم ’دعوتی خطوط‘ کا عنوان دیتے ہیں، حالانکہ ان کے مضمون اور پیش وعقب کے حالات سے واضح ہے کہ ان میں مخاطبین کو محض سادہ طور پر اسلام کی دعوت نہیں بلکہ یہ وارننگ دی گئی تھی کہ ان کے لیے سلامتی اور بقا کا راستہ یہی ہے کہ وہ اس دعوت کو قبول کر لیں، بصورت دیگر انھیں اپنی حکومت واقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ مثال کے طور پر قیصر روم کے نام خط میں آپ نے لکھا: ’اسلم تسلم‘ ۔ ۴
نووی اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
ان قولہ ’’اسلم تسلم‘‘ فی نہایۃ من الاختصار وغایۃ من الاعجاز والبلاغۃ وجمع المعانی مع ما فیہ من بدیع التجنیس وشمولہ لسلامتہ من خزی الدنیا بالحرب والسبی والقتل واخذ الدیار والاموال ومن عذاب الآخرۃ. (شرح مسلم، ص ۱۱۴۴)
’’اسلم تسلم کا جملہ بے حد مختصر لیکن غایت درجہ بلاغت واعجاز کا حامل اور متنوع معانی پر محیط ہے۔ اس میں ’تجنیس‘ کی صنعت بھی بہت عمدہ طریقے سے استعمال ہوئی ہے اور ’تسلم‘ کے لفظ میں جنگ، قید، قتل اور اموال ودیار کے چھین لیے جانے کی صورت میں دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب، دونوں سے بچاؤ کا مفہوم شامل ہے۔‘
ان بادشہان کے رد عمل سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ان خطوط کی صرف دعوتی خط نہیں سمجھا تھا۔ کسری نے تو نامہ مبارک ہی چاک کر ڈالا تھا۔ حارث بن ابی شمر غسانی کو آپؐ نے لکھا تھا کہ ایک اللہ پر ایمان لے آؤ تمہاری بادشاہت برقرار رہے گی۔ جواب میں اس نے کہا کہ مجھ سے میری بادشاہت کون چھین سکتا ہے۔ میں اس پر یلغار کرنے والا ہوں۔ (ابن سيد الناس اليعمري، عیون الاثر، 2/339)
اسی طرح قیصر نے کہ دیا تھا کہ اگر محمد رسول اللہ ﷺ کی بات نہ مانی اور اس کا پایہ تخت ایک دن ان کے قدموں تلے ہوگا:
"یا معشر الروم ہل لکم فی الفلاح والرشد وان یثبت ملککم فتبایعوا ہذا النبی؟(بخاری، رقم ۷)
’’اے جماعت روم! کیا تم اس بات کی خواہش رکھتے ہو کہ تمہیں کامیابی اور ہدایت نصیب ہو اور تمہاری سلطنت قائم رہے اور تم اس نبی کی پیروی قبول کر لو؟‘‘
مولانا عمار خان ناصر لکھتے ہیں کہ "امام ابو عبید کی روایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خط میں قیصر کو اسلام قبول نہ کرنے کی صورت میں جزیہ ادا کرنے کا حکم بھی دیا۔ آپ نے فرمایا:
انی ادعوک الی الاسلام فان اسلمت فلک ما للمسلمین وعلیک ما علیہم فان لم تدخل فی الاسلام فاعط الجزیۃ فان اللہ تبارک وتعالی یقول: قاتلوا الذین ….. حتی یعطوا الجزیۃ عن ید وہم صاغرون والا فلا تحل بین الفلاحین وبین الاسلام ان یدخلوا فیہ او یعطوا الجزیۃ. (الاموال، ۹۳)
’’میں تمھیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔ اگر اسلام لے آؤ گے تو تمھارے حقوق وفرائض وہی ہوں گے جو مسلمانوں کے ہیں اور اگر اسلام میں داخل نہ ہونا چاہو تو پھر جزیہ ادا کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اہل کتاب سے قتال کرو …. یہاں تک کہ وہ زیردست ہو کر پستی کی حالت میں جزیہ ادا کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔ اور اگر یہ بھی نہیں تو پھر اس بات میں رکاوٹ نہ ڈالو کہ اہل روم اسلام میں داخل ہو جائیں یا جزیہ ادا کریں۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ ایران کے کسری نے بھی اسے ہلکا نہ لیا اور رسول اللہ ﷺ کو گرفتار کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ ایسا نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے صرف خط لکھنے سے اتمام حجت ہو گیا تھا، سارا معاملہ ان کے سامنے تھا۔
دوسرا یہ کہ صحابہ نے ان کے سامنے وہی شرائط رکھیں تھیں جو جزیرہ عرب کے اہل کتاب کے سامنے رکھی گئی تھیں اور سزا بھی وہی تجویز کی تھی جو جزیرہ عرب کے اہل کتاب پر نافذ کی گئی تھی۔ اس سے بھی یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ یہ معاملہ بھی اسی اصول کی روشنی میں طے ہوا جس اصول کے تحت عرب کے اہل کتاب سے معاملہ ہوا ہے۔ البتہ اس بات کا پورا امکان موجود تھا کہ عوام اور سرداروں میں ایسے لوگ ہوں جن کے لیے معاملہ ابھی واضح نہ ہوا ہو، اور وہ قومیت اور عصبیت کی وجہ سے صحابہ کے مقابلے میں آ کھڑے ہوں اور جنگ کے نتیجے میں مارے بھی گئے ہوں یا زندہ بچ جانے کی صورت میں مطیع ہو گئے ہوں، جیسا کہ مشرکین عرب پر اتمام حجت کے ہو جانے کے بعد صحابہ کی تلوارون کے عذاب نازل ہو جانے کے بعد بھی حکم دیا گیا کہ اگر کوئی مشرک تم سے پناہ طلب کرتے تو اسے پناہ دو تاکہ وہ اس دوران قرآن سن لے کیونکہ یہ لا علم لوگ ہیں۔
وَإِنْ أَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّىٰ يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّـهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْلَمُونَ (سورہ التوبہ 9:6)
اور اگر (اِس داروگیر کے موقع پر) اِن مشرکوں میں سے کوئی شخص تم سے امان چاہے (کہ وہ تمھاری دعوت سننا چاہتا ہے) تو اُس کو امان دے دو، یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سن لے۔ پھر اُس کو اُس کے مامن تک پہنچا دو۔ یہ اِس لیے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو (خدا کی باتوں کو) نہیں جانتے۔
گویا اس امکان کو تسلیم کیا گیا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کچھ لوگوں پر ابھی تک اتمام حجت نہ ہوا ہو۔ لیکن وہ عصبیت اورجہالت کی جنگ لڑتا ہوا اہل اسلام کے ہاتھوں مارا جائے یا مطیع ہو جائے۔ اتمام حجت کی سزا کا معاملہ مجموعی طور پر کیا گیا تھا نہ کہ انفرادی طور پر۔ بالکل ایسے ہی جیسے گزشتہ رسولوں کے وقت جب اتمام حجت کے بعد منکرین پر عذاب اترتا تھا تو ان کے معصوم بچوں اور کم عقل افراد بھی مارے ہی جاتے ہوں گے، مگر یہ گوارا کر لیا گیا۔ ان بے گناہوں کے حق میں یہ آفت موت بنی اور منکرین کے لیے عذاب۔
اسی وجہ سے صحابہ جنگ سے پہلے قبول اسلام کی اجمالی دعوت دیتے تھے، کیونکہ تفصیلات ان کے مخاطبین کے علم میں تھیں۔
تاہم یہ صحابہ کا اجتہادی معاملہ تھا کہ انہوں نے جزیرہ عرب میں ہونے والے اتمام حجت کے معاملے کو روم و ایران تک پھیلا دیا، تاہم، اس سلسلے میں ان کے پاس فتح و نصرت کی بشارتیں بھی موجود تھیں، جن سے ان کے اجتہاد کو تقویت ملی ہوگی۔
جاری۔۔۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔
“