قانونِ اتمامِ حجت اور اس کے اطلاقات
چند نمایاں اعتراضات کا جائزہ
قسط 34
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قانون اتمام حجت اور ارتداد کی سزا:
۔۔۔۔۔۔
ارتداد کی سزا کا معاملہ بھی یہاں اسی تناظر میں دیکھا گیا ہے۔ اگر کفر و شرک کو اس دنیا میں اس لیے سزا ملی کہ ایک رسول کے ذریعے ان پر اتمام حجت ہوا تھا اور اس وقت ملی جب اقوام کے پاس انکار کا کوئی عذر نہیں رہ گیا تھا تو بعینہ یہی معاملہ اس وقت کے مرتدین پر بھی لاگو ہوا تھا، ارتداد کا معاملہ بھی عقیدے سے متعلق ہے اور رسول اللہ کا ارشاد: مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ (صحیح بخاری) جو اپنا دین بدلے اسے قتل کر دو، بھی اسی تناظر میں درست معلوم ہوتا ہے۔
جس طرح آج یہ طے نہیں ہو سکتا کہ کس غیر مسلم پر اتمام حجت ہو گیا ہے، اسی طرح یہ معلوم کرنے کا بھی کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ مرتد ہونے والے کے پاس کوئی عذر نہیں ہے۔ جس طرح رسول کے اتمام حجت کے بعد کفر و شرک کی سزا قتل و محکومی کی صورت میں زمان و مکان کے ایک مخصوص دائرے میں ہی دی جا سکتی تھی، اسی طرح اس وقت کے ارتداد کی سزا بھی اسی دائرے تک محدود تھی۔
آج کوئی مرتد اگر موت کی سزا کے ڈر سے بظاہر مسلمان بن کر رہنے لگے تو قانون و معاشرہ اسے قبول کرنے کو تیار ہو جاتا ہے، لیکن اگر دیانت داری سے اپنے عقیدے کا اظہار کر دے تو سزا قتل قرار پائے، یہ بات عقل و فہم کی میزان پر بھی معقول معلوم نہیں ہوتی۔
البتہ اگر ارتداد کو پراپیگنڈا بنا لیا گیا ہو، یا دین کے معاملے میں تضحیک اور تحقیر کے رویے اپنا لیے جائیں تو اس صورت میں یہ معاملہ فساد فی الارض کے زمرے میں دیکھا جائے گا اور اسی طرح برتا جائے گا۔
آج کے مرتدین یا متشککین سے صرف مکالمہ ہو ہی ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر دور جدید کے جدید فلسفوں اور اہل مذھب کی طرف سے مذھب کے نام پر شدید بد اخلاقی اور انتہا پسندانہ رویوں کے بعد یہ آنکھوں دیکھی حقیقت ہے کہ عام لوگوں کے لیے دین کا تعارف یہی لوگ بن گئے ہیں، اور دین سے ان کی رو گردانی کی وجہ بھی۔ ایسے میں مذھب بیزار طبقے کو مرتد قرار دے کر ان کی موت کے فتاوی صادر کرنا نہ تو دین کا تقاضا ہے اور نہ دین کی کوئی خدمت، بلکہ دین کے نام پر مزید خرانی پیدا کرنے کا سبب ہے۔
یہاں یہ بھی واضح ہو جانا چاہیے کہ مذکورہ بالا حدیث مبارکہ کے ان الفاظ کے مطلق ہونے سے غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ منطقیانہ اصولی مباحث سے قطع نظر، اگر حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو کلام جب بھی کیا جاتا ہے تو وہ چاہے مطلق ہی کیوں نہ ہو اپنے عقلی مقیدات مضمر طور پر ضرور رکھتا ہے جو بدیہی طور پر سمجھ آ جاتے ہیں۔ مثلا اگر میں اپنے طلبہ سے یہ کہوں کہ سب طلبہ کھڑے ہو جائیں، لیکن اگر مجھے معلوم ہو کہ ان میں کوئی معذور بھی ہے تو یہ حکم اس کے لیے نہیں سمجھا جائے گا، وہ کھڑا نہیں ہوگا اور حکم کی نفی شمار نہیں ہوگی۔ چنانچہ جب رسول اللہ ﷺ نے مرتدین کے قتل کا یہ حکم فرمایا تو ان کے سامنے وہ لوگ موجود تھے جن پر آپ نے اتمام حجت کر دیا تھا، دین کی حقانیت آخری درجے میں واضح کر دی تھی، اور ان کے سامنے اسلام قبول کرنے کے علاوہ دوسرا کوئی انتخاب نہیں بچا تھا۔ یہ خدائی سزا تھی جو ان پر نافص کی گئی جیسے کفر و شرک کی سزا مشرکین اور اہل کتاب پر نافذ کی گئی۔ اس کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں۔ اس لیے یہ سمجھنا کہ یہ حکم ابدی تھا، اور رسول اللہ ﷺ کوئی کسی قانون کا بیان فرما رہے تھے تو یہ اسلام کے بنیادی اصول، لا اکراہ فی الدین (دین میں کوئی جبر نہیں) کے خلاف ہوگا۔
مولانا مودودی نے ارتداد کے مسئلے کو بھی دین کے بارے میں اپنے خاص نقطہ نظر، حاکمیت اسلام کے تناظر میں دیکھا ہے۔ آپ نے اسے دین سے بغاوت اور سرکشی قرار دیا ہے۔ اور کہا کہ ہے کہ بغاوت کی سزا ہر ریاست موت دیتی ہے، اس لیے ارتداد کی سزا کا موت ہونا درست ہے۔
اس پر عرض ہے کہ ارتداد کو بغاوت سمجھنا ہی غلط ہے۔ بغاوت کسی چیز کے خلاف ہوتی ہے۔ ہم ریاست کی مثال ہی لے لیتے ہیں۔ ایک شخص اگر ریاست کے خلاف کھڑا ہو جائے تو یہ بغاوت ہے، لیکن اگر وہ اپنا ملک چھوڑ کر چلا جائے، مزید یہ کہ اپنی شہریت بھی ترک کر دے تو کون اسے باغی کہتا ہے۔ ارتداد اگر اسلام کے خلاف پراپیگنڈا، تضحیک و تحقیر کا ذریعہ بنا لیا گیا ہو تب تو اسے بغاوت کہا جا سکتا ہے لیکن علمی و عقلی بنیاد پر شکوک و شبھات کی بنا پر کوئی دین چھوڑ رہا ہو تو اس پر بغاوت کی تعریف کیسے صادق آسکتی ہے۔ اور اگر یہ تاویل کی جائے کہ مرتد ہونے والا دوسرے مسلمانوں کے لیے ارتداد کی دعوت بن جاتا ہے اس لیے اس کا قتل کرنا درست ہے تو یہ بات بھی سماجی رویوں کے مطابق نہیں۔ ایسا مرتد اگر موت کے ڈر سے بھی اپنے ارتداد سے نہ پھرے، اپنے مزعومہ عقیدے یا نظریے پر جان دے دے، تو یہ الٹا اس کی استقامت کی دلیل بنا جائے گی اور دوسروں کے لیے اور بھی متاثر کن ہوگی۔
جاری۔۔۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔
“