قانونِ اتمامِ حجت اور اس کے اطلاقات
چند نمایاں اعتراضات کا جائزہ
قسط 33
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اتمام حجت تو انفرادی طور پر ہوا، لیکن اس کی سزا کا نفاذ اجتماعی طور ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بات مد نطر رہنی چاہیے خدا کی طرف سے دنیا کے اجتماعی معاملات بارے میں فیصلے انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی رویوں کے مطابق کیے جاتے ہیں۔ مثلًا،
خدا فرماتا ہے:
وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِيُهْلِكَ الْقُرَىٰ بِظُلْمٍ وَأَهْلُهَا مُصْلِحُونَ (سورہ ھود، 11:117)
(اے پیغمبر)، تیرا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو (اُن کے) کسی ظلم کی پاداش میں ہلاک کر دے، جبکہ اُن کے باشندے اصلاح کرنے والے ہوں۔
یہ معلوم ہے کہ کسی صالح ترین معاشرے میں سارے کے سارے مصلح نہیں ہو سکتے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہاں مراد یہ ہے کہ ایسا سماج ہے جہاں افراد کی ایک قابل لحاظ تعداد اصلاح کر رہی ہو، جن کے اثرات اجتماعی طور پر محسوس ہو سکیں تو ایسی اقوام کو خدا تباہ نہیں کرتا۔ اصلاح کرنے والے اگر اس قابل نہ ہو پائیں کے اجتماعی دھارے کو متاثر کر پائیں تو پھر چاہے وہ مصلح نبی اور رسول ہی کیوں نہ ہو، خدا اس قوم کی اجتماعی نالائقی کی بنا پر ان کو تباہ کر دیتا ہے۔
اسی طرح خدا کہتا ہے کہ
ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّـهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَىٰ قَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ ۙ وَأَنَّ اللَّـهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (سورہ انفال، 8:53)
یہ اِس وجہ سے ہوا کہ اللہ کسی نعمت کو جو اُس نے کسی قوم کو عطا کی ہو، اُس وقت تک نہیں بدلتا، جب تک وہ اپنے آپ میں تبدیلی نہ کریں۔ (نیز) اِس وجہ سے کہ اللہ سمیع و علیم ہے۔
یہ بھی کبھی ممکن نہیں ہوا کہ کسی بد ترین معاشرے میں سب کے سب ہی گناہ گار ہو جائیں۔ کوئی بھی سماج کتنا ہی برا کیوں نہ ہو، اس میں کچھ اچھے اور کچھ بہت اچھے لوگ بھی ضرور ہوتے ہیں۔ لیکن خدا کے ہاں فیصلہ ان کی مجموعی حیثیت کے اعتبار سے ہوتا ہے۔ اگر لوگوں کی غالب اکثریت بری ہے تو ان کی قومی حالت، اس آیت کی رو سے، ضرور خراب کر دی جاتی ہے۔
اسی کلیہ کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ رسولوں کے ذریعے اتمام حجت تو ممکنہ حد تک انفرادی طور پر ہوا، لیکن رسول کے انکار کے بعد دنیاوی سزا کے نفاذ کا فیصلہ قوم کی مجموعی یا اجتماعی رویہ دیکھ کر کیا گیا۔
اتمام حجت کے بعد دنیاوی عذاب کی پہلی صورت میں دیکھیے جب قدرتی طاقتوں: ہوا، پانی اور زلزلہ وغیرہ سے عذاب دیا گیا، اس میں عمومًا کوئی اشکال وارد نہیں کیا جاتا، حالانکہ اس بات کا پورا امکان ہے کہ منکرین کے ساتھ ان کے معصوم بچے، کم عقل، اور فاتر العقل افراد بھی ضرور مارے گئے ہوں گے۔ عذاب سے پہلے مومنین کو جس طرح بچانے کی کوشش کی گئی، اس طرح کفار میں کی قوم میں سے ایسے افراد کے بچاؤ کے لیے کوئی کوشش نہیں کی گئ۔ ان میں شاید اسے بھی ہوں جن پر مزید سمجھانے کی ضرورت بھی ہو۔ لیکن خدا نے جب عذاب نازل کرنے کا فیصلہ نازل کر لیا تو ایسے لوگ بے گناہوں کا مارا جانا گوارا کر لیا گیا۔ ان کے حق میں وہ عذاب محض موت کا سبب بنا، اور موت تو آنی ہی تھی، جب کہ منکرین پر نازل ہونے کے لحاظ سے وہ نشان حق بن گیا۔ چنانچہ قوم پر عذاب کا فیصلہ قوم کی مجموعی حیثیت میں کیا گیا، ہر ہر فرد کو نہیں دیکھا گیا۔
اسی طرح، محمد رسول اللہ کے وقت جب دنیاوی عذاب، صحابہ کی تلواروں صورت میں نازل کیا گیا، تو معصوم بچوں، اور دوسرے غیر مکلف افراد حتی کے خواتین تک کو بچا لینا ممکن ہو گیا، تاہم، ایسے افراد کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا جن کو مزید سمجھانے کی گنجائش تھی۔ خود قرآن میں ہی ہے کہ عین اس وقت جب مشرکین کے خلاف آخری اعلان جنگ کر دیا گیا اس وقت بھی کہا گیا کہ:
وَإِنْ أَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّىٰ يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّـهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْلَمُونَ (سورہ التوبہ، 9:6)
اور اگر (اِس داروگیر کے موقع پر) اِن مشرکوں میں سے کوئی شخص تم سے امان چاہے (کہ وہ تمھاری دعوت سننا چاہتا ہے) تو اُس کو امان دے دو، یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سن لے۔ پھر اُس کو اُس کے مامن تک پہنچا دو۔ یہ اِس لیے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو (خدا کی باتوں کو) نہیں جانتے۔
تاہم جنگ کا نفاذ قوم کے اجتماعی رویے کے مطابق کر دیا گیا۔ خدا نے منکرین پر ایک خاص وقت کے بعد عذاب کی شکل میں نشانِ حق قائم کرنا تھا، اب اس میں گہوں کے ساتھ جو گھن بھی پس گیا، اس کا فیصلہ آخرت کی عدالت میں پورے عدل سے ہو جائے گا۔ دنیا کی محدودیت میں اتنا ہی ممکن تھا۔
اسی کلیے کا اطلاق روم و ایران کے لوگوں پر بھی کیا جا سکتا ہے۔ اپنی قومی حیثیت میں انہوں نے صاف طور پر بتا دیا تھا کہ وہ اسلام کے پیغام پر کبھی لبیک کہنے والے نہیں۔ ان کے سادہ لوح، کم عقل لوگوں کو چھوڑ کر باقی قوم پر یہ عیاں ہو چکا تھا کہ عرب میں ایسی بڑی تبدیلی ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ لیکن عام آدمیوں میں ہم ایسے لوگوں کے وجود کے امکان کو رد نہیں کر سکتے جو بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْلَمُونَ (یہ ایسے لوگ ہیں جو (خدا کی باتوں کو) نہیں جانتے۔) کے زمرے میں آتے ہیں۔ لیکن ان کے ساتھ بھی اتمام حجت کے بعد جنگ کا فیصلہ ان کے قومی رویے کے لحاظ سے کر دیا گیا۔ واللہ اعلم۔
جاری۔۔۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔
“