قانونِ اتمامِ حجت اور اس کے اطلاقات
چند نمایاں اعتراضات کا جائزہ
قسط 32
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد رسول اللہ کے وقت ظاہری اسلام کو گوارا کرنے سے یہ بھی سمجھ آتا ہے کہ پہلے سے موجود منافقین کے وجود کو بھی کیوں گوارا کر لیا گیا اور کوئی دنیاوی سزا ان پر نہیں آئی۔ ان کو خدا اور رسول کی طرف جو دھمکیاں دی گئیں تھیں وہ ان کی معاندانہ سازشی کارروائیوں کے جواب میں دی گئیں تھیں۔ اسلام کے سیاسی غلبے نے انہیں مجبور کر دیا کہ وہ اپنی حرکتوں سے باز آ جائیں، اب محض دل کی کیفیت پر ان پر قتال کا عذاب مسلط نہیں کیا گیا جیسا کہ مشرکین اور اہل کتاب پر مسلط کیا گیا جو کھلم کھلا انکار یعنی کفر پر بضد تھے۔ یہ خدا کا فیصلہ تھا، اس کی ایک اور وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ بلا ضرورت قتال سے بچا جائے۔ یہ لوگ بظاہر ملت اسلامیہ کا ہی حصہ معلوم ہوتے تھے۔ پھر یہ کہ مجموعی حالات کے اثر سے ممکن تھا کہ ایسے لوگوں کے دل میں ایمان حقیقتًا اتر ہی جائے، کیونکہ ان کا اصل مذھب عصبیت تھا، اپنے قوم و قبیلے کا طور طریقہ تھا، جب قوم اور قبیلے ہی مسلمان ہو گئے تو عصبیت کی خاطر ہی سہی، یہ پکے مسلمان بن سکتے تھے، اور ہم جانتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا۔ یہی مرتد ہونے والے قبائل تھے، جو از سر نو اسلام میں شامل ہو کر، خلافت اسلامیہ کے جھنڈے تلے جہاد کرتے رہے اور اس کی تقویت کی باعث ہوئے۔ اور کچھ نہیں تو ایسے لوگوں کی اولادوں کے مسلمان ہونے کا تو قوی امکان موجود تھا۔ آخرت کا معاملہ البتہ الگ ہے جہاں خدا کی عدالت پورے علم کی روشنی میں ایسے لوگوں کا فیصلہ کرے گی۔
جاری۔۔۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔
“