قانونِ اتمامِ حجت اور اس کے اطلاقات
چند نمایاں اعتراضات کا جائزہ
قسط 31
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قوم پر دنیاوی عذاب سے پہلے رسول نہ صرف فوت ہو سکتے ہیں بلکہ ان کا قتل بھی ممکن ہے، چنانچہ قرآن مجید میں ہے:
وَإِن مَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ (سورہ الرعد، 13:40)
ہم جو وعید اِنھیں سنا رہے ہیں، اُس کا کچھ حصہ ہم تمھیں دکھا دیں گے یا تم کو وفات دیں گے (اور اِس کے بعد اِن سے نمٹیں گے)۔ سو تمھاری ذمہ داری صرف پہنچانا ہے اور اِن کا حساب لینا ہمارا کام ہے۔
فَإِمَّا نَذْهَبَنَّ بِكَ فَإِنَّا مِنْهُم مُّنتَقِمُونَ أَوْ نُرِيَنَّكَ الَّذِي وَعَدْنَاهُمْ فَإِنَّا عَلَيْهِم مُّقْتَدِرُونَ (سورہ الزخرف43:41-42)
اب تو یہی ہو گا کہ یا ہم تمھیں اٹھا لیں گے، پھر اِن سے ضرور بدلہ لیں گے۔ یا جس (عذاب) کا وعدہ ہم نے اِن سے کیا ہے، وہ (تمھارے اِس دنیا میں ہوتے ہوئے) تم کو لا دکھائیں گے، اِس لیے کہ ہم اِن پر پوری قدرت رکھتے ہیں۔
البتہ اتمام حجت سے پہلے رسول کی موت یا قتل نہیں ہو سکتا، ورنہ اس کا مشن پورا نہ ہو سکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جب غزوہ احد میں رسول اللہ ﷺ کی شھادت کی خبر پھیلی اور مسلمان سراسیمہ ہو کر منتشر ہو گئے تو خدا نے یہ نہیں کہا کہ رسول تو قتل ہو ہی نہیں سکتا بلکہ یہ کہا کہ اگر فوت ہو جائیں یا قتل ہو جائیں تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟
وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّـهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللَّـهُ الشَّاكِرِينَ (سورہ آل عمران 3:144)
محمد ایک رسول ہی ہیں۔ (اُن کے شہید ہو جانے کی خبر نے تمھارے قدم ڈگمگا دیے)۔ اُن سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں، (اور موت وحیات کے یہ مراحل اُن پر بھی آئے)۔ پھر کیا وہ وفات پا جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو تم لوگ الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ (یاد رکھو)، جو الٹا پھرے گا، وہ اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا اور اللہ عنقریب اُن کو صلہ دے گا جو ہر حال میں اُس کے شکر گزار رہے ہیں۔
چونکہ اس وقت تک اتمام حجت ہو چکا تھا، اس لیے آپؐ کے فوت ہونے کا امکان موجود تھا، اگرچہ شریعت مکمل نہیں ہوئی تھی۔
لیکن حقیقتًا کوئی رسول قتل ہوا ہے یا نہیں، تو قرآن میں موجود رسولوں کے تذکرہ میں ایسا کوئی واقعہ ہمیں نہیں ملتا۔ البتہ قرآن کی ایک آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل، رسولوں کے قتل میں ملوث رہے ہیں:
وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِن بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ أَفَكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَىٰ أَنفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ (سورہ البقرہ، 2:87)
ور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تھی اور اُس کے پیچھے پے در پے اپنے پیغمبربھیجے تھے، اور مریم کے بیٹے عیسیٰ کو (اِن سب کے بعد) کھلی کھلی نشانیاں دیں اور روح القدس سے اُس کی تائید کی (تو جانتے ہو کہ اُن کے ساتھ تمھارا رویہ کیا رہا)؟ پھر کیا یہی ہوگا کہ جب بھی (ہمارا) کوئی پیغمبر وہ باتیں لے کر تمھارے پاس آئے گا جو تمھاری خواہشوں کے خلاف ہوں گی ، تو تم (اُس کے سامنے) تکبر ہی کرو گے ؟ پھر ایک گروہ کو جھٹلا دو گے اور ایک گروہ کو قتل کرو گے۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اصطلاحی رسولوں میں سے صرف دو ہی رسول بنی اسرائیل میں مبعوث ہوئے تھے: ایک موسیٰ اور دوسرے عیسیٰ علیھما السلام، اور دونوں ہی قتل نہیں ہوئے تو پھر اس آیت میں کن رسولوں کے قتل ہونے کا ذکر ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں رسول اپنے اصطلاحی معنی میں استعمال نہیں ہوا بلکہ لفظی معنی میں استعمال ہوا ہے، جس پر مفصل بحث پہلے گزر چکی کہ قرآن رسول اور نبی کے لفظ کو ان کے لفظی معنی میں بھی استعمال کرتا ہے، چونکہ یہاں انذار، حجت، اور عذاب کا کوئی ذکر نہیں، اس لیے اصطلاحی رسول مراد لینے کی کوئی قید نہیں۔ اس لیے یہ اشکال پیش نہیں آنا چاہیے۔
جاری۔۔۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔
“