قانونِ اتمامِ حجت اور اس کے اطلاقات
چند نمایاں اعتراضات کا جائزہ
قسط 30
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا محمد رسول اللہ ﷺ کا اتمام حجت صرف جزیرہ عرب تک محدود تھا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک سوال یہ کیا گیا کہ "کیا رسول اللہ ﷺ کے اتمامِ حجت کا مشن صرف جزیرۂ عرب تک تھا ؟ کیوں کہ آپ کو زندگی میں غلبہ صرف جزیرۂ عرب کی حد تک ہی ملا ۔یہ غلبہ بھی عارضی تھا اور آپ کی وفات کے ساتھ ہی عرب میں ارتداد کی لہر پھیل گئی جس پر سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ ہی قابو پا سکے تھے اور مولانا اصلاحی کی اختیار کردہ تاویل کے مطابق سورۃ التوبہ کی آیت فان تابوا و اقاموا الصلوۃ و آتوا الزکوۃ فخلوا سبیلھم اور رسول اللہ ﷺ کے فرمان امرت ان اقاتل الناس کا عملاً نفاذ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ارتداد کی جنگ کے موقع پر ہی کیا۔ تو جب جزیرۂ عرب میں بھی رسول اللہ ﷺ کا غلبہ آپ کے بعد ہی مستحکم ہوا تو وہ اتمامِ حجت کے بعد رسول کے غلبے کی بات کیا ہوئی؟"
معلوم ہونا چاہیے کہ رسول کے ذریعے نشانِ حق قائم کرنا مقصود ہوتا ہے۔ رسول کے غلبے سے محض سیاسی غلبہ مراد نہیں، جیسا کہ پہلے مذکور ہوا۔ یہ غلبہ منکرین کی مغلوبیت کا نام ہے، جس کا اظہار منکرین پر دنیاوی عذاب کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اس عذاب کو مکمل طور پر رسول کا دیکھنا بھی ضروری نہیں، جیسا کہ قرآن مجید میں بتایا گیا تھا کہ آپ اس سے پہلے دنیا سے رخصت بھی ہو سکتے ہیں۔ ذریت ابراہیم کے رسولوں میں یہی ہوا ہے کہ نشان حق قائم ہو جانے کے بعد، باقی کا غلبہ ذریت ابراہیم کرتی تھی۔ موسیؑ کے بعد ان کے خلفاء نے باقی کا غلبہ، کہ جس کا وعدہ کیا گیا تھا، پورا کیا، اسی طرح رسو ل اللہ ﷺ کے خلفاء کے ہاتھوں عرب اور بیرون عرب غلبے کا وعدہ پورا ہوا۔ قرآن مجید کی یہ آیت اس پر شاہد ہے رسول کی بعثت خصوصیت سے عرب کے لیے تھی، اور پھر نبی اسماعیل کی بعثت باقی دینا کے لیے ہے:
وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا (سورہ البقرہ، 2:143)
(ہم نے یہی کیا ہے ) اور (جس طرح مسجد حرام کو تمھارا قبلہ ٹھیرایا ہے)، اِسی طرح ہم نے تمھیں بھی ایک درمیان کی جماعت بنا دیا ہے تاکہ تم دنیا کے سب لوگوں پر (حق کی) شہادت دینے والے بنو اور اللہ کا رسول تم پر یہ شہادت دے ۔
اس سے بھی صاف معلوم ہورہا ہے کہ رسول کی حجت ذریت ابرہیم پر ہے اور پھر ذریت ابراہیم کی حجت باقی لوگوں پر ہے۔ جزیرہ عرب کی حد تک البتہ، محمد رسول اللہ ﷺ کے ذریعے اس سیاسی غلبے کی تاسیس بھی کر دی گئی، جس کا وعدہ ذریت ابراہیم (یہاں بنی اسماعیل) سے اس خصوصی عہد کے تحت کیا گیا تھا۔
جاری۔۔۔۔۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔
“