قانونِ اتمامِ حجت اور اس کے اطلاقات
چند نمایاں اعتراضات کا جائزہ
قسط 3
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خدا کے عدل کا تقاضا ہے کہ وہ اس دنیا کے دارِ الامتحان میں ایمان و عمل کی آزمائشوں میں کامیاب ہونے والے اپنے فرمانبردار بندوں کو اپنے فضل سے نوازے اور اپنی کوتاہی سے ناکام ہونے والے نافرمانوں کو سزا دے۔ ظلم و زیادتیوں کا مکمل عدل سے فیصلہ کرے۔ بدیہی طور پر خدا نے اپنی وحی میں ایسا ہی کرنے کا وعدہ فرمایا ہے، اور اس کے کامل ظہور کا وقت قیامت بتایا ہے۔
لیکن عدل و انصاف کا تقاضا ہے کہ اس جزا و سزا کے لیے ایمان و اخلاق کے باب میں خدا کی طرف سے انسان پر اتمام حجت ہونا ضروری ہے تاکہ وہ خدا کے سامنے کوئی عذر پیش نہ کر سکے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ خدا کی اسکیم بھی یہی ہے۔
اس دنیا میں انسان پر اتمام حجت، دو طرح سے ہوتا ہے۔ ایک اس کی عقل و فطرت اور انفس و آفاق کی گواہی کی صورت میں، اور دوسرا خدا کی طرف سے وحی کی شکل میں۔ عقل و فطرت کی گواہی ایک حقیقت ہے، ہر شخص اس کا تجربہ کرتا ہے۔ لیکن کیا یہ گواہی ایمان و اخلاق کے باب میں انسان کو مواخذہ کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کے لیے کافی ہے؟ قرآن
اس کا جواب اثبات میں دیتا ہے:
وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَىٰ شَهِدْنَا أَن تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَـٰذَا غَافِلِينَ أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَكَ آبَاؤُنَا مِن قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِّن بَعْدِهِمْ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ (سورہ اعراف، آیت 172-173)
(اے پیغمبر، اِنھیں وہ وقت بھی یاد دلاؤ)، جب تمھارے پروردگار نے بنی آدم کی پشتوں سے اُن کی نسل کو نکالا اور اُنھیں خود اُن کے اوپر گواہ ٹھیرایا تھا۔ (اُس نے پوچھا تھا): کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟ اُنھوں نے جواب دیا: ہاں،( آپ ہی ہمارے رب ہیں)، ہم اِس کی گواہی دیتے ہیں۔ یہ ہم نے اِس لیے کیا کہ قیامت کے دن تم کہیں یہ نہ کہہ دو کہ ہم تو اِس بات سے بے خبر ہی رہے۔ یا اپنا یہ عذر پیش کرو کہ شرک کی ابتدا تو ہمارے باپ دادا نے پہلے سے کر رکھی تھی اور ہم بعد کو اُن کی اولاد ہوئے ہیں، پھر کیا آپ اِن غلط کاروں کے عمل کی پاداش میں ہمیں ہلاک کریں گے؟
استاد جناب جاوید احمد غامدی صاحب اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
" جہاں تک توحید اور بدیہیات فطرت کا تعلق ہے، اُن کے بارے میں مجرد اِس اقرار کی بنا پر بنی آدم کا مواخذہ کیاجائے گا۔ اُن سے انحراف کے لیے کسی کا یہ عذر خدا کے ہاں مسموع نہیں ہو گا کہ اُسے کسی نبی کی دعوت نہیں پہنچی یا اُس نے یہ انحراف خارجی اثرات کے نتیجے میں اختیار کیا تھا اور اِس کے ذمہ دار اُس کے باپ دادا اور اُس کا ماحول ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ انسان کے باطن کی یہ شہادت ایسی قطعی ہے کہ ہر شخص مجرد اِس شہادت کی بنا پر اللہ کے حضور میں جواب دہ ہے۔"
دوسری صورت وحی کی ہے۔ وحی سے ہونے والے اتمام حجت کی بھی دو صورتیں ہیں، ایک صاحب وحی یعنی نبی اور رسول کے ذریعے براہ راست اتمام حجت ہونا، اور دوسرا اسی وحی کی محض خبر سن کر اور وحی کو مصحف میں پڑھ کر اتمام حجت ہوا، اس میں نبی اور رسول سے براہ راست سننے اور جاننے کی نوبت نہیں آتی۔ پھر نبی اور رسول کے اتمام حجت میں بھی کاملیت کے اعتبار سے فرق ہے، جس پر مفصل بحث الگ سے آگے آئے گی۔
عدل و انصاف کا تقاضا ہے کہ آزمائش کے لحاظ سے اتمام حجت کے ان تینوں قسم کے مخاطبین کے معاملے میں جزا اور سزا میں بھی فرق ہونا چاہیے۔ جس شخص کو رسول سے براہ راست ایمان کی دعوت، اپنے تمام دلائل، براہین، معجزات وغیرہ کے ذریعے کامل طریقے سے ملی ہو اور اس کو یہ سب دیکھنے۔ سننے اور سمجھنے کا موقع ملا ہو، اس نے نبی اور رسول کی پیشین گوئیوں کو پورا ہوتے آنکھوں سے دیکھا ہو، اس کا احتساب، یقینا اس شخص سے کڑا ہونا چاہیے جو وحی اور رسول سے مطلقًا بے خبر رہا، جس سے ایمان کا تقاضا محض فطرت کی پکار اور کائنات کی گواہی پر لبیک کہنے تک محدود رہا، اور دوسرا وہ جسے محض خبر سن کر اور دلائل کی بنیاد پر ایمان لانے کو کہا گیا، اور وہ رسول کی صورت میں خدا کی قدرت کے زندہ نشانوں کا مشاہدہ کر کے ایمان لانے کی کیفیت سے محروم رہا۔
یہی وجہ معلوم ہوتی ہے کہ رسول کے براہ راست مخاطیبن، جن کے سامنے ان کی فطرت، انفس و آفاق کے علاوہ رسول کی شکل میں خدا کی قدرت کے ایک زندہ ظہور کی صورت میں اتمام حجت ہوا، ان کے انکار کی سزا صرف آخرت پر موقوف نہیں رکھی گئی، بلکہ انہیں دنیا اور آخرت کے دہرے عذاب کی سزا دی گئی۔ مثلا دیکھیے:
وَلَنُذِيقَنَّهُم مِّنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَىٰ دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (سورہ السجدہ، 32:21)
اس بڑے عذاب سے پہلے ہم کسی قریب کے عذاب کا مزہ بھی اُن کو ضرور چکھائیں گے تاکہ وہ رجوع کریں۔
ایک دنیاوی عذاب کا قصہ سنا کر قریش سے کہا گیا:
كَذَٰلِكَ الْعَذَابُ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ (سورہ القلم، :3368)
(لوگو)، اِس طرح آئے گا عذاب اور آخرت کا عذاب تو اِس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ کاش، یہ لوگ اِس کو جانتے۔
فَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَأُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمَا لَهُم مِّن نَّاصِرِينَ (سورہ آل عمران، 3:56)
پھر یہی نہیں، اِن منکروں کو میں دنیا اور آخرت ، دونوں میں سخت سزا دوں گا، اور وہ کوئی مددگار نہ پائیں گے۔
یعنی ان کے عذاب کا سلسلہ دنیا ہی سے شروع کر دیا گیا جس کا کامل ظہور قیامت میں رکھا گیا، یہ دنیاوی سزا اس لیے کہ اس شدید قسم کے انکار کی سزا کی سنگینی کے ساتھ ساتھ، قیامت کی جزا و سزا کا منظر حسی اور سماعی طور بھی لوگوں کے سامنے آ جائے، اور وہ اس سے عبرت حاصل کرتے رہیں۔
رسول کی دعوت کے براہ راست منکرین کے علاوہ باقی لوگ جنھیں وحی سے ملنے والے تفصیلی ایمان اور اخلاق کا علم نہ ہو سکا، ان سے جتنے ایمان و اخلاق کا تقاضا بنتا ہے، اس کا فیصلہ آخرت پر موقوف کر دیا گیا ہے، جو اپنے اپنے حالات کے مطابق، خدا کے کامل
علم اور عدل کی روشنی میں نجات یا سزا کے مستحق قرار پائیں گے۔
اسی طرح، رسول کے براہ راست مخاطب بن کر اس پر ایمان لانے والوں اور اس کے لیے جان و مال قربان کرنے کا حوصلہ کر لینے والوں کے لیے بھی دہرے اجر کا فیصلہ سنایا گیا، انہیں دینا میں سیاسی غلبے اور مالی خوشحالی کے فیصلے سنائے گئے۔ ان کے لیے انعامات کا سلسلہ بھی دنیا ہی سے شروع کر دیا گیا، جس کا کامل ظہور قیامت میں ہوگا۔ اور ان کے علاوہ ایمان لانے والوں اور جان و مال قربان کرنے والوں کے لیے دنیا میں انعام کا وعدہ اجتماعی طور اور یقینی طور پر نہیں کیا گیا۔ ان کے انعامات کے لیے آخرت کا دن مقرر کیا گیا۔
جاری۔۔۔۔۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔
“