قانونِ اتمامِ حجت اور اس کے اطلاقات
چند نمایاں اعتراضات کا جائزہ
قسط 29
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب جب یہ طے ہو جاتا ہے کہ رسول کا سیاسی غلبہ، منصب رسالت کا جزو نہیں ہے تو محمد رسول اللہ ﷺ کے سیاسی غلبے کو اسوہ رسول یا سنت رسول قرار دے کر، اس مثال کی پیروی کرنے کو کسی بھی درجے میں دینی فریضہ سمجھنا بھی ایک غلط فہمی ہے۔
ہمارے اس بیان سے مسلمانوں کے لیے سیاسی جدوجہد کی نفی کرنا مقصود نہیں، سیاسی جدوجہد کا فیصلہ، کسی علاقے کے مسلمانوں کا اپنا مقامی معاملہ ہے۔ وہ اپنے حالات کے مطابق فیصلہ کر سکتے ہیں کہ پر امن رہتے ہوئے، حق و انصاف کے تقاضوں کے تحت، انہیں کس طرح اپنی حکومت قائم کرنے کی جدوجہد کرنی چاہیے، جو بعض صورتوں میں نہایت ضروری اور ناگزیر بھی ہو سکتی ہے، تاہم یہاں سیاسی جدوجہد کو دینی فریضہ سمجھنے کی نفی مقصود ہے، یہ سراسر دنیاوی سیاست کا معاملہ ہے۔ تاہم، مسلمانوں کو جب سیاسی غلبہ حاصل ہو جائے تو ان پر لازم ہو جاتا ہے کہ شریعت اسلامیہ کے مسلم اجتماعیت سے متعلق دینی احکامات کو بروئے کار لائیں، اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو قرآن مجید کی رو سے ایک کافرانہ، فاسقانہ اور ظالمانہ فعل کے مرتکب قرار پاتے ہیں:
وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ (سورہ المائدہ، 5:44)
اور (یاد رکھو کہ) جو لوگ اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے مطابق فیصلے نہ کریں، وہی منکر ہیں۔
وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (سورہ المائدہ، 5:45)
ور (یہ بھی کہ) جو اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے مطابق فیصلے نہ کریں، وہی ظالم ہیں۔
وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (سورہ المائدہ، 5:47)
جو اللہ نے اُس میں نازل کیا ہے اور جو اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے مطابق فیصلے نہ کریں، وہی فاسق ہیں۔
جاری۔۔۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔