قانونِ اتمامِ حجت اور اس کے اطلاقات
چند نمایاں اعتراضات کا جائزہ
قسط 28
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرا اشکال یہ پیش کیا جاتا ہے کہ سیاسی غلبہ تو مسیح کے ساتھیوں کو بھی بھی نہیں ملا۔ جب کہ رسول کے ساتھیوں کو غلبے کی بشارت دی جاتی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ رسول کے ساتھیوں کو سیاسی غلبے کی بشارت اس شرط کے ساتھ مشروط ہوتی ہے کہ وہ تعداد میں بھی اتنے ہوں کہ سیاسی غلبہ قائم کر سکیں۔ جیسا کہ انسانی ہاتھوں کے ذریعے اتمام حجت کے بعد دنیاوی سزا دینے کا معاملہ ہے کہ وہ بھی تب ہوتا ہے جب رسول کے ساتھی اچھی تعداد میں موجود ہوں۔ ورنہ پہلے یہ ہوتا رہا کہ رسولوں کے ساتھی، منکرین کی قدرتی طاقتوں کے ذریعے تباہی کے بعد دنیا میں اپنا وقت امن و اطمینان کے ساتھ گزار کر رخصت ہو جاتے رہے، جیسا کہ نوح، صالح، شعیب وغیرہ کے ساتھیوں کے ساتھ یہی صورت پیش ائی۔ حالانکہ کہ تباہی کے عذاب آنے سے پہلے قوم سے کہا جا رہا تھا کہ ایمان لے آؤ گے تو زمین و آسمان کی برکتوں سے لطف اندوز ہو گے۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا، مسیحؑ کے مومنین کے لیے بھی سیاسی غلبے کے اس انعام کی شرائط پوری نہ ہوئیں اور معاملہ آگے نہ بڑھا۔ یہی معاملہ مسیحؑ کی بادشاہت کی بشارت کا ہوا۔ شرائط پوری نہ ہوئیں تو ان کی بادشاہت بھی قائم نہ ہوئی۔
پھر یہ دیکھیے کہ مسیحؑ کے معاملے میں تو بنی اسرائیل ہی ان کے مقابل کھڑے ہو گئے تھے، جن کے لیے مسیحؑ کی پیروی کی صورت میں مسیحؑ کی بادشاہت اور ان کے سیاسی غلبے کی بشارت تھی۔ بشارت مشروط تھی، ان کی اطاعت کے ساتھ۔ انہوں نے جب نافرمانی کی تو اس نعمت سے محروم ہو گئے اور ذلت کی زندگی اور محکومی کا شکار ہو گئے۔ یعنی مسیحؑ کی بادشاہت کی پیشن گوئی کا مطلب یہ نہیں کہ مسیحؑ نے ہر حال میں نبی اسرائیل کا بادشاہ بننا تھا، بلکہ یہ تھا کہ اگر وہ ان کی اطاعت کریں گے تو مسیح کی قیادت میں اپنی دشمن قوموں پر غالب ہو جائین گے۔ بالکل یہی سکیم محمد رسول اللہ کے ذریعے دی گئی تھی۔ آپؐ بھی قریش کو یہی فرمایا کرتے تھے کہ اگر تم ایمان لے آو تو عرب و عجم تمہارے مطیع ہو جائیں گے، لیکن قریش نے آپ کی دعوت اور اس سے متعلقہ فوائد ٹھکرا دیے تھے اور وہ ذلیل ہوئے۔ تاہم ان میں جو ایمان لائے ان کی تعداد اتنی تھی کہ غلبے کا وعدہ ان کے حق مین پورا ہوا۔
جاری۔۔۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔
“