قانونِ اتمامِ حجت اور اس کے اطلاقات
چند نمایاں اعتراضات کا جائزہ
قسط 27
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسیحؑ کی بادشاہت:
بنی اسرئیل کی کتب میں مسیحؑ کو بنی اسرئیل کا بادشاہ کہا گیا تھا، مثلًا انجیل لوقا مین ہے:
" پیلاطوس نے اس سے پوچھا کیا تو یہودیوں کا بادشاہ ہے؟ اس نے اس کے جواب میں کہا تو خود کہتا ہے۔" (لوقا، 23:3)
"سپاہیوں نے بھی پاس آ کر اور سرکہ پیش کر کے اس پر ٹھٹھا مارا اور کہا کہ اگر تو یہودیوں کا بادشاہ ہے تو اپنے آپ کو بچا۔ اور ایک نوشتہ بھی اس کے اوپر لگا دیا تھا کہ یہ یہودیوں کا بادشاہ ہے۔" (لوقا، 23:36-38)
اس سے دو اشکال پیدا ہوئے۔ ایک یہ کہ اگر رسولوں کے غلبے کا مطلب ان کا سیاسی غلبہ ہے تو مسیحؑ کو کیوں سیاسی غلبہ نہ ملا۔ دوسرا یہ اگر مسیحؑ کی بادشاہت کوئی الگ معاملہ تھا، کوئی خدائی پیشن گوئی تھی اور وہ ان کے وقت میں پوری نہیں ہوئی اور پھر یہ پیشن گوئی دنیا میں ان کی آمد ثانی کے وقت پوری ہو گی۔
اس معاملے کو قانون اتمام حجت کی روشنی میں دیکھیتے ہیں۔ رسول کے سیاسی غلبے کی مذکورہ بالا بحث سے رسول کے غلبے کی حیثیت واضح ہو جاتی ہے کہ یہ غلبہ سیاسی غلبہ نہیں ہوتا، اس لیے مسیحؑ کے لیے بھی بحیثیت رسول سیاسی غلبہ قانون اتمام حجت رو سے ہونا ضروری نہیں۔ تاہم ان کے لیے بادشاہی کے لفظ سے ان کا سیاسی غلبہ ہونا ظاہر ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ اگر بنی اسرائیل مسیحؑ پر ایمان لے آتے اور فرمانبرداری کرتے تو ذریت ابراہیم سے وعدہ الہی کے مطابق سیاسی غلبہ انہیں ملتا اور محمد رسول اللہ ﷺ کی طرح ہی مسیحؑ بھی بنی اسرائیل کے سیاسی اور دینی امام ہونے کی حیثیت سے اس غلبہ کی ابتدا کرتے۔ لیکن چونکہ بنی اسرائیل نے ان کا انکار کیا اس لیے دنیاوی سیادت کا موقع انہوں نے گنوا دیا۔ اور مسیحؑ، بنی اسرائیل کے بادشاہ بنے بنا ہی دنیا سے رخصت ہوگئے۔ البتہ رسولوں کا غلبہ جو وعدہ الہی تھا وہ انہیں اس طرح ملا کہ دیگر رسولوں ہی کی طرح، ان کے کفار پر بھی عذاب نازل ہوا، وہ محکوم ہوئے، در بدر ہوئے، لیکن ان پر استصال کا عذاب اس لیے نہیں آیا کہ وہ توحید کے منکر نہیں تھے، جیسا کہ پیشتر اس پر مفصل بحث گزر چکی۔
جاری۔۔۔۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔