قانونِ اتمامِ حجت اور اس کے اطلاقات
چند نمایاں اعتراضات کا جائزہ
قسط 25
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ظاہری اسلام سے قتل کی سزا سے نجات کا معاملہ:
سورہ توبہ کی درج آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ محض ظاہری طور پر اسلام قبول کر لینے سے بھی اس قتل کے عذاب سے بچا جا سکتا تھا:
فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (سورہ التوبة، 9:5)
بڑے حج کے دن) اِس (اعلان) کے بعد جب حرام مہینے گزر جائیں تو اِن مشرکوں کو جہاں پاؤ، قتل کرو اور (اِس مقصد کے لیے) اِن کو پکڑو، اِن کو گھیرو اور ہر گھات کی جگہ اِن کی تاک میں بیٹھو۔پھراگر یہ توبہ کر لیں اور نمازکا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو اِن کی راہ چھوڑ دو۔ یقیناًاللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔
تو کیا محض ظاہری اسلام سے ایسے منکرین کو اس دنیاوی عذاب سے نجات مل گئی؟
اس پر عرض ہے کہ چونکہ محمد رسول اللہ ﷺ کے ذریعے اتمام حجت کے بعد اس دفعہ خدا نے انسانی ہاتھوں کے ذریعے دنیاوی عذاب مسلط کرنے کے طریقے کو چنا تھا، اس لیے انسانی محدودیت اس معاملے میں بھی شامل ہو گئی۔ اسی وجہ سے دنیا کی اس قیامت صغری میں سزا و جزا کا یہ کام بھی گزشتہ امتوں پر قدرتی طاقتوں کے ذریعے آنے والے عذاب اور آخرت میں ملنے والی سزا کی مانند پوری کاملیت سے کرنا ممکن نہیں ہو سکتا تھا، اس لیے ظاہری طور پر اسلام قبول کرنے والے بھی قتل کی سزا سے اس وقت بچ گئے۔ ان کا معاملہ آخرت میں خدا کے ذمے رہا۔ اور ظاہری طور پر اسلام کا غلبہ کافی سمجھا گیا۔
اس ظاہری اسلام کو گوارا کرنے سے یہ بھی سمجھ آتا ہے کہ پہلے سے موجود منافقین کے وجود کو بھی کیوں گوارا کر لیا گیا اور کوئی دنیاوی سزا ان پر نہیں آئی۔ ان کو خدا اور رسول کی طرف جو دھمکیاں دی گئیں تھیں وہ ان کی معاندانہ سازشی کارروائیوں کے جواب میں دی گئیں تھیں۔ اسلام کے سیاسی غلبے نے انہیں مجبور کر دیا کہ وہ اپنی حرکتوں سے باز آ جائیں، اب محض دل کی کیفیت پر ان پر قتال یا محکومی کا عذاب مسلط نہیں کیا گیا جیسا کہ مشرکین اور اہل کتاب پر مسلط کیا گیا جو کھلم کھلا انکار یعنی کفر پر بضد تھے۔ البتہ ظاہری مسلمانوں کا وجود گوارا کر لیا گیا۔ یہ خدا کا فیصلہ تھا، اس کی ایک اور وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ بلا ضرورت قتال سے بچا جائے۔ یہ لوگ بظاہر ملت اسلامیہ کا ہی حصہ معلوم ہوتے تھے۔ پھر یہ کہ مجموعی حالات کے اثر سے ممکن تھا کہ ایسے لوگوں کے دل میں ایمان حقیقتًا اتر ہی جائے، کیونکہ ان کا اصل مذھب عصبیت تھا، اپنے قوم و قبیلے کا طور طریقہ تھا، جب قوم اور قبیلے ہی مسلمان ہو گئے تو عصبیت کی خاطر ہی سہی، یہ پکے مسلمان بن سکتے تھے، اور ہم جانتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا۔ یہی مرتدین قبائل تھے، جو از سر نو اسلام میں شامل ہو کر، خلافت اسلامیہ کے جھنڈے تلے جہاد کرتے رہے اور اس کی تقویت کی باعث ہوئے۔ اور کچھ نہیں تو ایسے لوگوں کی اولادوں کے مسلمان ہونے کا تو قوی امکان موجود تھا۔ آخرت کا معاملہ البتہ الگ ہے جہاں خدا کی عدالت پورے علم کی روشنی میں ایسے لوگوں کا فیصلہ کرے گی۔
جاری۔۔۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔
“